کالم

ملک میں جعلی ادویات کی بھر مار

ajaz-ahmed

ہر پاکستانی صحت پر اپنے جیب سے 80 فی صد اور تعلیم پر 70 فی صد خرچ کرتے ہیں۔ صحت کا شعبہ ایک ایسا شعبہ ہے جو کسی بھی تا جر اور بز نس مین کے لئے انتہائی اہم اور پرُ کشش ہے ۔ اگر صحت کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنی ہے تو جائز طریقے سے اس میں سرمایہ کاری کرنا نہ صرف فائدے کاکام ہے بلکہ سرمایہ کاری عین عبادت ہے۔مگر مجھے انتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے بزنس مین نہ اس شعبے کو عبادت سمجھتے ہیں اور نہ دین کا حصہ، بلکہ انکی کوشش ہو تی ہے کہ اس شعبے سے زیادہ سے زیادہ کمایا جا سکے ، خوا وہ قانونی طریقے سے ہو یا غیر قانونی طریقے سے ۔ اگر ہم تجزیہ کریں تو دنیا میں ادویا ت بنانے کی صنعت میںسالانہ1.4 ٹریلین یعنی 1400 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہوتی ہے ۔ ما ہرین کا خیال ہے کہ اس میں 400 ارب ڈالر کی دوائیاں دو نمبر یا جعلی بکتی ہے ۔ صحت کے عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ دنیا میں 35 سے لیکر 40 فی صد ممالک میں ڈرگ ریگولیٹری ادارے نہیں۔سی این این کے مطابق پاکستان کے ما رکیٹوں میں جعلی گو لیاں، کیپسول، اور تمام قسم کے بیماریوں کے سیرپ ملتے ہیں۔سی این این نے ایک سروے کیا اور اُن لوگوں سئے ملاقاتیں کیں جو جعلی ادویات کی تیاری اور بنا نے میں ملوث تھے۔ سی این این کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کا کہنا تھاکہ ہم اپنے ورکشاپوں میں ودائیوں سے متعلق ہر چیز بنا سکتے ہیں۔صحت کے عالمی ادارے کے مطابق جعلی ادویات ہر سال دس لاکھ اور بعض ذرائع کے مطابق 20لاکھ لوگوں کی جان لے لیتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے لاہورکے ایک ہسپتال میں جعلی ادویات کے استعمال سے 120 مریض لقُمہ اجل بن گئے تھے۔ پنجاب کے ایک سابق گو رنر چودھری الطاف کی بیماری کی سیریس کنڈیشن 2 نمبر ادویات سے ہوئی۔ جس ملک میں گو رنر کو صحیح دوائی نہیں ملتی تو اس ملک کے ادویات کا کیا کہنا۔ پر ویز مشرف، زرداری ، نواز شریف ،مولانا فضل ارحمان جیسے تمام سیاست دانوں کو ملکی طبی اداروں پر کوئی اعتماد نہیں اور وہ بیرون ممالک علاج کے لئے جاتے ہیں۔سابق وزیر داخلہ رحمان ملک مرحوم نے قومی اسمبلی کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان میں 50 فی صد ادویات جعلی اور سب سٹینڈرڈ ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں بچوں میں 72 ہزار سے لیکر 2 لاکھ تک نمونیا سے اموات اُن اینٹی بائیوٹک سے ہوئی جسکی استعداد کار کم تھی۔مزید کہا گیا ہے کہ ا فریقہ میں ایک لاکھ 18 ہزار اموات ملیریا کی دو نمبر دوائی سے ہوئی۔ اگر ایک طرف ادویات دو نمبر اور جعلی ہیں تو دوسری طر ف جو انسپکٹر ادویات چیک نہیں کر تے ۔ انٹیلی جسنس بیورو کے ایک رپو رٹ کے مطابق پنجاب میں 131 ڈرگ انسپکٹروں میں 64 جعلی دوائیوں کے بزنس میں ملوث تھے۔ اور اسی طرح مسئلہ خیبر پختون خوا، سندھ اور بلو چستان میں بھی ہے۔پنجاب کے مختلف ہسپتا لو ں سے ادویات کے نمونے لئے گئے اور لیبا رٹر ی بھیجے گئے ان رپورٹ کے مطابق ان میں مختلف امراض اور سرجری سے متعلقہ 80 فی صد ادویات جعلی تھے ۔ سندھ سے سابق سینیٹر شاہی سید نے کہا تھا کہ ملک میں دس ہزار کا رخانے جعلی ادویات تیار کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان میں دونمبر ودائیاں ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ڈسٹری بیوٹر کو دئے جاتے اور وہی یہ دوائیاں پر چون فروش کو دے کر اسمیں بُہت پیسے کمالیتے ہیں۔ پشاور کے کا رخانوں، نمک منڈی ، لاہور اور ملک کے دوسرے چھوٹے بڑے شہروں میں دھڑا دھڑ جعلی دوائیاں ملک اور صوبے کے مختلف شہروں میں سپلائی کی جاتی ہے ۔ جو لوگ دونمبر یا جعلی دوائیاں کھاتے ہیں اس سے انکے جسم میں ایسے مز احمت پیدا ہوتی ہے جسکے بعد ان پر کسی دوائی کا اثر نہیں ہوتا ہے۔ کئی ڈاکٹر حضرات دواساز کمپنیوں اپنا پروڈکٹ لانچ کرتے ہیں اور پھر وہ ڈاکٹر صُبح سے لیکر شام تک وہی پروڈکٹ لکھ کر ڈھیروں سارے پیسے ڈاکٹر ، ڈسٹری بیوٹر اور پر چون فروش کماتے ہیں۔ہسپتالوں کے باہر بُہت سارے ادویات ہسپتال والی دی جاتی ہے۔ جس ملک میں بچوں کے ویکسین چیک کرنے کے لئے اور دوائی چیک کرنے کا موثر نظام نہ ہو اس ملک کا کیا پو چھا جائے۔اکثر کمیسٹ بھی کمپنیوں کے دسٹری بیوٹر سے ایسے دوائیاں لیتے ہیں جن میں انکو زیادہ منا فع ہوتا ہے۔ہمارے باہر سے جو بھی بھائی آتے ہیں اُنکا کہنا ہوتا ہے کہ یہاں کی دوائیوں میں اثر نہیں ۔کیونکہ جو دوائیاں وہ وہاں استعمال کرتے ہیں اُنکا کوالٹی کنٹرول اچھا ہوتا ہے۔ میری نا قص خیال میں ہر کمپنی کی ودائی واٹس ایپ، مسینجرز اور موبائیل میسجز کے ذریعے چیک کرنے کا نظام ہونا چاہئے تاکہ دو نمبر اور جعلی ادویات کا تدارک کیا جائے۔حکومت کو چاہئے کہ ادویات میں ملاوٹ اور دونمبر دوائی کی سزا موت ہونی چاہئے۔ کیونکہ یہ انسانوں کی جانوں سے کھیلنا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri