کالم

"متوقع حکومت کیسی ہوگی "

2024 کی متوقع حکومت کے خدوخال پیش کرنے سے پہلے 2000تک قائم ہونے والی حکومتوں پر بھی نظر رکھنی پڑے گی لیکن سب سے پہلے ہمیں اس مفروضے کو بھی دیکھنا ہوگا کہ آیا یہ حکومت بنے گی بھی یا نہیں انتخابات کے انعقاد کا معاملہ سپریم کورٹ کی واضح ہدایات کے باوجود ابھی تک مشکوک ہی لگتا ہے بڑی وجوہات میں ایک یہ بھی ہوسکتی ہے کہ انڈین حکومت اور وزیراعظم نریندر مودی ایسے ایسے بیانات داغ رہے ہیں کہ جس سے یہ اندازہ لگانا آسان ہے کہ 8 فروری 2024 سے پہلے بھارت کوئی بڑا پنگا لے سکتا ہے چونکہ بھارتی حکومت کے ترجمان اور تجزیہ نگار بار بار یہ ہرزہ سرائی کر رہے ہیں کہ صدر جوبائیڈن نے آرمی چیف جناب عاصم منیر کو مقبوضہ کشمیر کے حالات خراب کرنے کی کوئی مبینہ طور پر شہ دی ہے جس کے نتیجے میں بھارتی حکومت امریکہ کے خلاف بھی بیانات داغتے جا رہی ہے اس ساری صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ خدانخواستہ بھارت کسی طرح کا کوئی سٹرٹیجک کارروائی کرنے کے موڈ میں ہے خود پاکستان کے ارباب اختیار و اقتدار انتخابات کی ناکامی اور سبکی سے بچنے کےلئے شاید اس کےلئے تیار بھی ہوجائیں ان خدشات اور اندیشوں کے منڈلاتے سائے میں کوئی حکومت اگر تشکیل دے بھی دی گئی تو اس کو اندرون ملک عوامی تائید و پذیرائی حاصل نہیں ہوگئی اور نہ ہی عالمی سطح پر اس کی کوئی شناخت اور ساکھ ہوگئی۔ خالص نتیجہ سیاسی انتشار معاشی، خلفشار اور باہمی چپقلش کی صورت میں نکلنے کا امکان زیادہ ہے جوکہ ایک انتہائی نقصان دہ عمل ہوگا ایسے میں الیکشن محض ایک غیر ضروری ریہرسل ہوگی نقصانات کا امکان زیادہ ہے ہم پاکستان کے مقتدر ذمہ داران سے بجا طور پر توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمارے ملک کو کسی بڑی آزمائش میں نہیں ڈالیں گے اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں بالخصوص تحریک انصاف کو آن بورڈ کریں گے پاکستان کی بقا سالمیت اور تعمیر و ترقی کو یقینی بنائیں گے اس موقع پر پاکستان کے بڑے خطرات میں افغان مہاجرین کا قضیہ طالبان کی حکومت کی ناراضگی اور تحریک طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیاں ہندوستان کی دھمکیاں اس بات کا تقاضا کرتی ہیں کہ بیساکھیوں کے سہارے جمہور اور جمہوری امنگوں کے برعکس کمزور حکومت کی مشق کروانے کے بجائے حقیقی جمہوریت کو بحال کرکے ملک کی سالمیت اور بقا کو یقینی بنایا جائے۔ہمارے پڑوس میں نئی ڈویلپمنٹ یہ ہوئی ہے کہ بھارت کے وزیرخارجہ نے روس کا پانچ روزہ دورہ کیا ہے جس میں بھارت نے روس کےساتھ اپنے ملٹری انفراسٹرکچر کو اپ ڈیٹ کرنے کے نئے معاہدے کئے ہیں جبکہ تجارتی معاہدوں کےلئے روس کےساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو وسیع تر بنانے کے پروٹوکول پر دستخط کئے ہیں اس طرح پاکستان واضح طور پر امریکہ روس اور کسی حد تک چین کی ہمدردیاں حاصل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے ہمارا خطے میں پہلے صرف بھارت تو اکیلا روایتی حریف تھا اب تو افغانستان ایران بنگلہ دیش سمیت ہمارا کون دوست رہ گیا ہے جو ہم پر اعتماد کرتا ہو، اس کی بڑی وجوہات میں ہماری داخلی اور خارجی پالیسیاں ہیں جو قومی امنگوں سے ہم آہنگ بالکل نہیں ان حالات میں پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے بیرون ملک تارکین وطن بھی ملکی حالات کی وجہ سے رنجیدہ اور بڑی حد تک ناراض ہیں جو پاکستان کے بلا معاوضہ سفیر ہیں ملک کی زرمبادلہ کی صورت میں معیشت کو مشکل حالات میں سنبھالا دیتے ہیں ،خدا را اس ملک کو سنبھالیں اپنے ملک کی عوام کے جذبات کا احترام کریں اس وقت ہمارے ملک کو کئی لاکھ لوگ چھوڑ رہے ہیں غریب اور متوسط طبقے کے لوگ روزگار کے حصول کےلئے چھوڑ رہے ہیں جبکہ سرمایہ دار اور امرا اور اشرافیہ بھی اپنا سرمایہ باہر منتقل کررہی ہے جبکہ بھارتی بنگلہ دیشی تارکین وطن باہر سے اپنے ملک میں سرمایہ کاری کررہے ہیں اور واپس اپنے ملکوں میں لوٹ رہے ہیں ہم پاکستانی قوم ملک چھوڑنے پر کیوں مجبور ہو رہے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri