اداریہ کالم

نگران وزیراعظم کاخطاب

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے لاہور میں کاروبار سہولت مرکز کا دورہ کیا، اس موقع پر بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کاروبار کے فروغ کے لیے پنجاب حکومت کے اقدامات قابل تعریف ہیں، وفاقی حکومت کاروبار کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے گی، انوار الحق کاکڑ نے نگران وزیراعلیٰ پنجاب کی کارکردگی کو بھی سراہا ۔اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ امید ہے ہماری آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے گی، اصل کام اسی طرح بہتر ہوتے ہیں، قرض لینا کوئی بری بات نہیں مگر اس کا صحیح استعمال ہونا چاہیے، دنیا میں سب سے زیادہ قرض لینے والا ملک امریکا ہے۔ انہوں نے اس ماید کا بھی اظہار کہ آئی ایم ایف سے جلد قسط ملنے کی امید ہے،آئی ایم ایف سے تب ہی جان چھوٹے گی جب ہم زیادہ سے زیادہ ٹیکس اکٹھا کرینگے۔ادھر نگران وزیراعظم نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ٹریکنگ کے نظام کو فول پروف بنانے اور انٹیگریٹڈ ٹریڈ مینجمنٹ سسٹم کیلئے فوری حکمت عملی وضع کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی مشکلات کی بڑی وجہ اسمگلنگ ہے ۔بعدازاں میڈیا کانفرنس سے بات چیت میں مختلف سوالوں جواب بھی دئے جبکہ بلوچ مظاہرین کے حوالے سے کئے گئے سوال پر نگراں وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے تلخ لہجے میں کہا ہے کہ بلوچ مظاہرین کو احتجاج کا حق ہے لیکن ان سے جڑے دہشت گردوں کو نہیں مانتے، حمایتیوں سے درخواست ہے کہ وہ بی ایل اے، بی ایل ایف کیمپ جوائن کرلیں،تاکہ انکا بھی واضح ہوجائے، کیاہم ان دہشت گردوں کوقتل کرنے کا لائسنس دے دیں۔ بعض لوگوں کی جانب سے بلوچ مظاہرین پرواٹر کینن کے استعمال کو غز ہ فلسطین سے بھی جوڑا گیا،میں ان سے سوال پوچھتا ہوں کہ کیا یہ پاکستان کواسرائیلی ریاست سے تعبیرکررہے ہیں؟ ان کو چاہیے حیا کریں اور اپنے گریبانوں میں جھانکیں، ہمارا بلوچ مظاہرین سے کوئی جھگڑا نہیں ہے۔اس میں دو مختلف صورتیں ہیں، مسلح تنظیمیں ہیں، بی ایل اے ، بی ایل ایف، بی آر اے ، یہ مسلح تنظیمیں پاکستان کو توڑنے کی جدوجہد پر یقین کرتی ہیں ، یہ جو سوال کررہے ہیں، یہ وہاں جائیں وہ گولی مار دیں گے، یا میں جاوں یا پھر حمایتی وہاں جائیں یہ مسلح ان کو گولی مار دیں گے،یہ ان دہشت گردوں کی پوزیشن ہے، دہشت گردوں کے خاندانوں کےاحتجاج کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ان کو تسلیم نہیں کرتے۔ بلوچ مظاہرین کااحتجاج کرنا حق ہے کیونکہ وہ دہشت گرد ان کیلئے توپیارے ہیں، ان دہشت گردوں کے اثرات لواحقین پر آئے ہیں، لیکن یہ جو باقی جمع ہیں یہ تو کون؟ میں خوامخواہ ۔یہ اس کیمپ میں بلاوجہ کھڑے ہیں، اگر حمایتی سمجھتے ہیں یہ حق کے داعی ہیں تو میں ان کو کہہ دو کہ یہ 1971نہیں ہے، نہ ہی یہ بنگلا دیش بننے جارہا ہے۔ وہ 9مہینے میں ہوگیا تھا یہ 20سال سے چل رہا ہے، کوئی چیز چھپی نہیں ہے۔نگران وزیراعظم نے اس ایشو کو بڑے سخت لہجے میں لیا اور جواب دیئے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ انتخابات کو پرامن بنائیں گے،احتجاج کی آڑ میں دہشت گردوں کی حمایت قبول نہیں، احتجاج کرنے والے بلوچ خاندانوں کے معاملے کو غلط رنگ دیا جا رہا ہے،ریاست کی لڑائی بلوچوں سے نہیں بلکہ دہشت گرد تنظیموں سے ہے،دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 90 ہزار کے قریب لوگ مارے گئے لیکن اب تک شاید ہی کوئی 9 ملزمان کو سزا دی گئی ہو ،ملک میں کریمینل جسٹس سسٹم میں بہتری کی ضرورت ہے۔وزیراعظم کے ریمارکس فکر انگیز بھی ہیںاور سوالیہ نشان بھی،کیوں کہ بلوچستان ایشو انتہائی حساس ہے،اس پر بات چیت میں احتیاط کو ملحوظ خااطر رکھنا وقت کا تقاضہ ہے،اس میں شبہ نہیں کہ دہشت گردی نے بلوچستان کا امن غارت کر رکھا ہے،یہاں امن دشمن مسلسل حملہ آور رہتے اور ان کی ان کاکرروائیوں کی کسی بھی سطح پر حمایت کی جاسکتی ہے نہ ہی وکالت ،ہر پاکستان اس معاملی یک زبان ہے،لیکن سوال وہی ہے کہ متاثرین کے دکھوں کا ازالہ کس نے کرنا ہے، متاثرین حکومت سے ہی امید لگا کر ہی آواز بلند کرتے ہیں،اس کو سننا حکومت کا کام ہے،یوں طعنے دینے سے بات الجھتی ہے اور امن دشمنوں کو اپنے بیانیہ کو ہوا دینے کا موقع ملتا ہے،اسلام آباد میں آئے بلوچ مظاہرین کی بات حکومت تحمل سے سن کر نمٹ سکتی تھی لیکن اسلام آباد انتظامیہ نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفا داری کا مظاہرہ کر کے خود حکومت لیئے مشکل کھڑی کر دی ہے۔امید ہے کہ نگران حکومت اس ایشو پرسنجیدگی سے غور کرے گی ۔
کشمیری تنظیم پر پابندی،بھارت کا غیر جمہوری سوچ کاعملی مظاہرہ
ہندوستانی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں ایک کشمیری تنظیم پر پابندی عائد کر کے غیر جمہوری سوچ کاعملی مظاہرہ کیا ہے جس کی پاکستان شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ پاکستان نے معروف علیحدگی پسند تنظیم تحریک حریت جموں و کشمیر(ٹی ای ایچ)پر پابندی کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہے کہ یہ کشمیریوں کو محکوم بنانے کی بھارتی کوششوں کا ہی ایک حصہ ہے۔ بھارت نے اتوار کے روز اس حریت پسند کشمیری تنظیم پر انسداد دہشت گردی قانون کے تحت پانچ برس کےلئے پابندی عائد کرنے کا اعلان کیا ۔ اس سے چند روز قبل ہی نئی دہلی نے علیحدگی پسند رہنما مسرت عالم بھٹ کی قیادت والی مسلم لیگ (جموں و کشمیر)پر پابندی عائد کر دی تھی۔ دفتر خارجہ نے پیر کے روزاپنے بیان میں کہا کہ سیاسی جماعتوں پر پابندی کشمیری عوام کو محکوم بنانے، اختلاف رائے کو دبانے اور غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر پر اپنی گرفت کو مزید مستحکم کرنے بھارت کی مسلسل کوششوں کاحصہ ہے۔بیان میں یہ مطالبہ کیا کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر قانونی طور پر کالعدم قرار دی گئی تمام سیاسی جماعتوں سے پابندی ہٹائے اور کشمیری عوام کے بنیادی حقوق اور ان کی آزادیوں کا احترام کرے۔ پاکستان نے بھارت سے تمام سیاسی قیدیوں اور اختلاف رائے رکھنے والوں کو رہا کرنے اور جموں و کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرنےکا بھی مطالبہ بھی کیا۔ یہ بات واضح رہے کہ تحریک حریت تنظیم میں کشمیر کے بہت سے علیحدگی پسند گروپ شامل تھے، جو کشمیر کی آزادی کے لیے مہم چلاتی رہی ہے اور اس گروپ کی قیادت انتقال سے قبل تک علیحدگی پسند رہنما سید علی شاہ گیلانی کرتے رہے تھے۔ان کے انتقال کے بعد اس کی قیادت علیحدگی پسند رہنما مسرت عالم بھٹ نے سنبھالی تھی، جو دس برس سے بھی زیادہ عرصے سے جیل میں قید ہیں۔ کشمیر کی خصوصی دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے مودی حکومت نے اب تک متعدد سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی ہے اور سینکڑوں کارکن جیلوں میں ہیں۔
بجلی کے شارٹ فال میں اضافہ
پاور پلانٹس میں مرمتی کام اور ایندھن کی کمی کے باعث بجلی کا شارٹ فال پیداوار کے مقابلے میں 50فیصد کے قریب پہنچ گیا، ملک میں بجلی کی طلب 14ہزار 500میگاواٹ ہو گئی، مختلف ذرائع سے صرف 7ہزار 800میگاواٹ بجلی پیدا ہو رہی ہے جبکہ شارٹ فال 6700میگاواٹ تک پہنچنے سے مختلف علاقوں میں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 12گھنٹے تک جا پہنچا۔ نجی شعبے کے بجلی گھر صرف 5 ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں، جامشور ، مظفر گڑھ اور گدو کے متعدد پاور پلانٹس مرمت کے باعث بند پڑے ہیں۔دوسری جانب گڈو پاور پلانٹ سسٹم میں واپس نہ آ سکا جس کی وجہ سے بجلی کا بحران شدید ہو گیا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز گڈو تھرمل پاور ہائی ٹرانسمیشن کے سوئچ یارڈ میں فنی خرابی کے باعث آگ لگ گئی تھی جس سے سندھ، پنجاب اور بلوچستان کے کئی شہروں میں بجلی معطل ہو گئی تھی۔ملک میں سرد موسم کے دوران مختلف علاقوں میں لوڈشیڈنگ ہورہی ہے۔ دیہی علاقوں میں تو آٹھ سے دس گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہورہی ہے اورشہروں میں بھی بجلی کی بندش جاری ہے ۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ نے شہریوں کو پریشان کر رکھا ہے۔نئے سال کاآغاز گھنی دھنداورشدید سردی کے ساتھ شروع ہوا۔وسطی پنجاب میں گھنی دھنداور ہڈیوں کو ٹھنڈا کرنے والی سردی پڑرہی ہے۔ایک طرف شدید سردی اوردوسری طرف بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ نے لوگوں کی پریشانیوںمیں مزیداضافہ کردیاہے۔ لوڈشیڈنگ سے عام آدمی متاثر ہوتاہے خاص طورپردیہاڑی دار جومزدورطبقہ ہے وہ تو پس کررہ جاتا ہے ۔اعلیٰ حکام کو فوری طورپراس طرف توجہ دینی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri