کالم

قرآن پاک کی روشنی میں خوابوں کی حقیقت

قرآن پاک میں متعدد مقامات پر مختلف نوعیتوںکے خواب کا تذکرہ کیا گیا ہے اور احادیث میں بھی رسول اکرم ﷺ نے اس کی قدرے تفصیل بیان فرمائی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خواب کا وجود حق ہے۔ انبیائے کرامؑ کے علاوہ دیگر افراد کا خواب اگرچہ حجت شرعی نہیں تاہم یہ فیضان اور برکات نبوت سے ہے۔ ہمارے دوست عظیم دانشور اور اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ملک اللہ بخش کلیار نے خوابوں کے بارے میں یوں اظہار خیال کیا ہے کہ ارشاد باری تعالی ہے(یعنی) وہ جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے ان کے لئے دنیا کی زندگی میں (بھی عزت و مقبولیت کی) بشارت ہے اور آخرت میں (بھی مغفرت و شفاعت کی/ یا دنیا میں بھی نیک خوابوں کی صورت میں پاکیزہ روحانی مشاہدات ہیں اور آخرت میں بھی ح±سنِ مطلق کے جلوے اور دیدار)، اللہ کے فرمان بدلا نہیں کرتے، یہی وہ عظیم کامیابی ہے۔قرآن مجید نے واضح انداز میں خوابوں کے وجود کی صداقت کا ذکر کیاہے۔ خواب کے وجود کا انکار محض یہ کہہ کر کہ یہ وہم ہے، یا یہ من گھڑت چیز ہے، یارویائے صالحہ کا کوئی وجود نہیں،یہ قرآن مجید اور حدیث پاک کا مطلق انکار ہے۔ایسا کہناجہالت اور لا علمی ہے، کیونکہ خواب کے وجود اور تصور کا صراحتًا انکار کر دینا کفر ہے۔اور دنیا کی بشارت کے متعلق آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ وہ سچی خوابیں جو انسان خود دیکھے یا اس کے ئے کوئی دوسرا دیکھے جن میں ان کےلئے خوشخبری ہو۔ ( رواہ البخاری) اسلامی محقق ، سکالر ملک اللہ بخش کلیار کہتے ہیں کہ سرور دو عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں رویائے صادقہ یا سچے خوابوں کے شواہد کثرت سے موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہجرت سے پہلے خواب میں مدینہ منورہ کی سرزمین کا مشاہدہ کرادیا تھا۔ نبوت کے جھوٹے مدعیان کی اطلاع بھی آپ کو بذریعہ خواب دی گئی تھی۔ حدیث پاک میں خواب کو جزو نبوت کہا گیا ہے۔ ختم نبوت کے بعد عالم غیب سے رشتہ رویائے صادقہ کے ذریعہ سے ظاہر ہوتا ہے۔ رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبوت میں صرف مبشرات باقی رہ گئی ہیں۔ دریافت کیا گیا مبشرات کیا ہیں؟ فرمایا سچے خواب۔ملک اللہ بخش کلیار 2017 سے اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن ہیں۔ ان کا زیادہ تر قیام مدینہ منورہ اسلام آباد اور بہاولپور میں ہوتا ہے۔آپ نے جامعہ الازہر قاہرہ، جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ اور جامعہ اسلامیہ بہاولپور سے تعلیم حاصل کی۔ کئی کتابوں کے مصنف بھی ہیں۔ ایک سفرنامہ ”سیرو فی الارض “ کے نام سے تحریر کیا۔ قرآ ن مجید میں چھ خوابوں کا ذکر آیا ہے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب جس میں آپ حضرت اسمعیل علیہ السلام کو ذبح کررہے ہیں۔ دوسرا خواب حضرت یوسف علیہ السلام کا گیارہ ستارے اور سورج چاند کا سجدہ کرنے کا۔ تیسر ا و چوتھا حضرت یوسف علیہ السلام کے ساتھ جیل کے قیدیوں کا۔ پانچواں بادشاہ مصر کا۔ چھٹا وہ خواب جو رسول اکرمﷺ نے دیکھا، جس کا ذکر سورة الفتح میں ہے۔ اسی طرح غزوہ احد کے موقع پر آپ ﷺ نے خواب دیکھا کہ آپ کی تلوار ذوالفقار ٹوٹ گئی ہے اور کچھ گائیں ذبح ہورہی ہیں۔ جس کی تعبیر سیدنا حمزہؓ کی شہادت اور بہت سارے مسلمانوں کی شہادت تھی۔ آپ نے یہ خواب صحابہؓ سے بیان فرمادیا تھا۔حضرت یوسف علیہ السلام کو بہت سے کمالات اور معجزات رب تعالی نے عطا فرمائے، ان میں خوابوں کی تعبیر کا علم اور فن بطور خاص عطا فرمایا۔ ان کا ذکر سورہ یوسف میں مذکور ہے۔ مثلاً بادشاہ مصر اور قیدیوں کے خواب حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے بیان ہوئے۔ آپ نے ان کی تعبیر بیان فرمائی اور اس تعبیر کے مطابق آئندہ واقعات رونما ہوئے۔قرآن پاک نے جن خوابوں اور ان کی تعبیر کا ذکر فرمایا ہے اس سے تعبیر خواب کے اصول بھی اخذ کیے جاسکتے ہیں۔خواب کافر اور فاسق کا بھی سچا ہو سکتا ہے جس طر ح یوسف علیہ السلام کے ساتھ قید خانے کے دو قیدیوں کا خواب’ بادشاہ مصر کا خواب اور حدیث مبارک میں کسریٰ کے خواب کاذکر موجود ہے۔ اسی طرح بخت نصر کا خواب جس کی تعبیر حضرت دا نیال علیہ السلام نے دی، وہ خواب بھی سچا تھا۔ معلو م ہوا محض سچا خواب کسی کے صالح یا مسلمان ہونے کی دلیل نہیں۔ اللہ کا قانون یہی ہے کہ سچے اور صالح انسانوں کے خواب بھی سچے ہوتے ہیںاور فاسق و فاجر لوگوں کے خواب مےں شیطانی آمیزش ہوتی ہے اور کبھی سچے بھی۔ اگر خواب برا ہے تو تین بار بائیں طرف تھوکے اور اللہ تعالیٰ سے شیطان اور برے خواب کی پناہ طلب کرے اور یہ خواب کسی کو نہ سنائے جس پہلو سویا ہو، بدل دے۔ ہو سکے تو اٹھ کر نماز پڑھ لے۔ جہاں رویاء صالح کے بیان کا حکم ہے وہاں احلام کے بیان نہ کرنے کا حکم ہے۔ بعض لوگ جھوٹے خواب گھڑ کر بیان کرتے ہیں۔ حدیث شریف میں اس کی سخت ممانعت ہے۔رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے” سب سے بڑے جھوٹوں میں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنی آنکھوں کو وہ چیز دکھائے، جو اس نے دیکھی نہیں۔ (بخاری)
سیرو فی الارض کے مصنف اللہ بخش کلیار کا کہنا ہے کہ سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان عالی شان ہے:جب آخری زمانہ قریب ہوگا، تو مومن کا خواب جھوٹا نہ ہوگا۔ مسلمان کا خواب نبوت کے چھیا لیس اجزا میں سے ایک جز ہوتا ہے۔ خواب تین طرح کے ہوتے ہیں۔ نیک خواب اللہ تعالی کی طرف سے خوشخبری ہوتی ہے۔ دوسرا خواب شیطان کی طرف سے تکلیف ہوتی ہے۔ تیسرا جو دلی خیالات سے پیدا ہوتا ہے۔ اگر تم میں سے کوئی ناپسندیدہ خواب دیکھے تو کھڑا ہو کر نماز پڑھے اور اسکا ذکر کسی سے نہ کرے۔ (ترمذی )
سیدنا ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا :”اے لو گو! نبوت کا کوئی جزو سوائے اچھے خوابواں کے باقی نہیں ہے”۔یعنی سلسلہ نبوت منقطع ہوچکا۔ البتہ اجزائے نبوت میں سے ایک جزو مبشرات باقی ہیں۔ مبشرات جو کہ سچے خواب ہیں، یہ بھی نبوت کے جزاء میں سے ایک جز و ہیں،جس کی وضاحت بخاری کی روایت میں ہے۔ مومن کا سچا خواب نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے۔ یاد رکھیں بلاشبہ سچے خواب حسب تصریح حدیث مبارک اجزائ نبوت ہیں، مگر نبوت ہرگز نہیں۔یقینا نبوت تو خاتم الانبیاءؑپر ختم ہو چکی ہے۔ اس پر کسی کو کسی قسم کا اشکال نہیں ہونا چاہیے۔
( خواب ہر شخص سے بیان کرنا درست نہیں)
اگر اچھا خواب ہے، تو اللہ تعالی کی حمد و ثنائ کرے او ر صرف متقی اور باعمل صاحب علم سے بیان کرے، تاکہ وہ اسکی صحیح شرعی تعبیر بتاسکے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: خواب صرف عالم اور ناصح سے بیان کرو۔(تر مذی)
ایک اور حدیث مبارک میں ہے کہ خواب کا ذکر صر ف عقلمند اور دوست سے کرو۔ جس طرح یوسف علیہ السلام کے خواب متعلق حضرت یعقوب علیہ السلام کا فرمانا کہ اس خواب کا تذکرہ اپنے بھائیوں سے نہ کرنا۔ اس معلوم ہوا کہ خواب کا ذکر صرف خیرخواہ اور ہمدرد ناصح سے کیا جائے جو تعبیر کا ماہر ہو۔
آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادہے:خواب اس وقت تک خواب رہتا، جب تک کسی سے بیان نہ کردیا جائے اور سننے والے نے کوئی تعبیر بیان کردی، تو تعبیر کے مطابق ہو جاتاہے۔ (ترمذی) دوسری حدیث میں ہے:خواب پرندے کے پاو¿ں پر ہوتا ہے۔ جب تک تعبیر بیان نہکر دی جائے، اڑتا رہتا ہے۔ جب تعبیر بیان ہو جائے، تو واقع ہو جاتا ہے۔(ابوداو¿د)
رحمت دو عالم ? خواب کی تعبیر پوچھنے والے سے پہلے فرمادیتے کہ تم نے اچھا خواب دیکھا ہے پھر اسکی تعبیر بیان فرماتے۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس نے مجھے خواب میں دیکھا وہ عنقریب (روز قیامت )مجھے حالت بیداری میں دیکھے گا، یا فرمایا:گویا اس نے مجھے حالت بیداری میں دیکھا (کیونکہ) شیطان میری صور ت اختیار نہیں کر سکتا ہے۔ (متفق علیہ)
خواب دیکھنے کا کوئی وقت مقرر نہیں۔جب بھی انسان سو رہا ہو، خواب دیکھ سکتا ہے۔ آ پ کا ارشاد گرامی ہے:” سب سے سچے خواب سحر صبح کے ہوتے ہیں”۔ کیونکہ سحر صبح انو ار اور برکات الٰہی کے نزول کا وقت ہوتا ہے۔ انبیاءعلیہ السلام کے خواب الہام من اللہ تعالی ہوتے ہیں۔ اس میں کسی قسم کے عوارض شامل نہیں ہوتے۔ اس لیے یہ وحی کا درجہ رکھتے ہیں۔ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خواب کہ وہ اپنے لخت جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کررہے ہیں اور آپ ؓنے اسی طرح عمل کیا۔عام مسلمانوں کے خوابوں میں ہر طرح کا احتمال ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ قابل حجت اور دلیل نہیں ہوتے۔ ان میں طبیعت اور نفسانی خیالات کی آمیزش ہوجاتی ہے۔ اسی طرح سچے خواب عام امت کے لیے صرف بشارت اور تنبیہ کے علاوہ کوئی مقام نہیں رکھتے۔ یہ خواب نہ خود ان کے لیے کسی معاملہ میں حجت ہیں، نہ دوسروں کے لیے ان خوابوں سے کسی قسم کا شرعی حکم حاصل کیا جاسکتا ہے۔
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ نے خواب دیکھا کہ تین چاند میرے حجرے میں اترے ہیں۔ آپؓ نے اس خواب کی تعبیراپنے والد محترم سے پوچھی، جو کہ خوابوں کی تعبیر کے بہت بڑے ماہر تھے۔ صدیق اکبر ؓنے حضرت عائشہ صدیقہؓ سے پوچھا :تم نے اسکی کیا تعبیر کی ہے؟ عرض کی: میں نے یہ تعبیر اپنے طور پر کی ہے کہ مجھے رسول اللہ ﷺ سے اولاد پیدا ہوگی۔ یہ سن کر صدیق اکبر خاموش رہے، پھر جب سرور انبیائﷺ اس دنیا تشریف لے گئے اور آپ حضرت عائشہ صدیقہ کے حجرہ مبارک میں اپنے رفیق اعلی سے جا ملے، تو صدیق اکبرؓ نے فرمایا: عائشہؓ تمہارے ایک چاند یہ ہیں اور بقیہ دونوں سے افضل ہیں۔ پھر بعد میں صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ بھی اسی حجرے میں قیامت تک آرام فرمارہے ہیں۔ یہ تین چاند تھے، جو انکے حجرے مبارک میں اترے۔( و صلی اللہ علیہ والہ وسلم)

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri