جدےد عوامی فلاحی مملکت کا تصور پائےدار مضبوط مالےاتی اداروں سے جڑا ہے ۔وطن عزےز کا اےک مالےاتی ادارہ قومی بچت کے نام سے قائم ہے ۔ےہ ادارہ 1972ءمےں قائم کےا گےا ۔ےہ ادارہ نہ صرف بڑے ترقےاتی منصوبوں اور بجٹ ضرورتوں کےلئے حکومتی قرضوں کی فراہمی کا بڑا وسےلہ ہے بلکہ فلاحی رےاست کے حقےقی تصور کا عملی پروموٹر بھی ہے ۔ےہ ادارہ معاشی بد حالی کی صورت مےں حکومت چلانے کےلئے کم لاگت مےں مدد دے رہا ہے ۔وطن عزےز مےں اےٹمی دھماکے کے بعد جب ملک سے سرماےہ بھاگ رہا تھاتو بھی قومی بچت کا ادارہ ملک کی مدد کو آےا اور 142ارب دے کر ملک کو آزاد کراےا ۔ سےلاب کے دنوں مےں بھی اس ادارے کی خدمت مثالی رہی ۔دنےا بھر مےں حکومتےں نجی بچتوں کی شرح مےں منافع کےلئے غےر معمولی ترغےبات دےتی ہےں اور وہاں ےہ بچتےں قومی خزانے اور قومی معےشت کےلئے رےڑھ کی ہڈی کی حےثےت رکھتی ہےں ۔تےسری دنےا کے پاکستان اےسے ممالک مےں جہاں لوگوں کی آمدنی کی شرح کم ہے ۔بہتر تو ےہ تھا کہ عوام کا سرماےہ محفوظ کرنے کےلئے مزےد قومی بچت کی شاہےں کھولی جاتےں ،قومی بچت سکےموں کو پر کشش بناےا جاتا ،لےکن آج حکومت وقت قومی بچت کی برانچوں کو کم کر کے دوسری برانچوں مےں ضم (Merge)کرنے کی پالےسی پر عمل پےرا ہے اور عوامی بجٹ کے جذبے کا گلا گھونٹنے کی سعی کر رہی ہے ۔جب ملکی معےشت دست نگر ہو اور کاروبار رےاست قرض کی مے خوری پر چل رہا ہو اور مفت خوری کا روباری طبقوں اور رےاستی فےصلہ ساز اداروں کا شےوہ ہو تو پھر اےسے فےصلوں پر افسوس ہی کےا جا سکتا ہے لےکن ہمارے اسٹرےٹےجک اذہان کی کوئی اڑان تو دےکھے ،کون کہہ سکتا ہے ان کی چابکدستےاں اور عظےم الشان پےش بندےاں اےسے ملک مےں ہو رہی ہےں جو ادھار اتارنے کےلئے ادھار لےنے پر مجبور ہے ۔اس حقےقت سے کسے انکار ہے کہ رےاست معاشرے کے سےاسی ،معاشی اور نظرےاتی مقاصد کے حصول اور ان کے آگے بڑھانے کا اےک طاقتور اور موثر ذرےعہ ہوتا ہے لےکن ہمارے ہاں رےاست کے کار پرداز عوامی مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنے مخصوص اور لامحدود مفادات کے اسےر اور رےاست کے سارے وسائل اور ذرائع انہی مفادات کی آبےاری کےلئے استعمال مےں لائے رکھنے مےں محورہتے ہےں ۔معزز قارئےن راقم کی اس طولانی تمہےد کا محور مےرے شہر سےالکوٹ ماڈل ٹاﺅن کی قومی بچت کی شاخ سےالکوٹ مجاہد روڈ قومی بچت کی برانچ مےں Mergeکر دی گئی ہے جس سے اس برانچ پر سےنکڑوں اکاﺅنٹ ہولڈرز کا مزےد بوجھ ڈال دےا گےا ہے ۔راقم کا مجاہد روڈ قومی بچت کی برانچ مےں جانا ہوا تو اندر دکھائی دےنے والا احوال جےل مےں ملاقاتےوں کے منظر سے مشابہ تھا ۔برانچ کے اندر بے پناہ ہجوم جن مےں عورتوں اور ضعےف لوگوں کی اکثرےت تھی ۔اےک لمبا سا برآمدہ نما کمرہ جو سامنے کی طرف سے فولادی سلاخوں سے بند اور اس کے اندر برانچ کا عملہ جےسے عملہ سزا ےافتہ قےدی ہو اور باہر ملاقاتےوں کا ہجوم ،بےٹھنے کےلئے جگہ ناےاب اور فرنےچر بھی ناکافی ،عجب نفسا نفسی اور ہڑبونگ کا منظر تھا ۔برانچ کا عملہ اےسے دکھائی دے رہا تھا جےسے ان کو مرغےوں کے ڈربے اور باڑے مےں بند کر دےا ہو ۔آفرےن ہے اس عملہ پر کےونکہ نظم و ضبط اس ہجوم مےں صرف اسی وقت قائم رکھا جا سکتا ہے جب منتظم بلند کردار ،فرض شناس اور انسانی ہمدردی کا جذبہ رکھنے والا ہو ۔ےہاں راقم نے مشاہدہ کےا منتظم محمد شکےل اسسٹنٹ ڈائرےکٹر نہاےت خندہ پےشانی سے باری باری ہر اکاﺅنٹ ہولڈر کو مطمئن کر رہے ہےں اور ان کا عملہ بھی جانفشانی سے بذمہ کام جانفشانی ،لگن،اور اخلاق سے کر رہا ہے ۔ثمےر صاحب کمپےوٹر پر ہر کلائنٹ کا کام سبک روی سے انجام دےتے ہوئے نظر آئے اور کسی کو بھی شکاےت کا کوئی موقع نہےں دے رہے ۔عقےل طارق بائےومےٹرک کروا رہے ہےں اور کےشئےر اپنے کام مےں مصروف دکھائی دےا ۔قومی بچت کے ادارے کی جوبرانچےں اس وقت فعال ہےں ان کی اس وقت صورتحال ےہ ہے کہ اس کے کارکن اور افسران شدےد گرمی مےں بھی ائےرکنڈےشنڈ کی سہولت کے بغےر پسےنہ پونچھتے ہوئے عوام کی خدمت کر رہے ہےں ۔ان اداروں کو سہولتےں بہم پہنچانے ،کارکنوں اور ملازمےن کےلئے خصوصی طور پر بہتر پےکےج دےنے کی ضرورت ہے تا کہ ان کے کام کے جذبے اور لگن کو مزےد جلا مل سکے اور وہ خود کفےل ہو سکےں ۔ارباب اختےار کے بہتر فےصلوں کی بدولت ہی قومےں پائےدار معےشت کی طرف نئے جذبوں سے محو سفر ہوتی ہےں ۔معزز قارئےن قومی بچت وہ ادارہ ہے جس کی وجہ سے بہت سے غرےب ،متوسط ،سفےد پوش ،اےماندار اور فرض شناس لوگوں کے گھروں کے چولہے جل رہے ہےں ۔ےہ ادارہ مقابلتاً دوسرے بےنکوں سے زےادہ منافع دےتا ہے اور حکومت کا براہ راست کنٹرول ہونے کی وجہ سے سرماےہ ڈوبنے کا ندےشہ بھی نہےں ۔ےہی چےز عوام کو اعتماد بخشتی اور لوگ بے خوف و خطر بچت کی سکےموں مےں اپنا سرماےہ جمع کراتے ہےں ،خصوصاً پنشن ےافتہ افراد ،معمر افراد ،بےوائےں ،ےتےم ،بے آسرا اور چھوٹے درجے کے ملازمےن اپنی جمع شدہ رقوم اس کی فلاحی سکےم مےں لگا دےتے اور اپنی زندگی کو قدرے پر سکون بنا لےتے ہےں ۔ہر ماہ اس سکےم سے منافع ملتا رہتا ہے اور ےوں ےہ ادارہ پاکستان کے لاکھوں نہےں کروڑوں لوگوں کی کفالت کرتا ہے ۔کئی بےنکوں نے اس کی نقل کرنے کی کوشش کی مگر ان کی شرح منافع مےں بتدرےج کمی کی جاتی رہی ۔وزےر اعظم نواز شرےف کے وزارت عظمیٰ کے دور مےں سےونگ کی شرح منافع 14 سے 18فےصد تک تھےں ۔نواز شرےف صاحب کے دور حکومت مےں ہی اس وقت کے وزےر خزانہ سرتاج عزےز نے بےنک کے بچت کھاتوں پر پہلا وار منافع پر دس فےصد ود ہولڈنگ ٹےکس کے نفاذ سے کےا ۔اس دور مےں بجٹ پرےس کانفرنس کے دوران اےک سنئےر صحافی نے وزےر اعظم موصوف سے سوال کےا کہ کےا حکومت اس طرح چھوٹی بچتوں کی حوصلہ شکنی نہےں کر رہی تو انہوں نے جواب دےا کہ بےنکوں کی نج کاری کی جا رہی ہے اور اس ٹےکس کا نفاذ ہم بچت کھاتوں پر کر رہے ہےں ۔قومی بچت مراکز اس سے مستثنیٰ ہےں لےکن بعد ازاں نواز شرےف کے دور مےں ہی دو مرتبہ قومی بچت سکےموں کی شرح منافع مےں کمی کر دی گئی ۔1999ءتک بچتوں پر 14سے18فےصد منافع کی شرح برقرار رہی ۔پنشنروں ،ےتےموں اور بےواﺅں کی اشک شوئی کےلئے اگرچہ الگ سکےمےں شروع کی گئی ہےں لےکن ان سکےموں کی شرائط اتنی کڑی ہےں کہ ےہ طبقات اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے سے محروم ہےں ۔بچتوں کی شرح کم کرنا دراصل ملک مےں بچت کی حوصلہ شکنی کرنا ہے جو واضع قومی نقصان ہے ۔اس وقت شرح منافع مےں تسلسل سے کمی کا مقصد شاےد ملکی سطح پر سرماےہ کاری مےں اضافہ تھا کہ عوام اپنے کھاتوں مےں رکھی رقوم نکلوا کر مختلف شعبوں اور صنعتوں مےں لگائےں گے جس سے کاروباری ،صنعتی اور تجارتی سر گرمےاں فروغ پائےں گی ۔عوام نے ان سکےموں پر لگی رقوم نکلوائےں ضرور لےکن ان کو پراپرٹی بنانے اور جائےدادےں خرےدنے پر صرف کر دےا ۔اس کا نتےجہ ےہ نکلا کہ جائےداد کی قےمتوں مےں بے پناہ اضافہ ہو گےا اور قےمتےں اتنی بڑھ گئےں کہ عام آدمی کےلئے سر چھپانے کی جگہ تعمےر کرنا محال ہی نہےں ناممکن ہو گےا ۔اس عمل سے افراط زر اور مہنگائی مےں بھی اضافہ ہوا ۔ماضی کا تجربہ شاہد ہے کہ نجی شعبہ مےں کو آپرےٹو اداروں ،فنانس کمپنےوں اور اس نوع کے دوسرے اداروں مےں روپےہ جمع کروا کر عوام اربوں روپے سے محروم ہو گئے اور چونکہ ان مےں سے اکثرےت کے پاس ذاتی تجربہ اور مہارت بھی تھی اس سبب قومی بچت کی غےر منافع ہو جانے والی سکےموں سے نکل کر ےہ روپےہ کبھی سرمائے کی منڈی مےں نہےں آےا ،ےہ روپےہ سٹاک اےکسچےنج مےں آےا ےا رئےل اسٹےٹ کی نذر ہو گےا ۔سرکاری ماہرےن اےک دلےل ےہ بھی دےتے ہےں کہ چھوٹی بچتوں مےں کمی کر کے صنعتی اور تجارتی قرضوں کو آسان بناےا جا رہا ہے تا کہ صنعت اور تجارت کو فروغ ملے اور روز گار کے مواقع بڑھائے جا سکےں ۔کےا ےہ درست نہےں کہ بےنکوں کے کھربوں روپے ابھی تک قرضوں مےں پھنسے ہوئے ہےں اور اربوں کے قرضے معاف کر دےے گئے ےا ڈوب گئے ۔عموماً حکومت کو سرماےہ کی جب اشد ضرورت ہوتی ہے تو قومی بچت سکےموں کے منافع کی شرح مےں اضافہ کر دےا جاتا ہے لےکن جےسے ہی حکومت اپنا مالےاتی ہدف پورا کر لےتی ہےں منافع کی شرح کم کر دی جاتی ہے ۔صاحبان اختےار سے سربستہ اپےل ہے کہ ماڈل ٹاﺅں برانچ کو قومی بچت مجاہد روڈ کی برانچ مےں ضم کرنا اےک سنگدلانہ فےصلہ ہے ۔ےہ اےسی اذےت ہے جس مےں عملہ اور کلائنٹس کو روزانہ گزرنا پڑتا ہے ۔اےسے فےصلوں پر مستقبل مےں گرےز کےا جائے۔
