کالم

عظمت قائد غیر کی زبانی

بانی پاکستان قائد اعظم کو قدرت نے بے پناہ خوبیاں عطا کی تھیں ان کی عظمت کے دوست تو قائل تھے لیکن ان کے بد ترین دشمن اور غیر بھی ان کی خوبیوں کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو گئے ۔نہرو خاندان کے چہیتے اور شیدائی لارڈ مائونٹ بیٹن نے قیام پاکستان کے کئی برس بعد بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے قائد اعظم کی خوبیوں کا بر ملا اعتراف کیا اور کہا” مجھے صرف اس مقصد کیلئے ہندوستان بھیجا گیا کہ میں ہندوستان کو کسی نہ کسی طرح سے متحد رکھ سکوں اور ایک متحدہ ہندوستان کو اقتدار منتقل کروں میں نے اس مقصد کیلئے بڑی کوششیں کیں ،دن رات ایک کر دئیے ، راتوں کی نیند حرام کی لیکن میرے مقصد کی راہ میں ایک شخص حائل تھا جو پہاڑ کی طرح رکاوٹ بنا رہا اور وہ تھا محمد علی جناح،وہ شروع سے ہی نہیں کہتا چلا گیا اور اس کی نہیں کو ہاں میں بدلنے کیلئے میری ہر کوشش ناکام ہو گئی اور آخر کار مجھے جناح کی نہیں کے آگے جھکنا پڑا اور اس کی ضد کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑے ۔”پنڈت جواہر لال نہرو کی بہن وجے لکشمی نے بھی قائد اعظم کو زبردست خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر مسلم لیگ کے پاس ایک سوگاندھی اورایک سو نہرو ہوتے اور کانگریس کے پاس ایک جناح تو پاکستان کبھی نہ بنتا ”۔مشہور صحافی مسٹر آرتھر مور اپنے مقالہ میں جو ”ہماری جنگ”کے عنوان سے ”اسٹیٹس مین” سے شائع ہوا ،قائد اعظم کی عظیم فراست کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے ” ایسے نازک وقت میں ایسا محکم اور اتنا جلد فیصلہ مسٹر جناح کے جوہر قیادت کی ایک ایسی دلیل ہے جس کا اگر موازنہ کیا جا سکتا ہے تو مسٹر چرچل کی اس تقریر سے جو انہوں نے جرمنی کے روس پر حملہ آور ہونے کے وقت کی تھی کہ ” کسی قائد کی قدوقامت اور اہمیت کا اندازہ خاص کر غیر جانبدارانہ تجزیہ و تبصرہ جو اس کی رحلت کے بعد سامنے آتا ہے بہت اہمیت کا حامل اور جامعیت لئے ہوتا ہے ،خصوصاً پریس جب کسی عظیم شخصیت کااس کی وفات کے بعد تجزیہ کرتا ہے وہ بڑا بر محل اور غیر جانبدارانہ ہوتا ہے ۔”اسی تناظر میں قائد اعظم کی عظمت کو اس سیاق و سباق کے حوالے سے ”دی ٹائمز” نے یوں خراج تحسین پیش کیا ” ہفتہ کو ہز ایکسیلینسی گورنر جنرل پاکستان محمد علی جناح کی 71سال کی عمر میں وفات نے اس ڈومینین کو عظیم قائد اعظم سے محروم کر دیاجس کی جدوجہد میں ہندوستانی مسلمانوں کی بھر پور تائید بھی شامل تھی جس کے نتیجہ میں ڈومینین وجود میں آئی ۔وہ گورنر جنرل ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آئین ساز اسمبلی اور مسلم لیگ کے صدر بھی تھے جس میں مسلم لیگ کو انہوں نے حقیقتاً غالب بنا دیا ۔وہ ہندوستانی عوام کے آئینی مقدر کے دل میں اپنے تاثر وکردار کے حوالے سے کسی طور بھی نہرو اور گاندھی سے کم قرار نہیں دئیے جا سکتے ۔انہوں نے مہارت کے ساتھ کسی بھی وحدانی طرز حکومت میں ہندوئوں کی بالا دستی کے مسلمانوں کے خدشات کو ابھارا اور اس کے نتیجے میں دو قومی نظریہ آخر کار غالب آگیا ۔عصر حاضر میں نشاندہی کسی اور راہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا گیا جن الفاظ میں قائد اعظم محمد علی جناح کو پیش کیا گیا ۔ان کی تعریف ایسے لوگوں نے بھی کی جو ان کے نظریات کے سخت مخالف تھے ۔ڈاکٹر کلاش ناتھ جو 1948ء میں مغربی بنگال کے گورنر تھے ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ اس صدی کے ممتاز فرد تھے ۔آغا خان کا کہنا ہے کہ میں زندگی میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے ۔ورڈکٹ آف انڈیا کے بیورنی نکلس نے انہیں ایشیاء کا انتہائی اہم شخص قرار دیا ۔عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل عبدالرحمٰن پاشا نے انہیں عالم اسلام کے عظیم رہنمائوں میں سے ایک قرار دیا ۔مفتی اعظم فلسطین نے ان کی موت کو تمام عالم اسلام کیلئے عظیم نقصان قرار دیا ۔قائد اعظم کی ذاتی اور سیاسی کامیابیوں کو انڈین نیشنل کانگریس کے فارورڈ بلاک ونگ کے سربراہ چندر بوس نے نہایت جامع الفاظ میں ان کی خوبیوں کو سمو دیا ۔1948ء میں قائد اعظم کی وفات پر انہوں نے کہا مسٹر جناح ایک وکیل کی حیثیت سے عظیم تھے ۔ایک عالمی سیاستدان اور مدبر کی حیثیت سے بھی وہ عظیم ترین تھے ۔مسٹر جناح کے انتقال سے دنیا ایک عظیم ترین مدبر اور پاکستان اپنے خالق فلسفی سے محروم ہو گیا ۔
زمین کی روح تیری عظمتوں سے گونج اٹھی
فلک کے دل میں تیرے عزم کا ٹھکانہ بنا
افق سے تا بہ افق زندگی ابھر آئی
تیرے خلوص کے ہاتھوں نیا زمانہ بنا
معز ز و محترم قارئین قائد اعظم کے دن کی آمد ماضی کی تاریخ تعبیر پاکستان کے بعد حکمرانوں کی بے حسی ،عوام کی بے بسی ،غریب و امیر کا تفاوت ،مذہبی فرقہ واریت ،گروہ بندی ،نسلی و علاقائی اختلافات ،لسانی عصبیت ، دہشت گردی جیسے رونما ہونے والے عوامل دیکھ کر ندامت و شرمندگی کا ہی احساس پیدا ہوتا ہے ۔حکمران طبقہ ،سیاستدان اور مذہبی قائدین نے بھی اپنے سیاسی گروہی اور نجی مفادات کے حصول کیلئے بابائے قوم کی تعلیمات کومحض شہرت کا ذریعہ بنایا ۔اگر ایسا نہ ہوتا تو ابھی تک ملک کے عوام کی اکثریت محرومیوں اور مایوسیوں پر ماتم کناں نظر نہ آتی۔سیاسی مفادات کے حصول کیلئے ہر نوع کا انتشار ، مذہبی انتشار ،افراتفری اور رواداری کا فقدان ، خود کش حملے ،ہر قسم کی دہشت گردی ہمارا منہ چڑا رہی ہے ۔ہم نے ان دریچوں کو وا کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی قائد اعظم کا سماجی فلسفہ اخوت ،عدل و حکمرانی کے انسان دوست اصولوں سے عبارت تھا ۔انہوں نے دولت مندوں کو اپنا انداز فکر تبدیل کرنے کو مشورہ دیا ۔سرکاری افسروں پر زور دیا کہ وہ ایسی فضا کو جنم دیں ،ایسے جذبے اور لگن سے کام کریں کہ ہر شخص کے ساتھ انصاف ہو سکے اور ان کو اپنا حق مل سکے ۔انہوں نے پر زور انداز میں تلقین کی کہ پاکستان کی سرزمین سے ہر قسم کے استحصال کا خاتمہ کر دیا جائے ۔مگر ہمارے یہاں جاگیر داروں سرمایہ داروں ، بیوروکریسی اور کرپٹ سیاستدانوں کی ملی بھگت نے بابائے قوم کے اس حسین خواب کا شیرازہ منتشر کر کے رکھ دیا ۔قائد اعظم کا آزاد ریاست کا مقصد یہی تھا کہ اس میں ہر شہری کو مکمل آزادی میسر ہو گی ۔ہم نے ان کی رحلت کے بعد بالغ نظری ،وسیع القلبی ،جمہوری و مذہبی رواداری کو یکسر فراموش کر دیا ۔جس روشن خیالی ،عصبیتوں سے پاک عوامی حقوق و مفادات کی نگہبانی کا خوب قائد نے دیکھا تھا وہ ابھی تک ادھورا ہے ۔قائد اعظم کی آواز اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے سب سے طاقتور آواز تھی ۔یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان کے اعلان کے ساتھ ہی ان کے بیانات اور پریس انٹرویوز میں اقلیتوں کے تحفظ کو کلیدی حیثیت نظر آتی ہے ۔ہم کرسمس کے تہوار پر اپنے ہم وطن مسیحی بھائیوں کو مبار ک باد پیش کرتے ہیں ۔
یہ اور بات ہے کہ اس پر کوئی چلے نہ چلے
لکیر چھوڑنے والا لکیر چھوڑ گیا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے