کالم

مظفرآباد میں خیر مقدم، سری نگر میں زبان بندی

چند روز قبل، ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے مظفرآباد کا اہم دورہ کیا، جہاں انہوں نے آزاد جموں و کشمیر کی سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ ایک تفصیلی نشست کی۔ اس ملاقات میں علاقائی امن، قومی سلامتی اور پاکستان و کشمیر کے اٹوٹ رشتے جیسے اہم قومی امور پر کھلے دل سے بات چیت کی گئی۔یہ امر قابل توجہ ہے کہ یہ اجلاس جذبہ حب الوطنی اور عوامی شرکت سے بھرپور تھا۔ شرکاء نے بھرپور انداز میں پاکستان سے اپنی غیر متزلزل وابستگی کا اعادہ کیا اور تاریخی مؤقف دہرایا کہ ”کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھا، ہے اور رہے گا ۔ ”تقریب میں یکجہتی کا ایک پُراثر مظاہرہ بھی دیکھنے میں آیا جہاں شرکاء نے پاکستانی اور کشمیری پرچم بلند کر کے اس رشتے کو کمزور کرنے کی کسی بھی کوشش کے خلاف اجتماعی مزاحمت کا اظہار کیا۔ مقامی نمائندوں نے ڈی جی آئی ایس پی آر کو کشمیری روایتی لباس پیش کیا جو باہمی احترام اور ثقافتی یگانگت کی علامت تھا ۔شرکاء نے بھارتی اشتعال انگیزیوں کیخلاف پاک فوج کے مستعد کردار کو بھرپور سراہا۔ ہال ”کشمیر بنے گا پاکستان” کے نعروں سے گونج اٹھا، جو کشمیری عوام کے جذبات اور قومی وحدت کی گواہی دے رہا تھا۔یہ امر بھی قابلِ غور ہے ہ 13 جولائی 2025 کو مقبوضہ کشمیر سے ایک عجیب منظر سامنے آیا، جب بھارت نواز رہنما عمر عبداللہ کو بھی اپنا مؤقف تبدیل کرنا پڑا اور وہ مقفل شہداء قبرستان کے دروازے پھلانگ کر 1931 کے 22 کشمیری شہداء کو خراج عقیدت پیش کرنے پہنچے۔ یہ دروازے کسی علیحدگی پسند نے نہیں بلکہ خود بھارتی ریاست نے بند کیے تھے۔قبرستان جانے والے تمام راستے سیل کر دیے گئے تھے، اور سکیورٹی فورسز نے پورے علاقے کو گھیر رکھا تھا ۔یہاں تک کہ وہ سیاسی رہنما جو بھارتی جمہوری نظام کا حصہ تھے، انہیں بھی روکا گیا۔ عمر عبداللہ کا دروازہ پھلانگنے کا عمل سوشل میڈیا پر وائرل ہوا، لیکن اس سے بڑھ کر اس نے بھارتی ریاست کی غیر یقینی کیفیت اور جمہوری چہرے کے نقاب کو بے نقاب کر دیا۔یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا**، بلکہ اس بات کی علامت ہے کہ بھارت کس طرح مقبوضہ کشمیر میں یادداشت، اختلاف اور مزاحمت سے خوفزدہ ہے۔ شہداء کا قبرستان صرف قبریں نہیں بلکہ کشمیری شناخت اور تاریخ کی علامت ہے۔ اس پر پابندی لگانا بھارت کی کمزوری اور خوف کو ظاہر کرتا ہے۔ایک طرف بھارت خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے، مگر 13 جولائی کے واقعات کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ ایک فعال جمہوریت میں شہریوں کو یاد کرنے، سوگ منانے اور احتجاج کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے۔ مگر کشمیر میں تو قبریں بھی خطرہ سمجھی جاتی ہیں۔مبصرین کے مطابق**، بھارت کے اقدامات محض سیکیورٹی خدشات نہیں بلکہ ایک خوفزدہ ریاست کی عکاسی کرتے ہیں جو عوامی یاد داشت کو بھی برداشت نہیں کر سکتی۔ اگر قبروں پر پھول چڑھانا بھی بغاوت بن جائے، تو بھارت کے ”نارملسی” بیانیے پر سوالات اُٹھنا فطری ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد بھارت نے امن اور ترقی کے دعوے کیے، مگر آزادی کی بجائے لاک ڈاؤن مسلط کیانہ صرف سڑکوں پر بلکہ سوچ، اظہار اور شناخت پر بھی ۔ اب لگتا ہے کہ عمر عبداللہ جیسے رہنما بھی بھارت کیلئے غیر اہم ہو چکے ہیں۔ ان کا بے بسی سے دروازہ پھلانگنا اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارتی سیاست کشمیر میں کس حد تک گر چکی ہے۔ جو کبھی بھارت کے ساتھ کھڑے تھے، آج خود کو اس نظام سے باہر محسوس کر رہے ہیں۔سیاسی طور پر بھی اور علامتی طور پر بھی۔بھارت ہمیشہ مقامی اتحادیوں کو کشمیر میں اپنی جمہوریت کا ثبوت بناتا رہا۔ عمر عبداللہ جیسے رہنما”منتخب نمائندے” کہلائے۔یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ اب مرکزی دھارے کی آوازوں کو بھی خاموش کیا جا رہا ہے۔ صحافیوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے، کارکن لاپتہ ہو رہے ہیں، اور سول سوسائٹی نگرانی میں ہے۔ اب تو قبرستان جانا بھی پولیس کی رکاوٹیں توڑ کر ممکن ہے۔ یہ جمہوریت نہیں بلکہ قانون کی آڑ میں قبضہ ہے۔13 جولائی کے اقدامات پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ ممتا بینرجی اور کمیونسٹ پارٹی نے عمر عبداللہ کی نظربندی اور بدسلوکی کی شدید مذمت کی ہے۔ ممتا بینرجی نے اسے ”ناقابل قبول، شرمناک اور افسوسناک” قرار دیا اور کہا:**”شہداء کے قبرستان جانے میں کیا غلط ہے؟ یہ ایک شہری کا جمہوری حق ہے جو اس اقدام سے چھینا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے