کالم

مولانا طارق جمیل ۔۔۔!

اللہ رب العزت قرآن مجید فرقان حمید میں فرماتے ہیں کہ” آپ کہہ دیجیے اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے، جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تُو جسے چاہے عزت دے اور جسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں ،بےشک تُو ہر چیز پر قادر ہے۔” وطن عزیز میں لاکھوں مبلغ اور مقرر ہیں ، ہر ایک کا اپنا اپنا مقام اور درجہ ہے ۔ مولانا طارق جمیل پر اللہ رب العزت کا خصوصی فضل وکرم ہے، ان کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میںہے اور لاکھوں افراد کو آپ سے محبت اور عقیدت ہے۔آپ کی زندگی بہت دلچسپ اور سبق آموز ہے۔خاکسار کوتلمبہ جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں مولانا طارق جمیل سے شرف ملاقات نصیب ہوئی۔ اللہ رب العزت نے مولانا طارق جمیل کو عزت، شہرت اور دولت سے نوازا ہے۔ جس کو اللہ تعالیٰ عزت سے نوازے، ان کی صحبت کے لمحات بہت قیمتی اورنایاب ہوتے ہیں۔ مولانا طارق جمیل یکم اکتوبر1953ءکو تلمبہ میں ایک زمین دار "سہو” فیملی میں پیدا ہوئے۔مولانا طارق جمیل کے والد ان کو ڈاکٹر بنانے کی خواہش لیے ہوئے تھے، اس لئے ان کو ایم بی بی ایس کرانے کے لئے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور میں داخل کروایا۔ مولانا طارق جمیل کو زمانہ طالب عملی میں موسیقی سے لگاﺅ تھا، ان کی آواز اچھی تھی، اس لئے آپ احباب کی محافل میں گانے وغیرہ گایا کرتے تھے۔آپ ایم بی بی ایس کے دوران ہاسٹل میں مقیم تھے، ایک دوست آپ کو تبلیغی اجتماع میں ساتھ لے جاناچاہتا تھا، آپ نے جانے سے انکار کیا لیکن دوست آپ کو ہر صورت میں لے جانا چاہتا تھا ،آخر آپ اجتماع میں جانے کے لئے آمادہ ہوئے۔وہاں آپ کے دل کی دنیا تبدیل ہوگئی، آپ کے مقدر کا ستارہ چمکا، آپ کی زیست بدل گئی، آپ کا رویش بدل گیا۔ آپ نے تین دن کے لئے تبلیغ میں جانے کا فیصلہ کیا،پھر آپ نے اسی دوران فیصلہ تبدیل کیا کہ مجھے تین دن نہیں بلکہ چار مہینے کے لئے تبلیغ میں جانا چاہیے۔ جب آپ چار ماہ تبلیغی سفر کے بعد واپس آرہے تھے تو پشاور کے ایک جوان سے ملاقات ہوئی،انھوں نے آپ کو دینی علوم سیکھنے کا مشورہ دیا،یہ بات آپ کو پسند آئی، آپ نے ایم بی بی ایس کی تعلیم چھوڑ دی اور آپ نے دینی تعلیم کے لئے ایک مدرسے میں داخلہ لیا، جہاںآپ نے مختلف علوم سیکھے۔مولانا طارق جمیل کے انداز بیان کو لوگ بے حد پسند کرتے ہیں۔ آپ تبلیغی جماعت کا حصہ رہے اور اس تبلیغی مشن میں چھ براعظموں کا سفرکیا۔مولانا طارق جمیل کے والد آل انڈیا مسلم لیگ ملتان کے صدر تھے، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے ساتھ جلسوں سے خطاب کیا، وہ ادیب تھے، بولنے کے فن سے واقف تھے لیکن پرویزی ہوگئے تھے، پھر وہ حضرت لاہوری ؒ کی مختصر صحبت کے اثر سے باطل عقیدت سے تائب ہوگئے اور صحیح مسلمان بن گئے۔ مولانا طارق جمیل نے سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو شہید کے علاوہ سب حکمرانوں سے ملاقات کی۔سابق وزیراعظم عمران خان سے متعدد بار ملے ہیں ۔ مولانا طارق جمیل سابق وزیراعظم عمران خان کی اس بات سے متاثر تھے کہ انھوں نے آپ کو بتایا کہ مولانا! میں چاہتا ہوں کہ میرے نوجوان اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جڑ جائیں اور ان کی زندگی کو اپنائیں، یہ بات اس سے پہلے مجھے کسی حکمران نے نہیں کہی۔مولانا طارق جمیل نے کپڑوں کا ایک برینڈ "ایم ٹی جے "شروع کیا ہے، اس کے بارے میں اُن کاکہنا ہے کہ ان کے اس کاروبار کا بنیادی مقصد مدارس کو چلانے کےلئے رقم مہیا کرنا ہے ۔ برینڈ کا مقصد پیسا کمانا نہیں بلکہ مدارس چلانا ہے۔مولانا طارق جمیل نے ملاقات کے دوران مجھے نصیحت کی کہ©” آپ کی تحریر سے کسی کی دل آزاری نہ ہو۔”میں پہلے بھی یہی کوشش کرتا رہا ہوں کہ میری تحریر، گفتار اور اعمال سے کسی کی دل آزاری نہ ہو کیونکہ کفر کے بعد سب بڑا گناہ "دل آزاری ” ہے۔اب اس معاملے میں مزید احتیاط کروں گا،انشاءاللہ العزیز۔ میں نے مولانا طارق جمیل سے گذارش کی کہ آپ کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے، آپ ان سے ملاقات کیا کریں،اس سے ان کے دل خوش ہونگے تو انھوں نے بتایا کہ میں کوشش کرتا ہوں کہ لوگوں سے ملوں ۔ مولانا طارق جمیل اپنے جوان سالہ بیٹے کی وفات پر غم زدہ ہیں، ان کے بقول ان کو سر درد سمیت مختلف مسائل کا سامنا ہے،یقینا اس غم سے انبیاءکرام اور اولیاءکرام بھی متاثر ہوئے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹے یوسف علیہ السلام کی جدائی کے غم میں بینائی سے محروم ہوگئے تھے، اپنے بچوں کی وفات پر فخر ِکائنات سرکارِ مدینہ حضور کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں پرنم ہوئیں۔اللہ پاک مولانا طارق جمیل کو صبر جمیل عطاءفرمائے اور اللہ پاک سب مسلمانوں کوغم و الم سے محفوظ و مامون رکھے ، آمین ۔ قارئین کرام! مولانا طارق جمیل نے دینی علوم کےلئے ایم بی بی ایس کو قربان کیا ، اللہ پاک نے ان کو شہرت کی بلندیوں تک پہنچایا۔ایم بی بی ایس ، سی ایس ایس وغیرہ کے محدود مدت کے لئے فوائد ہوتے ہیں لیکن دینی علوم کا فائدہ ہمیشہ کےلئے ہوتا ہے۔آپ ایم بی بی ایس اور سی ایس ایس وغیرہ سے بھی ہمیشہ کےلئے فوائد حاصل کرسکتے ہیں۔ آپ ڈاکٹر بن کر مریضوں کےلئے مسیحا کا روپ داریں اور بیورکریٹ بن کر عوام کا خادم بن جائیں تو پھر آپ یقینا اس فانی دنیا میں بھی کامیاب ہیں اور آخرت میں بھی کامران ہونگے ۔ ڈاکٹرز اور بیورکریٹس کو اللہ پاک کاشکر ادا کرنے کے بعد لوگوں کے ساتھ بھلائی کرنی چاہیے کیونکہ دولت اور ذاتی مفادات انتہائی مختصر عرصے کےلئے ہوتے ہیں جبکہ انسانیت سے محبت کے فوائد ہمیشہ کےلئے ہوتے ہیں۔یہ صرف ڈاکٹرز اور بیورکریٹس کےلئے نہیں بلکہ سب کےلئے اس کالم کے توسط سے گزارش ہے کہ آپ رنگ و نسل ، مذہب ، مسلک، زبان اور خطے کے فرق کو بالائے طارق رکھ کر انسانوں کا احترام کریں ا ور انسانیت سے محبت کریں ۔
٭٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri