زندگی کی راہوں میں کچھ لمحات ایسے آتے ہیں جو انسان کے وجود کو ایک نئی معنویت عطا کرتے ہیں، سوچ کے دریچے بدل دیتے ہیں، دل کی دنیا میں ایسا چراغ جلا دیتے ہیں جو تاحیات جلتا رہتا ہے۔ ایسا ہی لمحہ میری زندگی میں آیا جب میں نے ادب و فن کے عظیم استاذ محترم پرنم الہ آبادی کی شاگردی اختیار کی۔ وہ نہ صرف شعر و سخن کے استاد تھے بلکہ روحانیت کے دریا کے شناور، نسبت کے امین اور باطن کے سفر میں رہبر بھی تھے۔شاگردی کا ابتدائی زمانہ علمی استفادہ اور فکری تربیت میں گزرا۔ مگر ایک دن استاد محترم نے مجھ سے ایک سوال کیا جو میری زندگی کا رخ ہی بدل گیا۔ انہوں نے پوچھا:
"آپ کا مرشد خانہ ہے؟”
میں نے عرض کی: "نہیں حضور۔”
تب وہ مسکرائے اور محبت سے کہا:”پھر اب تم ہمارے شاگرد ہو تو مرشد خانہ بھی ایک کرتے ہیں۔ زندگی میں یاد کرو گے، آج جو ہمیں فیض ملا ہے یہ سب مرشد خانے کی دعا ہے۔”
یہ جملہ گویا میرے دل پر نقش ہو گیا۔ ایک عجیب سی تڑپ دل میں پیدا ہوئی۔ ایسا محسوس ہوا کہ اب مجھے فوراً استاد کے ساتھ اس مرشد خانے تک پہنچنا چاہیے جس نے انہیں ایسا عظیم انسان بنا دیا ہے۔ اللہ اللہ!وہ لمحہ بھی آ گیا۔ استاد محترم مجھے اپنے مرشد خانے لے گئے، آستانہ عالیہ حضرت پیر جنرل سخی سائیں علی محمد سرکار، ہری پور ہزارہ، سرائے نعمت خان۔یہ میرے روحانی سفر کا پہلا قدم تھا، اور کیسا یادگار سفر تھا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو پہلی بار سجادہ نشین، روشن ضمیر ولی کامل حضرت سائیں بابر بشیر صاحب جی سرکار کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ ان کی شخصیت میں وہ نور، وہ سادگی، وہ عشقِ حقیقی کی جھلک تھی جو دل کو اندر تک منور کر دیتی ہے۔ہم نے سب سے پہلے حضرت سائیں علی محمد سرکار کے مزار پر حاضری دی۔ عجیب کیف و سرور کی کیفیت تھی۔ روح جیسے ہلکی ہو گئی ہو۔ وہ لمحہ لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں، بس محسوس کیا جا سکتا ہے پھر ایک کمرے میں ہمارا سامان رکھا گیا، وہی کمرہ جہاں ہمیشہ استاد محترم قیام کیا کرتے تھے۔مجھے آج بھی وہ روحانی کیفیت یاد ہے۔ ایسا سکون، ایسی طمانیت، ایسا قربِ الہی کا احساس شاید ہی کسی اور جگہ محسوس کیا ہو۔ واقعی اولیا اللہ کے در سے جو سکون ملتا ہے، وہ دنیا کی کسی دولت، کسی شہرت سے حاصل نہیں ہوتا۔ہم وہاں چار روز قیام پذیر رہے۔انہی دنوں میں مجھے حضرت سائیں بابر بشیر صاحب کے دستِ مبارک پر بیعت کی سعادت نصیب ہوئی۔ بیعت کا لمحہ ایسا تھا جیسے دل پر روشنی برس گئی ہو، جیسے سینے میں چراغ جل اٹھے ہوں۔ میرے مرشد نے نہ صرف روحانی نسبت دی بلکہ خود عمل سے بھی رہنمائی فرمائی۔ میں نے انہیں مرشد خانے میں خود کام کرتے دیکھا۔ وہ خادمانہ انداز، وہ سادگی، وہ عاجزی واقعی زمین سے جڑے ہوئے فقیر تھے۔استاد محترم نے جو فرمایا تھا، اس سے کہیں بڑھ کر پایا۔ آج بیس سال ہو گئے ہیں اس نسبت کو، اور جو کچھ بھی خاکسار پر کرم ہے، جو خیر ہے، جو فیض ہے، وہ سب میرے مرشد حضرت سائیں بابر بشیر صاحب کی نظرِ کرم ہے۔ ان کی دعا ہے، ان کی نسبت ہے، ان کی رہنمائی ہے۔مجھے آج بھی استاد محترم کی وہ بات یاد ہے:”ہم نہ بھی رہے تو تم یاد کرو گے ایسے مرشد خانے پر بیعت کروایا۔”واقعی آج جب ماضی کے آئینے میں جھانکتا ہوں، تو دل خود بخود گواہی دیتا ہے کہ یہ مرشد خانہ صرف ایک مقام نہیں، ایک روحانی مرکز ہے، ایک ایسی نسبت کا مظہر ہے جو دنیا و آخرت کی فلاح کی ضمانت ہے۔میں کئی دیگر درگاہوں پر بھی گیا ہوں۔ بے شک وہاں بھی اہل اللہ کی خوشبو محسوس ہوتی ہے، مگر جو محبت، عاجزی، اور عملی خدمت میں نے اپنے مرشد خانے میں دیکھی، وہ کہیں اور نہ ملی۔ ہمارے مرشد خانے کا امتیاز یہ ہے کہ عرس کے دن ہوں یا عام دن، پیر صاحب زائرین کا خود خیال رکھتے ہیں۔ اپنے ہاتھوں سے کام کرتے ہیں، کھانے، صفائی، خدمت ہر کام میں پیش پیش ہوتے ہیں۔اسکے برعکس بہت سے درگاہوں پر دیکھا کہ پیر صاحبان صرف گدی پر بیٹھے ہوتے ہیں۔ بات کرنے کے لیے بھی وقت لینا پڑتا ہے۔ عقیدتمند سامنے بھی نہیں آ سکتے۔ مگر یہاں معاملہ الٹ ہے۔ مرشد خود خوابوں میں آتے ہیں، خود دلوں کو تھامتے ہیں۔یہی ہے اصل فقیری، اصل نسبت، اصل روحانیت۔ ہمارا مرشد خانہ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری سے فیض یافتہ ہے۔ یہ نسبت کا وہ سلسلہ ہے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوا، اور آج ہم تک پہنچا۔ داتا دربار سے جو نور چلا، وہ حضرت سائیں علی محمد سرکار اور پھر حضرت سائیں بابر بشیر تک پہنچا، اور آج ہمیں منور کر رہا ہے۔ہر سال شعبان المعظم میں حضرت سائیں علی محمد سرکار کا چار روزہ سالانہ عرس ہوتا ہے۔ یہ عرس فقط روحانی اجتماع نہیں بلکہ تربیت، اصلاح اور قربِ الہی کی فضا ہوتا ہے۔ یہاں آنے والا ہر زائر خود کو بدلتا محسوس کرتا ہے۔ اس دوران مرشد ہر ایک کے لیے وقت نکالتے ہیں، ان کی دعائیں، توجہات، مشورے ہر لمحہ زائرین کیلئے رہنمائی کا ذریعہ بنتے ہیں۔کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ اگر مجھے استاد محترم پرنم الہ آبادی کی شاگردی نصیب نہ ہوتی، تو شاید میں اس نورانی دربار سے محروم رہتا۔ ان کا ہاتھ تھامنا میری زندگی کا سب سے قیمتی فیصلہ تھا، جس نے میرے فکر، روح اور زندگی کی سمت بدل دی۔آج اگر مجھ میں کچھ علم، کچھ اخلاق، کچھ روشنی ہے تو وہ میرے استاد کی صحبت اور مرشد کی دعا کا اثر ہے۔ دنیا کے رنگ بدل سکتے ہیں، حالات بدل سکتے ہیں، لیکن روحانی نسبت ایک ایسی
کالم
مرشد خانہ: روحانی نسبت کا مرکزِ فیض
- by web desk
- جولائی 4, 2025
- 0 Comments
- Less than a minute
- 26 Views
- 21 گھنٹے ago