جدےد عوامی فلاحی مملکت کا تصور پائےدار مضبوط مالےاتی اداروں سے جڑا ہے ۔وطن عزےز کا اےک مالےاتی ادارہ قومی بچت کے نام سے قائم ہے ۔ےہ ادارہ 1972ءمےں قائم کےا گےا ۔ےہ ادارہ نہ صرف بڑے ترقےاتی منصوبوں اور بجٹ ضرورتوں کےلئے حکومتی قرضوں کی فراہمی کا بڑا وسےلہ ہے بلکہ فلاحی رےاست کے حقےقی تصور کا عملی پروموٹر بھی ہے ۔ےہ ادارہ معاشی بد حالی کی صورت مےں حکومت چلانے کےلئے کم لاگت مےں مدد دے رہا ہے ۔وطن عزےز مےں اےٹمی دھماکے کے بعد جب ملک سے سرماےہ بھاگ رہا تھاتو بھی قومی بچت کا ادارہ ملک کی مدد کو آےا اور 142ارب دے کر ملک کو آزاد کراےا ۔ سےلاب کے دنوں مےں بھی اس ادارے کی خدمت مثالی رہی ۔دنےا بھر مےں حکومتےں نجی بچتوں کی شرح مےں منافع کےلئے غےر معمولی ترغےبات دےتی ہےں اور وہاں ےہ بچتےں قومی خزانے اور قومی معےشت کےلئے رےڑھ کی ہڈی کی حےثےت رکھتی ہےں ۔تےسری دنےا کے پاکستان اےسے ممالک مےں جہاں لوگوں کی آمدنی کی شرح کم ہے ۔بہتر تو ےہ تھا کہ عوام کا سرماےہ محفوظ کرنے کےلئے مزےد قومی بچت کی شاہےں کھولی جاتےں ،قومی بچت سکےموں کو پر کشش بناےا جاتا ،لےکن آج حکومت وقت قومی بچت کی برانچوں کو کم کر کے دوسری برانچوں مےں ضم (Merge)کرنے کی پالےسی پر عمل پےرا ہے اور عوامی بجٹ کے جذبے کا گلا گھونٹنے کی سعی کر رہی ہے ۔جب ملکی معےشت دست نگر ہو اور کاروبار رےاست قرض کی مے خوری پر چل رہا ہو اور مفت خوری کا روباری طبقوں اور رےاستی فےصلہ ساز اداروں کا شےوہ ہو تو پھر اےسے فےصلوں پر افسوس ہی کےا جا سکتا ہے لےکن ہمارے اسٹرےٹےجک اذہان کی کوئی اڑان تو دےکھے ،کون کہہ سکتا ہے ان کی چابکدستےاں اور عظےم الشان پےش بندےاں اےسے ملک مےں ہو رہی ہےں جو ادھار اتارنے کےلئے ادھار لےنے پر مجبور ہے ۔اس حقےقت سے کسے انکار ہے کہ رےاست معاشرے کے سےاسی ،معاشی اور نظرےاتی مقاصد کے حصول اور ان کے آگے بڑھانے کا اےک طاقتور اور موثر ذرےعہ ہوتا ہے لےکن ہمارے ہاں رےاست کے کار پرداز عوامی مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف اپنے مخصوص اور لامحدود مفادات کے اسےر اور رےاست کے سارے وسائل اور ذرائع انہی مفادات کی آبےاری کےلئے استعمال مےں لائے رکھنے مےں محورہتے ہےں ۔معزز قارئےن راقم کی اس طولانی تمہےد کا محور مےرے شہر سےالکوٹ ماڈل ٹاﺅن کی قومی بچت کی شاخ سےالکوٹ مجاہد روڈ قومی بچت کی برانچ مےں Mergeکر دی گئی ہے جس سے اس برانچ پر سےنکڑوں اکاﺅنٹ ہولڈرز کا مزےد بوجھ ڈال دےا گےا ہے ۔راقم کا مجاہد روڈ قومی بچت کی برانچ مےں جانا ہوا تو اندر دکھائی دےنے والا احوال جےل مےں ملاقاتےوں کے منظر سے مشابہ تھا ۔برانچ کے اندر بے پناہ ہجوم جن مےں عورتوں اور ضعےف لوگوں کی اکثرےت تھی ۔اےک لمبا سا برآمدہ نما کمرہ جو سامنے کی طرف سے فولادی سلاخوں سے بند اور اس کے اندر برانچ کا عملہ جےسے عملہ سزا ےافتہ قےدی ہو اور باہر ملاقاتےوں کا ہجوم ،بےٹھنے کےلئے جگہ ناےاب اور فرنےچر بھی ناکافی ،عجب نفسا نفسی اور ہڑبونگ کا منظر تھا ۔برانچ کا عملہ اےسے دکھائی دے رہا تھا جےسے ان کو مرغےوں کے ڈربے اور باڑے مےں بند کر دےا ہو ۔آفرےن ہے اس عملہ پر کےونکہ نظم و ضبط اس ہجوم مےں صرف اسی وقت قائم رکھا جا سکتا ہے جب منتظم بلند کردار ،فرض شناس اور انسانی ہمدردی کا جذبہ رکھنے والا ہو ۔ےہاں راقم نے مشاہدہ کےا منتظم محمد شکےل اسسٹنٹ ڈائرےکٹر نہاےت خندہ پےشانی سے باری باری ہر اکاﺅنٹ ہولڈر کو مطمئن کر رہے ہےں اور ان کا عملہ بھی جانفشانی سے بذمہ کام جانفشانی ،لگن،اور اخلاق سے کر رہا ہے ۔ثمےر صاحب کمپےوٹر پر ہر کلائنٹ کا کام سبک روی سے انجام دےتے ہوئے نظر آئے اور کسی کو بھی شکاےت کا کوئی موقع نہےں دے رہے ۔عقےل طارق بائےومےٹرک کروا رہے ہےں اور کےشئےر اپنے کام مےں مصروف دکھائی دےا ۔قومی بچت کے ادارے کی جوبرانچےں اس وقت فعال ہےں ان کی اس وقت صورتحال ےہ ہے کہ اس کے کارکن اور افسران شدےد گرمی مےں بھی ائےرکنڈےشنڈ کی سہولت کے بغےر پسےنہ پونچھتے ہوئے عوام کی خدمت کر رہے ہےں ۔ان اداروں کو سہولتےں بہم پہنچانے ،کارکنوں اور ملازمےن کےلئے خصوصی طور پر بہتر پےکےج دےنے کی ضرورت ہے تا کہ ان کے کام کے جذبے اور لگن کو مزےد جلا مل سکے اور وہ خود کفےل ہو سکےں ۔ارباب اختےار کے بہتر فےصلوں کی بدولت ہی قومےں پائےدار معےشت کی طرف نئے جذبوں سے محو سفر ہوتی ہےں ۔معزز قارئےن قومی بچت وہ ادارہ ہے جس کی وجہ سے بہت سے غرےب ،متوسط ،سفےد پوش ،اےماندار اور فرض شناس لوگوں کے گھروں کے چولہے جل رہے ہےں ۔ےہ ادارہ مقابلتاً دوسرے بےنکوں سے زےادہ منافع دےتا ہے اور حکومت کا براہ راست کنٹرول ہونے کی وجہ سے سرماےہ ڈوبنے کا ندےشہ بھی نہےں ۔ےہی چےز عوام کو اعتماد بخشتی اور لوگ بے خوف و خطر بچت کی سکےموں مےں اپنا سرماےہ جمع کراتے ہےں ،خصوصاً پنشن ےافتہ افراد ،معمر افراد ،بےوائےں ،ےتےم ،بے آسرا اور چھوٹے درجے کے ملازمےن اپنی جمع شدہ رقوم اس کی فلاحی سکےم مےں لگا دےتے اور اپنی زندگی کو قدرے پر سکون بنا لےتے ہےں ۔ہر ماہ اس سکےم سے منافع ملتا رہتا ہے اور ےوں ےہ ادارہ پاکستان کے لاکھوں نہےں کروڑوں لوگوں کی کفالت کرتا ہے ۔کئی بےنکوں نے اس کی نقل کرنے کی کوشش کی مگر ان کی شرح منافع مےں بتدرےج کمی کی جاتی رہی ۔وزےر اعظم نواز شرےف کے وزارت عظمیٰ کے دور مےں سےونگ کی شرح منافع 14 سے 18فےصد تک تھےں ۔نواز شرےف صاحب کے دور حکومت مےں ہی اس وقت کے وزےر خزانہ سرتاج عزےز نے بےنک کے بچت کھاتوں پر پہلا وار منافع پر دس فےصد ود ہولڈنگ ٹےکس کے نفاذ سے کےا ۔اس دور مےں بجٹ پرےس کانفرنس کے دوران اےک سنئےر صحافی نے وزےر اعظم موصوف سے سوال کےا کہ کےا حکومت اس طرح چھوٹی بچتوں کی حوصلہ شکنی نہےں کر رہی تو انہوں نے جواب دےا کہ بےنکوں کی نج کاری کی جا رہی ہے اور اس ٹےکس کا نفاذ ہم بچت کھاتوں پر کر رہے ہےں ۔قومی بچت مراکز اس سے مستثنیٰ ہےں لےکن بعد ازاں نواز شرےف کے دور مےں ہی دو مرتبہ قومی بچت سکےموں کی شرح منافع مےں کمی کر دی گئی ۔1999ءتک بچتوں پر 14سے18فےصد منافع کی شرح برقرار رہی ۔پنشنروں ،ےتےموں اور بےواﺅں کی اشک شوئی کےلئے اگرچہ الگ سکےمےں شروع کی گئی ہےں لےکن ان سکےموں کی شرائط اتنی کڑی ہےں کہ ےہ طبقات اس سے خاطر خواہ فائدہ اٹھانے سے محروم ہےں ۔بچتوں کی شرح کم کرنا دراصل ملک مےں بچت کی حوصلہ شکنی کرنا ہے جو واضع قومی نقصان ہے ۔اس وقت شرح منافع مےں تسلسل سے کمی کا مقصد شاےد ملکی سطح پر سرماےہ کاری مےں اضافہ تھا کہ عوام اپنے کھاتوں مےں رکھی رقوم نکلوا کر مختلف شعبوں اور صنعتوں مےں لگائےں گے جس سے کاروباری ،صنعتی اور تجارتی سر گرمےاں فروغ پائےں گی ۔عوام نے ان سکےموں پر لگی رقوم نکلوائےں ضرور لےکن ان کو پراپرٹی بنانے اور جائےدادےں خرےدنے پر صرف کر دےا ۔اس کا نتےجہ ےہ نکلا کہ جائےداد کی قےمتوں مےں بے پناہ اضافہ ہو گےا اور قےمتےں اتنی بڑھ گئےں کہ عام آدمی کےلئے سر چھپانے کی جگہ تعمےر کرنا محال ہی نہےں ناممکن ہو گےا ۔اس عمل سے افراط زر اور مہنگائی مےں بھی اضافہ ہوا ۔ماضی کا تجربہ شاہد ہے کہ نجی شعبہ مےں کو آپرےٹو اداروں ،فنانس کمپنےوں اور اس نوع کے دوسرے اداروں مےں روپےہ جمع کروا کر عوام اربوں روپے سے محروم ہو گئے اور چونکہ ان مےں سے اکثرےت کے پاس ذاتی تجربہ اور مہارت بھی تھی اس سبب قومی بچت کی غےر منافع ہو جانے والی سکےموں سے نکل کر ےہ روپےہ کبھی سرمائے کی منڈی مےں نہےں آےا ،ےہ روپےہ سٹاک اےکسچےنج مےں آےا ےا رئےل اسٹےٹ کی نذر ہو گےا ۔سرکاری ماہرےن اےک دلےل ےہ بھی دےتے ہےں کہ چھوٹی بچتوں مےں کمی کر کے صنعتی اور تجارتی قرضوں کو آسان بناےا جا رہا ہے تا کہ صنعت اور تجارت کو فروغ ملے اور روز گار کے مواقع بڑھائے جا سکےں ۔کےا ےہ درست نہےں کہ بےنکوں کے کھربوں روپے ابھی تک قرضوں مےں پھنسے ہوئے ہےں اور اربوں کے قرضے معاف کر دےے گئے ےا ڈوب گئے ۔عموماً حکومت کو سرماےہ کی جب اشد ضرورت ہوتی ہے تو قومی بچت سکےموں کے منافع کی شرح مےں اضافہ کر دےا جاتا ہے لےکن جےسے ہی حکومت اپنا مالےاتی ہدف پورا کر لےتی ہےں منافع کی شرح کم کر دی جاتی ہے ۔صاحبان اختےار سے سربستہ اپےل ہے کہ ماڈل ٹاﺅں برانچ کو قومی بچت مجاہد روڈ کی برانچ مےں ضم کرنا اےک سنگدلانہ فےصلہ ہے ۔ےہ اےسی اذےت ہے جس مےں عملہ اور کلائنٹس کو روزانہ گزرنا پڑتا ہے ۔اےسے فےصلوں پر مستقبل مےں گرےز کےا جائے۔
کالم
قومی بچت کے ادار ے کی بعض برانچوں کا خاتمہ
- by web desk
- اکتوبر 4, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 338 Views
- 1 سال ago