کالم

قائداعظم کی ولولہ انگیزتحریک

ہندوستان پر محمد بن قاسم ثقفی بنو امیہ کے سپہ سالار سے لےکر مغلوں کے آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر تک مسلمانوں نے ایک ہزار سال سے زائد عرصہ تک ہندوﺅںپر حکمرانی کی تھی۔ ہندوستان پر مسلمانوں سے اس ہزار سالہ حکمرانی کا بدلہ لینے کے متعلق پلائنگ کرتے رہتے تھے ۔ مگر اُن سے کچھ بن نہیں پاتا تھا۔ہندو مسلمان دونوں نے انگریز کو ہندوستان سے نکالنے کی کوشش کی۔ مسلم دشمنی میں انگریز جاتے جاتے اقتدار ہندوﺅں کو دینے کا پروگرام بنا رہے تھے۔ ہندوعددی اکثریت کے بل بوتے پر اپنی پرانی خواہش کو پورا کرنے کے موقع کی تلاش میں تھے۔اس چیز کو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے بھانپ لیا اور ہندوستان میں دو بڑی قوموں ہندو اور مسلمانوں کو اقتدارسوپنے کی تحریک چلائی ۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے کہا کہ انگریز کے جانے کے بعد یہ دونوں قومیں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے ۲۳ مارچ ۰۴۹۱ءلاہور میں فرمایا تھا:۔ مسلمان ہندوﺅں سے علیحدہ قوم ہیں۔ہمارا کلچر،ہماری ثقا فت، ہماری تاریخ،ہمارا کھانا پینا، ہمارا معاشر ہ سب کچھ ان سے یکسرمختلف ہے۔ لہٰذا ہندوستان کو دو قوموں میں تقسیم کر دیا جائے۔ جہاں ہندوﺅں زیادہ ہیں وہاں ہندوستانی ریاست اورجہاں مسلما ن زیادہ ہیں وہاں پاکستانی ریاست بننی چاہےے۔ اسی ”دو قومی نظریہ تھیوری“ کو قائد اعظم ؒ نے برصغیر کے مسلمانوں میں عام کر کے اپنی انتھک کوشش سے پاکستان حاصل کیا۔عربوں پر تو ہندو صرف یہ ہی غصہ نکالتے رہے کہ فتح مکہ کے موقع پر جن تین سو ساٹھ بتوں کو توڑا گیا تھا وہ ہمارے ہی بت تھے ۔ مگر ہندوستان کے افغان حکمرانوں کیخلاف ہندوﺅ ںنے خصوصی طور پر مہم چلائی۔پورے ہندوستان میں کہا گیا کہ وہ لٹیرے اور ڈاکو تھے۔ ہمارے ملک پر حملے کرتے رہے۔ ہمارے دولت لوٹ کر افغانستان لے جاتے رہے۔ پھر حال میں ان کو ”طارق فتح“ جیسے منافق مسلمان مل گئے جو اس مہم کو میڈیا پر زور شور سے چلا رہے ہیں۔بھارتی ٹی وی پر طارق فتح اس سلسلہ میں ایک اسپیشل شو کرتا ہے ۔ ہندوﺅں نے زارِروس اور اشتراکی روس کے ساتھ ملکر افغانوں کو اسلامی سوچ سے ہٹا کر قوم پرست ، کیمونسٹ ، روشن خیال اور لبرل بنانے میں مد توں صرف کیں۔ روس تو وسط ایشیا کی اسلامی ریاستوں پر قبضہ کرتے کرتے افغانستان کے سرحد دریائے آمو تک پہنچ گیا تھا ۔ اب اس نے افغا نستا ن ،بلوچستان اور پاکستان کے راستے گرم پانیوں تک پہنچنا تھا ۔ یہ روس کے لیڈر” گنگ ایڈورڈ“ کا اپنی قوم کے نام ڈاکٹرائن تھا۔ کہ دنیا پر وہ قوم حکومت کرے گی جو خلیج کے پانیوں پر قابض ہو گی۔ اسی لیے اشتراکی روس نے افغانستان پر قبضہ کیا تھا ۔ مگر جہاد کی برکت اور ساری دنیا کی امدادا اورخصوصاً اسلامی دنیا کی مدد اور جہاد شروع ہونے کے دو سال بعد روس سے سرد جنگ کی دشمنی کی وجہ سے امریکا کا جنگ میںشریک ہوا تھا۔ اس کے اسٹنیگر میزائلوں نے کام کیا اور اشتراکی روس کو عبرت نا شکست ہوئی تھی ۔ جب قائد اعظم محمد علی جناح ؒ کی قیادت میں تحریک پاکستان چل رہی تھی۔ بھارت اور انگریز کی ساری چالوں کو ایک جہاں دیدہ بیرسٹر نے اپنی پر امن اور جمہوری طریقے سے دلیل کی بنیاد پر انتھک محنت کر کے ناکام کیا ۔ لندن سے واپسی پر آل انڈیا مسلم لیگ کو جدید طریقے پر منظم کیا۔ پورے برصغیر کے عوام کو آل انڈیا مسلم لیگ کے جھڈے تلے جمع کیا۔ برصغیر کے مسلمانوں کو نعر دیا” پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا اللہ“۔”مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آیا“۔ بن کے رہے پاکستان لے کر رہیں پاکستا ن“۔ پھر مستانہ نعرے پر ہندوستان کے جن صوبوں میں پاکستان نہیں بننا تھا ان صوبوں کے مسلمانوں نے بھی اسلام کے نام پر پاکستان کےلئے قربانیاں دیں۔ہندوﺅں نے محسوس کیا کہ اب تو قائداعظم ؒ کی ولولہ انگیز تحریک پاکستان میں اسلام کا رنگ بھر دیا ہے۔ پاکستان بننے کے علاوہ کو راستہ نہیں بچا ۔ پاکستان بننے دو ،ہم آہستہ آستہ مسلما نوں کے دلوں سے اسلامی کی محبت نکال کر سیکو لرز م کی جال میں پھنسا لیں گے۔یہ کام پاکستان بننے کے بعد ہندو لیڈر شپ نے کیا ۔ مشرقی پاکستان میں تعلیم اداروں میں ہندو ٹیچروںکے ذریعے مسلمان بچوں کے دلوں میں سے اسلام کی محبت کم کر کے قومیت اورسیکولزم کے زہر کو ڈالا۔ پاکستانی سیاستدان اقتدار کی لالچ میں اسلام سے دُور ہوتے گئے ۔ پاکستان کی اساس کے مطابق اور قاعد اعظمؒ کے اسلامی وژن کے مطابق پاکستان میں اسلامی نظام حکومت رائج نہیں کیا بلکہ اس میں رکوا ٹیں ڈالیں ۔ پورے ملک میں نام نہاد حقوق کے نام پر قومیت کی بنیاد پر اور خاص کر مشرقی پاکستان میںبنگلہ قومیت اور زبان کے نام پر تحریکیں چلائیں گئیں ۔مشرقی پاکستان کے عوام کو کہا کہ آپ کی دولت مغربی پا کستا ن کے عوام پر خرچ ہو رہی ہے۔ اس کےساتھ ساتھ مسلم لیگ کے کھوٹے سکوں نے قائد اعظم ؒ کی وفا ت کے بعد کہنا شروع کر دیا کہ اس جدید دور میں اسلام کا چودہ سو سالہ پرانا نظام حکومت نہیں چل سکتا ۔ اس طرح بھارت نے اس موقع سے فائدہ اُٹھایا۔ غدار پاکستان شیخ مجیب الرحمان کو آلہ کار بنا کر اگر تلہ سازش تیار کی۔ دہشت گرد تنظیم مکتی باہنی بنائی ۔ جن نے بنگالیوں کے علاوہ ہر شخص کو مغربی پاکستانی کہہ کر ان کو مارنا شروع کیا۔ ظلم ستم کی انتہا کردی۔پھر یحییٰ خان نے جب مشرقی پاکستان میں بنگالی قومیت کا جن بوتل سے باہر آگیا تھا۔ ایسے پرتشدد حالات میں ۰۷۹۱ءکے انتخابات کروائے ۔ ایسے حالات میں کسی طور پر بھی نظریہ پاکستان والے کامیاب نہیں ہو سکتے تھے ؟۔یہ انتخابات جانبدارانہ اور قومیت اورلسانیت کی بنیاد پر لڑے گئے تھے جو قائد اعظمؒ کے نظریہ اسلام کے سراسرخلاف تھے ۔ کیا اُس زمانے میںاشتراکی روس میں کیمونزم کے نظریہ سے ہٹ کر انتخابات ہوسکتے تھے۔؟ نہیںممکن ہی نہیں تھا کے ہوتے ؟ کیا سرمایادارانہ نظام کے ملک امریکا میں کیمونزم کے نام پر انتخابات ہوتے تھے؟ ناممکن تھا، نہیںہو سکتے تھے؟دنیا میں صرف ہی پاکستان تھا جسے اسلام کے نام پر بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے حاصل کیا تھا۔ اس میں اسلام سے ہٹ کر قومیت اور لسانیت کے نام پر ایک سازش سے ا لیکشن ہوئے تھے جو سرا سر غلط تھے۔ جب بھارت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنی فوجیں مشرقی پاکستان میں ڈال کر پاکستان کے دو ٹکڑے کیے تو کہا تھا کہ میں نے قائد اعظم ؒ کا دوقومی نظیر اور نظریہ اسلام کو خلیج بنگال میں ڈوبا دیا ہے اور مسلمانوں سے ایک ہزارا سالہ ہندوﺅں پر حکمرانی کا بدلہ بھی لے لیا ہے ۔یہ تھا وہ ڈاکٹرائن جو تحریک پاکستان کے دوران ہندﺅ لیڈر شپ نے ترتیب دیا گیا تھا۔ ایک اور بات ہندوﺅں کی مرکزی لیڈرموہن داس کرم چند گاندھی نے کہی تھی کہ اب تو پاکستان ناگزین ہیں بن رہا ہے۔ مگرمجھے فکر یہ ہے کہ پاکستان بننے کے بعد افغانستان سے مل کر اسلامی دنیا کے سمندر میں شامل ہو جائے گا تو اس کا مقابلہ ہم نہیں کر سکیںگے؟ لہٰذا اس کو روکنے کی کوشش کرنی چاہےے ۔ یہ ہی وہ ڈاکٹرائن ہے جس پر بھارت نے اشتراکی روس سے مل کر افغانستان کے رسم رواج۔ کلچر، اسلامی تہذیب کو ختم کرکے اس کو پاکستان کیخلاف کھڑا کرنا تھا۔اس کیلئے بھارت نے افغانستان میں بھاری انویسٹمنٹ کی ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri