کالم

فتح مکہ، فتح عظیم

riaz chu

فتح مکہ (جسے فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے) عہد نبوی کا ایک غزوہ ہے جو 20 رمضان 8 ہجری بمطابق 10 جنوری 630 عیسوی کو پیش آیا۔ اس غزوے کی بدولت مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو اسلامی قلمرو میں شامل کر لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا تھا، یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا ہے) نے بنو خزاعہ کے خلاف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خلاف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا۔ قریش مکہ کو اس بدعہدی کا جلد احساس ہوگیا۔ان کو اس بات کا بھی ادراک ہوگیا کہ اب مسلمان کمزور نہیں رہے۔چنانچہ ابوسفیان اس صلح کو بحال کرانے کے لیے مدینہ منورہ آیا۔ مختلف صحابہ کرام ؓکے دروازے پر گیا سب نے اس کو ملنے سے انکار کیا۔ یہاں تک کہ اپنی صاحبزادی ام حبیبہؓ کے گھر گیا جو سرکار کی زوجیت میں تھیں۔ انہوں نے اپنے باپ کو سرکار کے بستر پر بھی بیٹھنے نہ دیا۔ سب سے مایوس ہو کر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر گیا۔ آپؓ نے بھی اس کو صاف انکار کیا۔ یہاں سے ہو کر وہ مسجد میں گیا اور بلند آواز سے امن کا اعلان کیا اور اس صلح کی یکطرفہ تجدید کا اعلان کرکے واپس مکہ مکرمہ بھاگ گیا۔حضور اکرم نے اس بد عہدی کا بدلہ لینے کامصمم فیصلہ کرلیا او راپنے ساتھیوں کو بھرپور تیاری کا حکم ارشاد فرمایا اور ساتھ ہی یہ بھی حکم جاری فرمایا کہ اس تیاری کی کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائے۔اللہ کے نبی نے خصوصی دعا بھی فرمائی کہ اے اللہ جاسوسوں اور خبریوں کو قریش تک پہنچنے سے روک تاکہ ہم اچانک ان پر جا پہنچیں۔ آپ نے جنگی حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ماہ رمضان کے شروع میں حضرت قتادہ رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں آٹھ افراد کا لشکربطن اضم کی طرف روانہ فرمایا تاکہ دیکھنے والے یہ سمجھیں کہ محمد رسول اللہ کا لشکراس راستہ سے مکہ کی طرف روانہ ہونے والا ہے۔10 رمضان المبارک آٹھ ہجری کو دس ہزار صحابہ کرامؓ کا لشکر لے کر حضو اکرم نے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ کارخ فرمایا۔ ابواھم غفاریؓ کو مدینہ میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا۔ مدینہ سے باہر نکل کر دو ہزار افراد اور اسلامی لشکر کے ساتھ مل گئے۔ یوں 12000کا صحابہ کا لشکر جرار مدینہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوگیا۔ لیکن اللہ کی تاثیر اور سرکاردوعالم کی دعا کی بدولت کہ اتنی بڑی سرگرمی سے بے خبر رہے۔حضور اکرم پیش قدمی کرتے ہوئے مکہ مکرمہ سے محض ایک منزل کے فاصلے پر ایک مقام پر قیام فرمایا۔ آپ نے سارے اسلامی لشکر کو پورے میدان میں پھیلا دیا۔ ہر صحابی کو کہا کہ اپنا الگ الگ آلاو¿ روشن کریں۔ رات کے وقت ابوسفیان خبر گیری کے لیے مکہ سے باہر نکلا تو آگ کا اتنا بڑا الاو¿ دیکھ کر پریشان ہو گیا۔ اس کو ایک خیال یہ تھا کہ شاید یہ بنوں خزاعہ کا لشکر ہو۔ لیکن ابوسفیان نے اس خیال کی تردید کی کہ انکا لشکر اتنا عظیم نہیں ہوسکتا۔ اس اثناءمیں ابوسفیان کی ملاقات حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے ہوئی۔ آپ نے ابو سفیان کو آگاہ کیا کہ یہ کہ بہتر یہی ہے کہ حضور اکرم سے امان طلب کر لو۔ ورنہ اس عظیم لشکر کے سامنے تمہاری کوئی اوقات نہیں ہے۔ حضرت عباس نے ابو سفیان کو اپنے خچر پر ساتھ بٹھایا اور سرکار دو عالمکی بارگاہ میں پیش کر دیا۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ اس کے قتل کے درپے ہوئے لیکن سرکار دو عالمنے منع فرما دیا۔ ایک ایسا شخص جس نے مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑیں۔ جس نے اسلام کو نقصان پہچانے کی ہر ممکن کوشش کی۔جس نے نبی کریمکو شہید کرنے کی کوشش کی۔ جس کی بیوی ہندہ نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کا کلیجہ چبایا۔ ایسے متعصب اور کٹر دشمن کو سامنے پا کر معاف کرنا اللہ کے نبی کی صفت ہوسکتی ہے عام آدمی اس کو معاف کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔حضور کے سفر مکہ کے دوران جحفہ کے مقام پر آپکے چچا زاد بھائی ابو سفیان بن حارث اور پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن امیہ ملے۔ آپ نے ان کو دیکھ کر منہ پھیر لیا کیونکہ ان دونوں نے حضور اکرم صلی وسلم کو ہر طرح سے ایذا پہنچائی تھی۔ لیکن حضرت علی نے ابوسفیان بن حارث کو حضور سے معافی مانگنے کا طریقہ سکھایا تو آپنے معاف فرمایا۔اس طرح حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور اکرم ?سے عرض کی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابو سفیان ایک جاہ پسند اور اعزاز پسند شخص ہے۔ آپ اس کو کچھ اعزاز عطا فرمائیں تاکہ یہ مطمئن ہوجائے حضور اکرم نے شان کریمی کا بے مثال مظاہرہ فرماتے ہوئے اعلان فرمایا کہ جو شخص ابوسفیان کے گھر دا خل ہو گا۔ اس کو بھی امان ہوگی۔ جس پر ابوسفیان از حد مسرور ہو۔حضور اکرم نے لشکر اسلام کو مکہ کی طرف کوچ کا حکم ارشاد فرمایا۔ آپنے حضرت عباس رضی اللہ تعالی عنہ کو حکم دیا کہ ابوسفیان کو پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا کرو۔ تاکہ سارا لشکر اس کے سامنے سے گزرے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا ہر قبیلہ اپنے اپنے پرچم کے ساتھ گزرتا ابوسفیان حضرت عباس سے دریافت کرتا یہ کونسا قبیلہ ہے۔ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کے سپہ سالار خالد بن ولید کو اس وقت سامنا ہوا جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ بن ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے، جبکہ دو مسلمان بھی شہید ہوئے۔جب رسول اللہ مکہ میں داخل ہوئے اور لوگوں کو اطمینان ہو گیا تو کعبہ کے پاس آئے اور اس کا طواف کیا۔ اثنائے طواف کعبہ کے ارد گرد موجود بتوں کو اپنے پاس موجود تیر سے گراتے اور پڑھتے جاتے: حق آن پہنچا اور باطل مٹ گیا اور یقیناً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے) اور پڑھتے : حق آچکا ہے اور باطل میں نہ کچھ شروع کرنے کا دم ہے، نہ دوبارہ کرنے کا)۔ کعبہ میں بتوں کی تصویریں آویزاں اور ان کے مجسمے نصب تھے آپ نے ان کو بھی ہٹانے اور توڑنے کا حکم دیا جس کی تعمیل کی گئی۔ جب نماز کا وقت ہوا توآپ نے حضرت بلالؓکو حکم فرمایا کہ کعبہ کے اوپر چڑھ جائیں اور اذان دیں۔ حضرت بلالؓ کعبہ کے اوپر چڑھے اور اذان دی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri