کالم

مقبوضہ کشمیر، جماعت اسلامی کے اثاثوں کی ضبطگی

riaz chu

مقبوضہ جموں و کشمیر میں نئی دہلی کے زیر کنٹرول سٹیٹ انویسٹی گیشن ایجنسی (ایس آئی اے) نے گاندربل، کپواڑہ، بانڈی پورہ اور بارہمولہ اضلاع میں جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی مزیدجائیدادوں کو ضبط کر لیا ہے۔ پورے مقبوضہ کشمیر میںجماعت اسلامی کی 188 جائیدادوں کی نشاندہی کی گئی ہے جنہیں ضبط کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں نریندر مودی اور امیت شاہ کی قیادت میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہندوتوا حکومت سیاسی اور سماجی کارکنوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے علاقے میں جماعت اسلامی اور دیگر فلاحی تنظیموں سے وابستہ تقریبا 100مزید تعلیمی اداروں اور جائیدادوں کو سیل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے ۔بھارتی وزارت داخلہ اور اس کی ریاستی تحقیقاتی ایجنسی ایس آئی اے نے آر ایس ایس-بی جے پی کے رہنما آر آر سوائن کی سربراہی میں جماعت اسلامی جموں و کشمیر سمیت آزادی پسند جماعتوں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کے بینک اکاﺅنٹس منجمد کرنے کے بعدایس آئی اے نے زمینوں، اسکولوں، مکانات اور دفاترسمیت اس کی جائیدادوں کو ضبط کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس نے پہلے ہی اسلام آباد، شوپیاں، پلوامہ اور جنوبی کشمیر کے کئی دیگر اضلاع میں سو کروڑروپے سے زائد مالیت کے جماعت اسلامی کے اثاثے ضبط کرلئے ہیں۔ جموں و کشمیر میں جماعت کی مزید 100 جائیدادیں ضبط کرنے کی بھارتی وزارت داخلہ کی فہرست میں شامل کی گئی ہیں۔ اس کے لئے نوٹیفکیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد جائیدادوں کو سیل کردیا جائے گا۔عہدیدارنے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ نوٹیفکیشن کی کارروائی مکمل ہونے کے بعد ایسی تمام جائیدادوں کو مرحلہ وار سیل کر دیا جائے گا۔نریندر مودی اور امیت شاہ کی زیر قیادت ہندوتوا حکومت حق خود ارادیت کے مطالبے کی حمایت کرنے پرجماعت اسلامی کو نشانہ بنارہی ہے۔2019 میں مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک آزادی کی حمایت کرنے پر بھارت نے جماعت اسلامی کشمیر پر پابندی لگا دی تھی۔بھارت کے مرکزی محکمہ داخلہ کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ جماعت اسلامی کے عسکریت پسندوں سے قریبی روابط ہیں اور وہ ان کی مکمل حمایت بھی کرتے ہیں۔جماعت اسلامی پر پابندی لگانے کے اقدام کی وادی کشمیر کی تقریباً تمام سیاسی، مذہبی و سماجی جماعتوں نے مذمت کی تھی۔ جماعت نے پانچ سالہ پابندی کے خلاف عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ اس سے قبل مقبوضہ کشمیر میں محاصرے اور تلاشی کارروائیوں میں جماعت اسلامی کے پانچ رہنماو¿ں سمیت مقبوضہ جموں وکشمیر کے7 سرکردہ علمائے کرام کوگرفتار کر لیا گیا ہے۔ گرفتار ہونے والوں میں جمعیت اہلحدیث کے رہنما مولانا مشتاق احمد ویری، عبدالرشید داودی، جماعت اسلامی کے رہنما عبدالمجید دار المدنی، فہیم رمضان اور غازی معین الدین بھی شامل ہیں۔جماعت اسلامی نے دہشت گردی کی فنڈنگ سے متعلق بھارتی ایجنسیوں کے الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی کا، ’نہ تو کبھی کسی عسکریت پسند گروہ کے ساتھ کوئی تعلق رہا ہے اور نہ ہی وہ تحریکی سیاست پر یقین رکھتی ہے‘۔بھارتی ایجنسیوں کا یہ بھی الزام ہے کہ جماعت اسلامی وادی کشمیر میں بھارت مخالف مظاہروں اور بھارت مخالف سیاسی سرگرمیوں میں ملوث رہی ہے۔ اسی لیے گزشتہ ہفتے این آئی اے نے جموں و کشمیر میں واقع جماعت اسلامی سے وابستہ بہت سے کارکنان کے گھروں پر چھاپے بھی مارے تھے۔تنظیم کے رہنماو¿ں کا کہنا ہے کہ یہ بس ہراساں کرنے اور دھونس جتانے کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ تنظیم اس وقت سرگرم تو ہے نہیں۔ انہیں کوئی ثبوت دینا چاہیے کہ آخر جماعت نے کس کو فنڈنگ کی ہے اور کہاں دیا ہے؟ جماعت 1997 سے یہ مسلسل کہتی رہی ہے کہ ہمارا عسکریت پسندی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ جماعت اسلامی کشمیر میں سماجی خدمات کا کام کرتی ہے اور زیادہ سے زیادہ مذہبی تبلیغ کے لیے جلسے جلوس کرتی تھی جو پابندی کے سبب سب بند پڑے ہیں۔کشمیر میں اس وقت زبردست خوف اور دہشت ہے۔ ہر ایک کو کم سے کم بنیادی آزادی کے حقوق ملنے چاہیں۔ ہر شخص کو قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے آزادانہ طور پر کام کرنے کی تو اجازت ہونی چاہیے۔ ہم کسی غیر قانونی کام کی بات نہیں کرتے ہیں۔جماعت نے پورے معاشرے کی فلاح و بہود کے مقصد سے اپنے مشن، پروگراموں اور پالیسیوں کو آگے بڑھانے کے لیے زبانی اور تحریری طور پر ہمیشہ تبلیغی طریقے استعمال کیے ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود بغیر کسی معقول وجہ کے اس پر پابندیاں عائد کی گئیں اور کئی بار اسے ’غیر قانونی ایسوسی ایشن‘ قرار دیا گیا۔ اس پر ایسے الزامات لگائے گئے کہ جن کی کوئی بنیاد نہیں تھی بلکہ یہ تمام حقائق کے برعکس تھے۔کشمیری عوام خوش قسمت ہیں کہ انہیں پاکستان کی حمایت حاصل ہے۔ انہیں ایک ایٹمی طاقت کا سہارا ہے اور پاکستان کے ساتھ نے کشمیریوں کو حیدرآباد دکن اور جونا گڑھ کی طرح بے نام نہیں ہونے دیا۔ پاکستان نے ان کی خاطر بھارت سے دشمنی مول لی، آزاد کشمیر کو بچائے رکھا اور 1965ءاور 1971ءکی جنگوں میں کشمیریوں کی خاطر جسم و جاں کے ساتھ ساتھ اپنے ملک کے ایک حصے کی قربانی بھی دی۔کشمیری جانتے ہیںکہ سفارتی محاذ پر تمام تر جدوجہد پاکستان نے کی ہے اور کر رہا ہے۔عمران خان نے دنیا کے ہر محاذ پر کشمیریوں کے حقوق کی بات کی ہے۔ 2019 کے بھارتی اقدام کے بعد اقوام متحدہ میں بھی کشمیریوں کا مقدمہ لڑا اور بھارت کو منہ کی کھانی پڑی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri