کالم

نگران وزیر اعظم

میرا نہیں خیال کہ اب اس حقیقت کو چھپانا مناسب اور موزوں ہے ۔دراصل مجھے تو شروع ہی سے اندازہ تھا کہ مجھے ملک کا نگران وزیراعظم بنانے پر اتفاق نہیں کریں گے ، اس کے باوجود احتیاطاً میں نے اپنی ساری واسکٹیں جھاڑ کر الماری میں لٹکا دی تھیں۔ایک شیروانی بھی ہے میرے پاس ،لیکن اب اس میں داخل ہونا ممکن نہیں،اپنی شادی کی یہ شیروانی میں نے سنبھال کر رکھی ہوئی ہے، کیونکہ یہ بھی ایک سند ہے اور بوقت ضرورت کام آ سکتی ہے۔اب جہاں تک ستم ظریف اور شرلی رنگ باز کا تعلق ہے ،جب سے انہوں نے پھپھڑ رنگ باز کی محفل میں بیٹھنا اور سیکھنا شروع کیا ہے ،ان دونوں کے قوائے عقلیہ نے پوری طرح سے کام کرنا چھوڑ رکھا ہے۔ ستم ظریف اور شرلی بے بنیاد دونوں پھپھڑ رنگ باز کے بےت کے مفروضوں اور خود تراشیدہ افواہوں کو سچ ماننے پر ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں ۔انہیں پھپھڑ رنگ باز نے بتایا تھا کہ نگران وزیراعظم بالکل گمنام شخص ہو گا ، لوگ اس کا نام سن کر حیرت میں گم ہو جائیں گے۔ان دونوں نے کمرے میں داخل ہوتے ہی پہلے میری طرف دیکھا،پھر بیک وقت ایک دوسرے کی طرف رخ کرکے ساکت و جامد ہو گئے۔چند ثانیے متحیر رہنے کے بعد دونوں ایک ساتھ چیخے ۔یہی ہیں، یہی ہیں۔ان کے بقول پھپھڑ رنگ باز نے یہ بھی کہا تھا کہ نگران وزیراعظم عقل مت سے عاری ہوگا ۔اس کا نظام فہم و فراست اپنی طبیعی عمر پوری کرچکا ہوگا۔یہ بتا کر ان دونوں نے ایک بار پھر میری طرف دیکھا ،اور نعرہ لگایا، یہی ہیں ، یہی ہیں۔ان کے مطابق پھپھڑ رنگ باز کے خیال میں نگران وزیراعظم اسے بنایا جائے گا ،جسے وزیراعظم بن جانے کے دوسال بعد تک بھی یقین نہیں آئے گا کہ وہ واقعی وزیراعظم بنا دیا گیا ہے۔دونوں نے مجھے دیکھ کر ایک دوسرے کے کان میں کھسر پھسر کی ،اور پھر متفقہ نعرہ بلند کیا کہ ہاں یہی ہیں ، یہی ہیں ۔پھر انہوں نے بتایا کہ نگران وزیراعظم ایسا ہو گا کہ اگلے چار سال قوم کو بھی پوری طرح سے یقین نہیں آ پائے گا کہ یہ سجن ہی وزیراعظم ہیں ،انہوں نے میری طرف دیکھا اور نعرہ بلند کرنے کی بجائے ،متفقہ طور پر تائید میں سر ہلا دیا۔ میں نے دونوں کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ یہ اسٹیج ڈرامہ بند کریں اور آرام سے بیٹھ جائیں،اور مجھے بتائیں کہ مسئلہ کیا ہے؟ تم دونوں ہراساں کیوں ہو ؟ اور میری طرف دیکھ دیکھ کر منہ سے آوازیں کیوں نکال رہے ہو؟ ان دونوں نے بتایا کہ ؛ کیا آپ کو نہیں پتہ کہ اس وقت نگران حکومت قائم ہونے والی ہے اور پوری قوم منہ کھول کر انتظار کر رہی ہے کہ نگران وزیراعظم کسے بنایا جائے گا۔طرح طرح کے اندازے لگائے جا رہے ہیں۔ہم دونوں بھی اندازے لگا رہے ہیں۔ہمارا مفاد اس میں ہے نگران وزیراعظم اور جس طرح کا بھی ہو،ہمارا واقف کار ہونا چاہیئے تاکہ ہم اسکے ساتھ تصویریں بنوا کر اپنے اپنے فیس بک پیج پر لگا سکیں۔آخر ہم جیسے لوگوں کو اہمیت کب ملے گی ۔پھپھڑ رنگ باز کی مجلس میں جو کچھ سنا، ہمارا دھیان فوراً آپ کی طرف گیا ۔ آپ میں وہ تمام خوبیاں اور نشانیاں موجود ہیں ،جن کا تذکرہ عام ہے۔پھر آپکے پاس مختلف رنگوں کی واسکٹوں کا انبار بھی ہے ۔ یہ واسکٹیں صرف آپ ہی پہن سکتے ہیں ،کوئی دوسرا نہیں ۔وجہ ان کا سائز ہے ۔ستم ظریف جذباتی ہو کر کہنے لگا آپ جیسا اور آپ جتنا بڑا انسان پاکستان میں اور کون ہو گا؟ کوئی بھی نہیں ۔میں ان دونوں کی طرف سے ایسی گفتگو کی توقع نہیں کر رہا تھا۔یہ جانتے ہوئے کہ یہ دونوں بنیادی طور پر نادان اور جذباتی ہیں ۔ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مجھے سیانا سمجھتے ہیں۔میں نے انہیں پیار سے سمجھایا کہ دیکھو یہ ایک بات ہر پاکستانی سمجھتا ہے، اب تمہیں بھی سمجھ لینی چاہیئے کہ؛ نگران وزیراعظم اور نگران حکومت ان کی مرضی اور منشا کے مطابق بنائی جائے گی ،جو نگرانی کرنے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ میری بات سن کر ستم ظریف کہنے لگا کہ یہ فیصلہ تو وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر مل کر کریں گے۔ دونوں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آئے ہیں۔ ایک جمہوری ملک کا طریقہ کار تو یہی ہے ۔میں نے انہیں سمجھایا کہ دیکھو ،سمجھنے کی کوشش کرو۔یہ بات بالکل درست ہے کہ بانیاں پاکستان نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک جمہوری ریاست بنائی تھی ،لیکن اب حقیقت بدل گئی ہے ۔ ہمارے وہی سیاستدان میدان سیاست میں موثر اور زندہ رہ سکتے ہیں، جو ڈارون کے قانون انتخاب فطری کے تحت ماحول کے مطابق ہیئتی تبدیلیاں اپنے اندر پیدا کرتے رہتے ہیں ،جو سیاستدان ایسا نہ کر سکیں،وہ دنیا میں تو نہیں ،البتہ تاریخ میں ضرور زندہ رہ جاتے ہیں۔ اب چونکہ قومی اسمبلی ختم ہو چکی ہے ،ملک چند روز سے حکومت اور وزیراعظم کے بغیر چل رہا ہے ، تو دیکھو بالکل ٹھنڈی ہوا کی طرح سے چل رہا ہے ۔گفتگو یہاں تک پہنچی تھی کہ بند آواز کےساتھ چلنے والے ٹیلی ویژن نے انگڑائی لی،اور بریکنگ نیوز اچھل کر باہر نکلی کر کھڑی ہوگئی ۔ خبر یہ تھی کہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے ایک نسبتاً کم عمر سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو پاکستان کا آٹھواں نگران اعظم مقرر کر دیا گیا ہے۔ پرلطف بات یہ ہے کہ ایک مدت سے ہم اپنے اس کمرے میں آواز کے بغیر ٹیلی ویژن دیکھ رہے ہیںاور راز یہ کھلا کہ بغیر آواز کے خبریں قدرے قابل برداشت ہو جاتی ہیں۔آج بھی یہ اہم اور نادر خبر کسی قسم کی آواز کے بغیر ہی مکمل طور پر سمجھ آرہی تھی۔یہ خبر سن کر ستم ظریف اور شرلی بے بنیاد کے منہ تھوڑے سنجیدہ اور قدرے چھوٹے سے ہو کر لٹک گئے۔خیر میں نے سچے دل خدا کا شکر ادا کیا کیونکہ؛ خود میرے نگران وزیراعظم بننے کا خطرہ ٹل چکا تھا ۔ میں چند روز سے سہما سہما سا پھر رہا تھا کہ اگر مجھے وزیر اعظم بنا دیا گیا تو پھر مجھے ہر روز صبح جلدی اٹھنا پڑے گا، کام کرنا پڑے گا ، عجیب و غریب لوگوں سے ہنس ہنس کر ملنا ، اور کوشش کر کے خود کو بااختیار ظاہر کرنا پڑے گاچونکہ ان سب بکھیڑوں سے جان چھوٹ چکی تھی ،اس لیے میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ستم ظریف نے دھیرے سے بس اتنا ہی کہا کہ بلوچستان سے وزیراعظم بنانا اچھی بات ہے ،پر اگر کسی بلوچ کو ہی بنا دیا جاتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا تعلق بلوچستان کے پشتونوں کے معروف کاکڑ قبیلے سے ہے۔ اعلی تعلیم یافتہ ہیں ۔قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ سے حاصل کرنے کے بعد انٹرمیڈیٹ کوہاٹ کے کیڈٹ کالج سے کر رکھا ہے۔شرلی بے بنیاد پوچھنے لگا کہ یہ نوے روز میں الیکشنز کروائیں گے؟ یہ تو علم نہیں ،لیکن علم اندازہ و قیاس کے مطابق گمان ہے کہ؛ پرانے آیور ویدک نسخے نکال کر چٹو وٹے میں کوٹنے پیسنے کا کام شروع ہو چکا ہے۔لگتا ہے کہ اب ہمارے یہاں گناہ تازہ تر کا امکان بھی باقی نہیں بچے گا۔جہاں تک الیکشنز کا تعلق ہے تو وہ کل یا پرسوں تو نہیں ہونے والے۔ ستم ظریف یہ کہتے ہوئے اٹھا اور باہر کی طرف روانہ ہو گیا کہ ؛ الیکشن خیال است و محال است و جنوں۔شرلی یہ بات سن کر کچھ بے چین ہوا اور کہنے لگا کہ یہ ایک جمہوری ملک ہے ،اس کا ایک آئین اور آئینی تقاضے ہیں ،ان سب کا کیا ہوگا؟ میں نے جذباتی شرلی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے سمجھایا کہ دیکھو تمہیں اور سارے پاکستانیوں کو سمجھ لینا چاہیئے کہ؛جمہوریت سے مراد جمہور نہیں ، بچے جمہورے ہوتے ہیں ، اور ان کا انتخاب کر لیا گیا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے