کالم

نعرے،وعدے اوردعوے

ملک مےں آمرےت بھی مسلط رہی ،نام نہاد جمہورےت بھی ،بحرانوں نے جنم لےا ، تحرےکےں بھی چلےں لےکن ان مقاصد کی تکمےل نہ ہو سکی جس کے پےچھے طوےل و صبر آزما جدوجہد ، ہزاروں شہداءکی قربانی اور لرزہ خےز ہجرتوں کی داستان موجود ہے ۔ 74سال بعد بھی ےہاں نہ آئےن کی عملداری ہے ،نہ قانون کی بالا دستی ،نہ گڈ گورننس کا نعرہ حقےقت کا روپ دھار سکا اور نہ ہی ملکی نظام ہی درست سمت پر گامزن ہو سکا ۔ اےسے مےں کوئی پرسان حال بھی نظر نہےں آتا ۔ جمہوری دنےا مےں اےک نئی قےادت ابھار کر اس طرح سامنے لائی جاتی ہے جےسے طغےانی کے بعد بنجر زمےن زرخےز بنتی دکھائی دےتی ہو ۔ سرمائے کے اس معاشرے مےں رےاستی سرپرستی مےں شخصےات کے ابھار کا مقصد سماجی ےا معاشی تبدےلےاں لانا نہےں بلکہ اس کے ساتھ عوام کی جذباتی وابستگی منسلک کر کے اےسی خواہشات کو پروان چڑھانا ہوتا ہے جس کی مرکزےت واحد تراشےدہ شخصےت رہ جاتی ہے ۔ماضی مےں ملک کے سےاسی افق پر اےسی شخصےات کے بت تراشنے کے ساتھ انہےں قائد اعظم ؒ سے تشبےہ دی گئی اور صنعت کاری کے حوالے سے ان شخصےات سے انقلابی اقدامات کے صنعتی انقلاب لا کر خوشحال پاکستان کی امےدےں باندھی گئےں ۔شخصےات کو ابھارنے کا عمل آج بھی جاری ہے اور ان کے ذرےعے عوام سے وعدے کر کے سبز باغ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر ہو سکتا ہے کہ وہ تنہا شخصےت مثبت تبدےلےاں لانے کی خواہش مند اور مخلص ہو مگر اس کے ارد گرد کا انتظامی ،رےاستی اور سےاسی ڈھانچہ ذاتی خواہشات کی فصےلوں مےں مقےد اس شخص کی تمام حکمت عملےوں کو اپنے مفادات کے منافی سمجھتے ہوئے ناکام بنانے کے درپے ہو جائےں ۔وطن عزےز مےں اےسے کئی کارکن قائد بنا کر اچھالے گئے جو عوام کی حماےت سے اےک ولولہ اور جوش کے ساتھ ابھرے لےکن وقت کے ساتھ قدم ملا کر نہےں چل سکے اور منزل سے دور ہو گئے ۔عمران خان بھی انہی مےں سے اےک تھے جن کا دامن اجلا تھا اور کرکٹ کی شہرت کے باعث سےاسی مےدان مےں اتارے گئے ۔ عمران خان اپنی تقرےروں مےں لوگوں کو بہتر حالات کار کےلئے خوشخبرےاں سناتے ہوئے اپنے اصلاحاتی اےجنڈے کا اعلان کرتے رہے لےکن ان کی تقرےروں مےں کوئی ٹھوس بنےادوں پر منصوبہ بندی کا خاکہ نظر نہےں آےا جس کی مدد سے واقعی ملک مےں سماجی اور معاشی تبدےلےوں کے ذرےعہ عوام کے مسائل مےں کمی واقع ہوتی ۔ اس طرح کے وعدے تمام سابقہ حکمران کرتے رہے ۔ان کی حکمت عملےوں سے صرف امےر طبقات ہی فےض ےاب ہو کر امےر تر ہوتے رہے ۔تارےخ کے صفحات اس حقےقت کی نشندہی بھی کرتے ہےں کہ جےسے ےہ ملک صرف اشرافےہ کے تحفظ کی خاطر ہی قائم کےا گےا تھا جو کہ اس کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ سے رےاست کے تمام اداروں پر بالا دستی رکھتے ہےں ۔ان کی موجودگی مےں پاکستان کوملائیشےاےا اےشےاءکے دےگر ترقی ےافتہ ممالک کی طرح خوشحال نہےں بناےا جا سکتا ہے کےونکہ ان ممالک کے وسائل کو حکمران طبقات کے تحفظ کےلئے استعمال نہےں کےا جاتا اور نہ ان ممالک مےں جاگےردارانہ نظام موجود ہے جو کہ عوام کے حق مےں ہوں ۔حکومت کے اجزائے ترکےبی مےں اےسے عناصر شامل ہوتے ہےں جو کہ پس پردہ قوتوں کے آلہ کار ہوتے ہےں ۔ےہی وجہ ہے کہ عوام کو وعدوں کے سوا کچھ حاصل نہےں ہوتا اور عام آدمی کی زندگی مےں بہتری کی بجائے ابتری کے آثار نماےاں ہوتے ہےں ۔عمران خان کے اقتدار مےں آنے سے قبل لگائے گئے نعرے اور وعدے اےفا نہ ہو سکے ،نہ دنوں مےں معےشت ٹھےک ہوئی ،نہ بےرون ملک اربوں روپے واپس آئے ،نہ مالےاتی اداروں کا قرض اتر سکا ،نہ پٹرولےم کی قےمتےں آدھی ہوئےں بلکہ ان کے دور مےں انتقام اور نفرت کی سےاست نے جنم لےا ۔ انہوں نے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کےلئے کسی نادےدہ قوت کے مشورے پر صوبہ پنجاب کی وزارت اعلیٰ کےلئے سردار عثمان بزدار کا انتخاب کر لےا ۔ نتےجہ ےہ نکلا کہ بزدار صاحب کی سفارش کرنے والوں نے وزےر اعلیٰ ہاﺅس مےں بےٹھ کر تقرر و تبادلوں مےں کروڑوں کی دہاڑےاں لگانی شروع کر دےں ۔ عمران خان کے بےانےے کے مطابق وہ اس معاشرے مےں حق کی تنہا علامت اور سےاست مےں دےانت و امانت کی واحد آواز ہےں ۔ان کے نزدےک ان کے باطل ہونے کےلئے ےہ شہادت کافی ہے کہ وہ ان کے ساتھ نہےں کھڑا ۔تحرےک انصاف کے لوگ ےہ سمجھتے ہیںکہ وہ اسی کے ساتھ اتحاد کر سکتے ہےں جو عمران خان کی امامت کے جھنڈے تلے آ جائے قطع نظر اس کے کہ وہ کرپٹ ہےں ےا دےانتدار ۔دوسری طرف وہ جسے سب سے بڑا ڈاکو کہتے تھے اسے ملک کے سب سے بڑے صوبے کی وزارت دیدی ۔ان کی پارٹی کا ہر ورکر اس خےال خام مےں اسےر ہے کہ جو موقف ان کا قائد اختےار کئے ہوئے ہے وہ مدلل،جامع اور وزنی ہے اور مخالف فرےق کی آواز لفظوں کی شعبدہ بازی سے زےادہ کچھ نہےں ۔عمران خان کی شخصےت کے سامنے نہ پالےمنٹ اہم ہے ،فوج اور نہ عدلےہ ۔مطلب ےہ کہ اےک شخص اتنا اہم ہے کہ وہ جو بھی کہے وہ سچ ہے ۔ےہی وجہ ہے کہ ان کی پارٹی کا جو عہدے دار بھی حکومتی اےوانوں سے مستعفی ہوا اس نے ےہ نہےں کہا کہ مےں نے اتنے برس اس پارٹی مےں گزارے بلکہ اس نے ےہی کہا کہ مےں نے اتنے برس عمران خان کے ساتھ گزارے ۔جب سپےکر استعفیٰ دے کر جارہے تھے وہ بھی ےہی کہہ رہے تھے ۔کہتے ہےں کہ ان کے مشےروں اور آئےنی ماہرےن نے ڈبوےا ۔ تارےخ شاہد ہے کہ مشےر تو ہمےشہ سے وہی مشورہ دےتے ہےں جو مشورہ مانگنے والوں کو پسند ہوں ۔ وہ اگر چاہتے تو ان مشوروں کو ٹھکرا سکتے تھے کوئی مجبوری نہےں تھی کہ ضرور مانےں ۔عمران خان صاحب کو تو اپنے علم کے بارے مےں ہی اتنی خوش فہمی تھی کہ انہےں دنےا کے ہر معاملے مےں سب سے بڑھ کر جانکاری حاصل ہے ۔اےسے بندے کو کوئی مشےر کےا سمجھا سکتا ہے اگر کوئی اےسی بے ادبی کا مرتکب ہو جائے تو وہ ےقےنا فارغ کر دےا جاتا ہے ۔ان سے مستقبل مےں ملک و قوم کی بہتری کی کےا توقع کی جا سکتی ہے ؟ صرف دعاہی کی جا سکتی ہے کہ جس بڑی سر گرمی سے حزب اختلاف کے تمام دھڑے متحد ہوئے ، اسی ذوق و شوق سے اکٹھے بھی رہےں ۔اےک دوسرے سے بے وفائی کے مرتکب نہ ہوں اور عہدوں اور ذاتی مفاد کے لالچ مےں نا امےدی انہےں پھر اڑان بھرنے پر مجبور نہ کرے۔عمران خان دراصل کسی صورت مےں بھی اقتدار کی کرسی چھوڑنے کو تےار ہی نہےں تھے ۔اےک آئےنی عمل مکمل ہونے پر پارلےمنٹ نے انہےں حکومت سے چلتا کر دےا ۔ تحرےک انصاف نے تحرےک عدم اعتماد کی ووٹنگ کو روکنے کےلئے جس طرح غےر آئےنی ےا غےر جمہوری اقدامات کر کے آئےن کو بار بار پامال کےا اس کی مثال پاکستان کی سےاسی تارےخ مےں نہےں ملتی ۔سب سے برا المےہ تو ےہ ہے کہ وہ تا حال اس غےر آئےنی اقدام پر شرمندہ ہونے کی بجائے الٹا رےاستی اداروں پر غےر سنجےدہ تنقےد کر رہے ہےں ۔خان صاحب ”سازشی کےبل“ کی اصلےت سے بخوبی آگاہ ہےں ۔وہ کمال مہارت سے ساڑھے تےن سالہ حکمرانی کا دفتر عمل پےش کرنے کی بجائے حکمرانوں سے وضاحت طلب کر رہے ہےں کہ مےرے خلاف سازش کےوں کی گئی ؟ عدم اعتماد کی تحرےک تو ان کےلئے اےک نعمت ثابت ہوئی جس نے ان کی غےر مقبولےت کی بڑھتی لہر کو روک لےا اور ان کی جو مقبولےت اقتدار سنبھالنے سے قبل تھی اسے واپس لوٹا دےا ۔ راقم کی رائے مےں رائے عامہ کبھی پلک جھپکتے مےں نفرت سے محبت اور مخالفت تائےد مےں نہےں بدلتی ۔ان کی ناقابل رشک گورننس اور مہنگائی کے سبب ان کے اپنے کارکن بھی ماےوس تھے ۔انہوں نے بھی تحرےک انصاف کا دفاع کرنے کی بجائے خاموشی اپنا لی تھی ۔عمران خان اپنی کارکردگی کی بنےاد پر انتخابی مہم نہےں چلا سکتے تھے ۔تحرےک عدم اعتماد پر ان کے سازشی بےانےے نے ان کے کارکنوں کے خاموشی کے حصار کو توڑدےا اور پھر وہ پردہ سکرےن پر نمودار ہو کر ان کے دفاع مےں نظر آنے لگے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے