کالم

فقیر بادشاہ ،حلوہ اور کشکول

اےک دفعہ وہب بن عمرو( بہلول دانا) جو ظاہری طور پر مجذوب اور فقےر کی منزل پر فائز لےکن اےک معروف دانشور تھا۔ بہلول نے دےکھاکہ ہارون الرشےد کی” مسندشاہی “ خالی ہے تو وہ بے دھڑک” تخت شاہی پر جا بےٹھا۔ جب دربارےوں اور جی حضورےوں نے بہلول دانا براجمان دےکھا تو اس کو کوڑے مارنے لگے، بہلول کوڑوں کی ضربوں سے رو پڑا۔ اسی دوران ہارون الرشےد کی آمد ہوئی اور اس نے بہلول سے رونے کا سبب درےافت کےا۔ حوارےوں اور دربارےوں نے سبب بتاےا ۔ہارون نے دربارےوں کو ڈانٹا اور بہلول کی دلجوئی کی۔ بہلول نے کہا، مےں اپنے حال پر نہےں تےرے حال پر رو رہا ہوں ، مےں تو چند لمحوں کےلئے تےری جگہ بےٹھا تو اس قدر مصےبت جھےلی اور اتنی مار کھائی ہے جبکہ تو ساری زندگی اس پر بےٹھا چلا آ رہا ہے لےکن پھر بھی اپنے انجام سے غافل اور لاپروا ہے۔ےہ تو فقےروں کی باتےں ہےں مگر اب تو فقےر بھی کم کم دکھائی دےتے ہےں۔ وہ اور لوگ ہوتے تھے جو باد شا ہ وقت کو کاغذ کے پرزے پر لکھ کر بھےج دےا کرتے تھے کہ کےا تم چاہتے ہو کہ دلی کا تخت کسی اور کے حوالے کردےں۔فارسی شعروشاعری مےں دنےا کو ’ زال‘ سے تشبےہ دی جاتی ہے۔لغت مےں” زال “ کے معنی ہےں سفےد بالوں والی بڑھےا۔ کسی فارسی شاعر نے اس عجوزہ( بڑھےا) کو عروس ہزار داماد بھی کہا ہے۔ عروس دلہن کو کہتے ہےں اور داماد کے اےک معنی دلہا بھی ہےں تو ےہ بڑھےا ہزار ہا دلہاﺅں کی دلہن رہ چکی ہے اور ابد تک دلہن ہی رہے گی اور اسے نئے نئے دلہا ملتے رہےں گے۔ کوئی چنگےز تلوار کے زور پر اسے اپنی دلہن بنائے گا اور کوئی پرتھوی راج سجو گتا کی طرح اسے سوئمبر سے اڑا لے جائے گا۔ جب شےر شاہ سوری کا جلوس شاہی ( دلی) کی گلےوں سے گزر رہا تھا تو جھروکے مےں بےٹھی اےک دلی والی نے کہا، حےف کہ دلہن(دلی) تو جوان ہے لےکن دلہا بوڑھا ہے۔ ےہ دلہن کسی سے وفا نہےں کرتی ، اس سے بھی جس کے گلے مےں ہار ڈالتی ہے۔ فقےری اور بادشاہی مےں بھی بڑا بارےک سا پردہ ہوتا ہے۔ بادشاہ کے فقےر ہونے مےں اور فقےر کے بادشاہ ہونے مےں زےادہ دےر نہےں لگتی۔ فقےر تو مزاجاً ہوتے ہی بادشاہ ہےں اور بادشاہ بھی اپنے اندر کے فقےر کو مار ڈالےں تو چنگےز اور ہلاکو بن جاتے ہےں۔ تارےخ بتاتی ہے کہ فقےر کئی بار بادشاہ بن گئے اور کئی بار بادشاہوں کو فقےری نے اپنے دامن مےں پناہ دے دی۔ فقےر کے تکےے اور بادشاہ کے تخت مےں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔ کوئی زمانہ تھا کہ اےک پرندہ اس دنےا کی فضا ﺅںمےں محو پرواز رہتا تھا اسے خوش بختی کی علامت سمجھا جاتا تھا، کبھی کبھی وہ کسی سکندر ےا چنگےز پر بےٹھنے کی بجائے کسی فقےر کے سر پر آبےٹھتا تھا تو اس کے سر سے کلاہ فقےری اتار کر اس پر تاج شاہی رکھ دےا جاتا تھا۔ فقےر کو تھوڑی سی بصارت ےا بصےرت ہوتی تو اپنی پاپوش اور گلےم کسی طاق مےں محفوظ کر دےتا اور عصا کو بھی محفل کے کسی کونے مےں لگا دےتا کہ نظروں کے سامنے رہےں اور اپنی اصلےت ےاد آتی رہے۔ اےک فقےر ےاد آ رہا ہے جسے بادشاہ بنا دےا گےا تھا۔ فقےر نے تخت نشےن ہوتے ہی فقےروں والے کام شروع کر دےے، اس نے حلوہ پکانے کا حکم نامہ جاری کر دےا، اس فقےر کی تخت نشےنی کی داستان مےں کشکول کا بھی ذکر ہے۔مےںنے بعض فقےروں کے ہاتھوں مےں اتنے خوبصورت آنبوسی کشکول دےکھے ہےں کہ اےسی خوبصورتی پےالہ شاہی مےں بھی نظر نہ آتی۔ اسے کاسہ گدائی بھی کہتے ہےں۔ حلوہ اور حکمران والی کہانی مےں کشکول کی ساخت کا تو ذکر نہےں لےکن فقےر سلطان نے اسے اپنے ہاتھوں سے نہ جانے دےا۔ وہ حلوہ بھی اسی مےں ڈلواتا تھا اور اپنی فقےری کو ےاد رکھتا تھا۔ وہ اپنے ساتھی فقراءکا بھی بہی خواہ تھا۔ سارے شہر کے فقےروں کےلئے روز حلوے کی دعوت ہونے لگی۔ کہانی بڑی پرانی ہے لےکن نئے نئے لباس مےں جلوہ گر ہوتی رہتی ہے، کبھی شہر کے صدر دروازے پرکوئی خوش پوش آدمی سب سے پہلے پہنچتا ہے اور ہما اس کے سر پر بےٹھ جاتا ہے وہ اس کے اوپر جبہ شاہی اوڑھ کرتخت نشےن ہو جاتا ہے، پھر وہ عوام سے مخاطب ہو تا ہے، ان کے نکہت و افلاس پر آنسو بہاتا ہے، بہت سے سنہری وعدے کر کے ان کا جی بہلاتا ہے، کہتا ہے کہ مےںخود گھاس کھا کر تمہےں حلوہ کھلاﺅں گا، وہ اپنا گھاس والا وعدہ پورا کر دکھاتا ہے۔ اس کے دستر خوان پر ہر روز پانچ لاکھ کی گھاس کھائی جاتی ہے اور عوام گھاس کو بھی ترس جاتے ہےں۔ کبھی ہما دوسرے کے سر پر بےٹھ جاتا ہے لےکن اس کے گھوڑوں کو بھی گھاس کے بجائے حلوہ کھانے کو ملتا ہے لےکن اسکے گھوڑوںکے دودھ پےنے اور مربے کھانے کے قصے بھی زبان زد عام ہو جاتے ہےں۔ ان کا کشکول کسی کو نظر نہےں آتا، شائد اپنے لبادے مےں چھپا کر محل مےں لے جاتے ہےں۔ بعض اوقات انقلاب بھی برپا ہو جاتا ہے اور فقےر بادشاہ کو محل سے نکال دےا جاتا ہے لےکن اکثراوقات وہ کشکول کسی اور فقےر کے ہاتھ مےں دے کر خود ہی صحےح سلامت محل سے نکل جاتا ہے۔
کہانی کے فقےر بادشاہ کو حلوے کی دعوت اڑاتے ہوئے جب چھ ماہ ہونے لگے، شہر کے انتظامی حالات روز بروزا بتر ہوتے چلے گئے۔ کاروبار سلطنت مےں فقےر کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ساتھ والے شہر کے بادشاہ نے اس شہر پر قبضہ جمانے کے منصوبے بنانے شروع کر دئےے۔ مملکت کے جاسوسوں نے حملے کی اطلاعات فراہم کرنا شروع کر دےں۔ بادشاہ تک خبر پہنچائی گئی، بادشاہ نے کہا حلوہ پکواﺅ، کچھ دنوں کے بعدخبر آئی کہ حملہ آور فوجوں نے اپنے سفر کا آغاز کر دےا ہے، پھر بادشاہ کو اطلاع دی گئی، بادشاہ نے کہاکہ حلوہ پکواﺅ، چند مزےد دن گزرنے پر بادشاہ کو ےہ بتاےا گےا کہ دشمن کی فوجےں آدھے راستے تک پہنچ چکی ہےں، بادشاہ نے پھر کہا کہ حلوہ پکاتے رہو، بادشاہ کو خبر دی گئی کہ دشمن فوجوں نے شہر پر حملہ کر دےا ہے تب فقےر بادشاہ محل سے باہر نکل آےا کہ فقےر تو اب چلا، تم جانو اور تمہارا کام جانے لےکن فقےر بادشاہ جب محل سے باہر نکلا تو اس کے جسم پر مےلی کچےلی گدڑی تھی، پاﺅں مےں ٹوٹے ہوئے چپل، ہاتھ مےں عصائے دروےشی اور سر پر پھٹی پرانی کلاہ، زنجےروں سے بندھا کشکول اس کی گردن مےں الٹا لٹکا ہوا تھا کہ لوگو مےں خالی کشکول لے کر آےا تھا اور دےکھو کہ اب خالی کشکول لے کر ہی جا رہا ہوں لےکن آج کے فقےر بادشاہی محل سے اپنے آپ نہےں نکلتے بلکہ انہےں نکالا جاتا ہے۔ وہ شاہی لباس بھی نہےں اتارتے، اپنی گلےم، عصا اور پاپوش بھی نہےں لےتے، کشکول کو بھی محل مےںہی چھوڑ جاتے ہےں کہ آنے والے کے کام آئے ےا سکندر کی طرح ان کا بھرم قائم رہے کہ وہ خالی ہاتھ آئے تھے اور خالی ہاتھ جا رہے ہےں۔ بعد ازاں ےہ بھےد کھلتا ہے کہ قرض کی مے وہ خود پےتے ہےں اور فاقہ مستی قوم کو دے جاتے ہےں کہ رنگ لاتی رہے۔ اقبال کے اےک زند زےرک نے مےکدے مےں اتنی بڑی بات کہہ دی کہ ہمارے شہر کا والی اک گدائے بے حےا ہے جس نے رعاےا کو کلاہ و لباس سے محروم کر کے اپنے سر پر تاج رکھ لےا ہے اور قبائے زرےں پہن لی ۔ اس کے نعمت خانے کی ہر چےز مانگی ہوئی ہے ۔ قند مکرر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے