اداریہ کالم

فلسطینی و کشمیری علاقوں میں انسانی حقوق کی بگڑتی صورتحال

نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر پاکستان کے نقطہ نظرکو اجاگر کرتے ہوئے امت مسلمہ کو در پیش اسلاموفوبیا جیسے پیچیدہ مسائل سے نمٹنے کےلئے بالخصوص او آئی سی کے ذریعے قریبی اور اجتماعی طور پر کام جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری کردہ بیان کے مطابق وزیراعظم نے مشرق وسطی اور شمالی افریقہ خطے کے مسلم ممالک کے سفیروں سے ظہرانہ پرملاقات کی۔ ملاقات میں بحرین، مصر، عراق، اردن، کویت، لبنان، لیبیا، مراکش، عمان، فلسطین، سعودی عرب، شام، متحدہ عرب امارات اور یمن کے سفرا موجود تھے۔ملاقات میں وزیر خارجہ، وزیر اعظم کے سیکرٹری اور سیکرٹری خارجہ بھی موجود تھے۔وزیراعظم انوار الحق کاکڑنے پاکستان کے مسلم دنیا بالخصوص مینا خطے کے ممالک کےساتھ برادرانہ تعلقات کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ تعلقات باہمی اعتماد، مشترکہ افہام و تفہیم ، دوطرفہ اور مشترکہ دلچسپی کے علاقائی امور پر قریبی تعاون پر مبنی ہیں۔وزیراعظم نے متعدد امور بالخصوص مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر پاکستان کے نقطہ نظر سے آگاہ کیا۔ مسلم دنیا کو درپیش دیگر چیلنجز جیسے اسلامو فوبیا پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعظم نے امت مسلمہ کو ان پیچیدہ مسائل سے نمٹنے کے لیے بالخصوص او آئی سی کے ذریعے قریبی اور اجتماعی طور پرکام جاری رکھنے کی ضرورت پر زور دیا۔ وزیراعظم نے اسلام آباد اور ان کے متعلقہ دار الحکومتوں کے درمیان مضبوط تعلقات قائم کرنے کی کوششوں پر سفیروں کی تعریف کی۔سفیروں نے وزیراعظم کا شکریہ ادا کیا اور پاکستان کےساتھ دوطرفہ تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا جس نے مسلم دنیا میں کلیدی کردار ادا کیا۔اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن اور ر خطے کی ہموار ترقی کیلئے ناگزیر ہے کہ تنازع کشمیر اور فلسطین کا فوری حل کیا جانا ضروری ہے ، امریکہ یا یو این او نے اس ضمن میں اپنی ذمے داریاںپوری کی ہوتیں تو یہ تناعازت سات دہائی پہلے ہی حل ہوچکے ہوتے۔ امریکہ کی جانب سے اسرائیل اور بھارت کی بے جا حمایت اس مسئلے کے حل میں اصل رکاوٹ ہے ورنہ فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیل کے قبضے کو ناجائز قرار دینے کے باوجود حماس کی جانب سے بھی2017 میں دو خود مختار ریاستوں کے قیام کو ایک عملی حل کے طور پر قبول کیا جاچکا ہے ۔ اقوام متحدہ کیلئے امریکی حمایت کے بغیر ان دونوں مسائل کے حل کی جانب کسی نتیجہ خیز پیش رفت کا محال ہونا حقائق کی روشنی میں بالکل واضح ہے ۔ تاہم عالمی امن کیلئے سنگین خطرے کی حیثیت رکھنے والے ان دونوں معاملات میں امریکہ کا رویہ اقوام متحدہ کے بیشتر رکن ملکوں کیلئے نہایت مایوس کن ہے۔ امریکی ویٹو سلامتی کونسل کی بھاری اکثریت کی حامل قراردادوں کو بے اثر بنادیتا ہے جس کی وجہ سے اقوام متحدہ عملا ایک نمائشی ادارہ بن کررہ گیا ہے۔ فلسطین و کشمیر کے حوالے سے امریکی رویے میں مثبت تبدیلی نہ آئی تو ادارہ اقوام متحدہ ان مسائل کو حل نہیں کرسکتا اور عالمی امن کو لاحق خطرات دور نہیں ہوسکتے۔دوسری جانب اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی کے بورڈ آف گورنرز کے پانچویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے اس بات پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ آئی ٹی کا شعبہ ملکی معیشت میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے، حکومت آئی ٹی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے اور اس ضمن میں مثبت پیش رفت ہوئی ہے۔اجلاس میں وفاقی سیکریٹریز کابینہ، خزانہ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سائینس اینڈ ٹیکنالوجی، چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز اور دیگر بورڈ ممبران نے شرکت کی۔ وزیراعظم نے اجلاس میں اس امیدکا اظہارکیا کہ پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی کی بے حد استعداد موجود ہے۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ پاکستان میں آئی ٹی کی ترقی اور ترویج کے لئے دنیا بھر سے آئی ٹی ماہرین کو راغب کرنے کےلئے ضروری پالیسیاں بنائی جائیں۔ حکومت آئی ٹی کے شعبے میں بیرونی سرمایہ کاری کے لئے اقدامات اٹھا رہی ہے اور اس حوالے سے مثبت پیشرفت بھی ہوئی ہے۔اجلاس نے سپشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی کے بورڈ آف گورنرز کے چوتھے اجلاس کے فیصلوں کی توثیق کرتے ہوئے سپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی کے بورڈ آف گورنرز کی بجٹ اور فنانس، آڈٹ اور ٹیکنیکل کمیٹیوں کی تشکیلِ نو کی منظوری بھی دی گئی۔ اتھارٹی کی لائسنسنگ فریم ورک، اتھارٹی پروسیجرز اور فیس ریگولیشنز کے مسودات کو ٹیکنیکل کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کی منظوری بھی دی۔اجلاس میں اسپیشل ٹیکنالوجی زونز اتھارٹی کے حوالے مختلف امور زیر بحث آئے۔
بھارت ایک غیر محفوظ ریاست
بھارت خطرناک اور غیر محفوظ ریاست ہے اب اس میں شبہ والی کوئی بات نہیں رہی،اس امر کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اسرائیل جو بھارت کا ہم پیالہ ہم نوالہ ہے ، نے بھی مودی سرکار پر زور دیا ہے کہ بھارتی دارالحکومت میں ہمارے سفارت خانے کے انتہائی نزدیک ہونے والا دھماکا ایک دہشت گرد حملہ تھا جس کی مکمل تحقیقات کی جائیں۔بھارت میں گزشتہ روز اسرائیلی سفارت خانے کے نزدیک ہونے والے دھماکے سے متعلق مودی سرکار کوئی سراغ نہ لگا پائی تھی اور دہلی پولیس نے معاملے کو نامعلوم وجہ قرار دیکر بند کردیا تھا۔اسراعیل نے بھارت میں اپنے شہریوں کو بھی محتاط رہنے کا کہہ دیا ہے۔نئی دہلی میں اسرائیلی سفارتخانے کے نزدیک دھماکے کے بعد وہاں اسرائیلی باشندوں کو خطرات لاحق ہوگئے ہیں ، اسرائیلی حکومت نے بھارت میں مقیم ا پنے با شندوں کی سلامتی یقینی بنانے کےلئے انہیں محتاط رہنے اور پرہجوم مقامات پر نہ جانے کا مشورہ دیا ہے، یہ سکیورٹی ایڈوائزری اسرائیل کی قومی سلامتی کونسل نے جاری کی ہے ۔ بھار ت میں مقیم اسرائیلی باشندوں سے کہا گیا ہے وہ نقل و حرکت کے حوالے سے غیر معمولی احتیاط برتیں ، مقامی سکیورٹی حکام سے رابطے میں رہیں، نئی دہلی کے سفارتی علاقے چانکیہ پوری میں اسرائیلی سفارتخانے کے نزدیک دھماکے کے مقام سے ایک خط ملا تھاجس میں اسرائیل کو سنگین نتائج کی دھمکی دی گئی تھی،اسرائیلی سلا متی کونسل نے سفارتخانے کے نزدیک سینٹرل ہندی ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے مین گیٹ پر ہونےوالا دھماکے پر گہری تشویش کا اظہا رکیا ہے۔نئی دہلی میں اسرائیلی سفارتخانہ اور اس کا عملہ حملوں کی زد میں رہا ہے،2021میں بھی اسرائیلی سفارتخانے کے باہر دھماکہ ہوا تھا جس میں گاڑیوں کو نقصان پہنچا تھا،کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا،لیکن فروری 2012میں اسرائیلی سفارتخانے کے سکیورٹی سٹاف کے ایک رکن کی اہلیہ نئی دہلی میں کار پر حملے میں زخمی ہوئی تھی۔اسرائیلی سفارت خانے کا بار بار ٹارگٹ بننا یقینا اسرائیل کے لئے تشویش والی صورتحال ہے۔
سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ کا تفصیلی فیصلہ
سپریم کورٹ نے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرایکٹ 2023 کو جائز قانون قرار دینے سے متعلق تفصیلی فیصلہ جاری کردیا ہے ،جس میں اس ایکٹ کو آئین سے مکمل ہم آہنگ قرار دیتے ہوئے کہاگیا ہے کہ عدلیہ کو نیچا نہیں دکھایا گیا، انصاف تک رسائی میں آسانی ہوئی، ایک قانون سے عدلیہ کمزور نہیں بلکہ مزید مضبوط ہوئی ہے، تفصیلی اکثریتی فیصلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے تحریر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایکٹ نے سپریم کورٹ کو نیچا نہیں دکھایاہے ، آئین نے پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کا ضابطہ کار بنانے کا اختیار دے رکھا ہے، آرٹیکل 191مقننہ کو سپریم کورٹ کا پریکٹس اینڈ پروسیجر بنانے کا اختیار دیتا ہے، پارلیمنٹ کے بنائے گئے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں کسی طور بھی آئینی خلاف ورزی نہیں کی گئی ہے،پارلیمنٹ کے بنے اس قانون سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی بلکہ یہ بنیادی حقوق کے نفاذ کی سہولت فراہم کرتا ہے،ایکٹ نے آرٹیکل 184/3 کے مقدمات میں سپریم کورٹ کے فیصلوں سے متاثرہ فریق کو اپیل کاحق دیاہے، اسلامی احکامات اور پوری دنیا میں رائج طریقہ کار کے مطابق متاثرہ فریق کو اپیل کا حق حاصل ہوتا ہے جبکہ کسی معاملے کے اگر دو ممکنہ تشریحات ہوں تو پھر جس تشریح کی توثیق اسلامی احکامات سے ہو تو اسے فوقیت حاصل ہوگی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri