اداریہ کالم

ورلڈاکنامک فورم کا اہم اجلاس ،پاکستان کی شرکت

سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی زیر سرپرستی عالمی اقتصادی فورم کا خصوصی دو روزہ اجلاس ریاض میں شروع ہے جس میں وزیر اعظم شہباز شریف سمیت ایک ہزار سے زیادہ سربراہان مملکت اور پالیسی ساز شرکت کر رہے ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کے خصوصی اجلاس میں امریکہ سمیت دیگر مغربی اورفلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس اور خطے کے عرب ممالک کے وزرائے خارجہ شامل ہیں۔ اجلاس میں امیر کویت مشعل الاحمد الجابر الصباح، مصر کے وزیراعظم مصطفی کمال مدبولی، عراقی کے وزیراعظم محمد سوڈانی، اردن کے وزیراعظم بشر الخصاونہ، ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم، پاکستان کے وزیراعظم محمد شہباز شریف، فلسطینی صدر محمود عباس، قطری وزیراعظم محمد بن عبدالرحمن آل ثانی، امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، یورپی یونین کے اعلی نمائندے جوزف بوریل، فرانسیسی وزیر برائے یورپ اور خارجہ امور سٹیفن سیجورن، جرمنی کی وزیر خارجہ اینا لینا بیئربوک، برطانیہ کے وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون، آئی ایم یف کی منیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا، غزہ کے لیے اقوام متحدہ کے سینیئر کوآرڈینیٹر سگریڈ کاگ اور ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ادہانوم گیبریئس نمایاں ہیں۔ غزہ میں جنگ بندی کے علاوہ اسرائیل اور ایران کے مابین کشیدگی جیسے موضوعات اجلاس کے ایجنڈے کا حصہ ہیں۔ورلڈ اکنامک فورم کے صدر بورجے برینڈے کا کہنا ہے کہ سمٹ میں زیر بحث آنے والے موضوعات یقینا غزہ میں جاری انسانی صورتحال پر بات چیت ہو گی اور ایران سے متعلق علاقائی پہلوو¿ں پر بھی گفتگو کی جائے گی۔فورم کے حوالے سے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سعودی وزیر اقتصادیات و منصوبہ بندی فیصل بن فاضل الابراہیم کا کہنا تھا کہورلڈ اکنامک فورم کا خصوصی اجلاس مشترکہ خوشحالی کے حصول کے لیے اہم ثابت ہو گا۔ان کے مطابق فورم کے انعقاد سے عالمی سطح پر معاشی ترقی کی راہیں ہموار ہوں گی۔ادھر سعودی عرب میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس میں خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کا وفد بھی وزیراعظم شہباز شریف کی سربراہی میں شریک ہے۔27اپریل کو پاکستانی وفد سعودی عرب پہنچا، اس دورے میں وزیر خارجہ اسحق ڈار اور وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سمیت اعلی سطح کا وفد وزیراعظم کے ہمراہ ہے۔عالمی اقتصادی فورم میں عالمی تعاون اور توانائی برائے ترقی پر توجہ بھی دی جائے گی۔ پاکستان کے مطابق اس پلیٹ فارم کا مقصد بین الاقوامی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے عالمی تعاون کو فروغ دینا اور اقتصادی بحالی کے لیے پائیدار حل تجویز کرنا ہے۔ وزیراعظم نے ایکس پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اجلاس میں عالمی تعاون، جامع ترقی اور توانائی جیسے اہم موضوعات پر گفتگو کی جائے گی اور موجودہ حالات میں درپیش چیلنجز پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔پاکستان بین الاقوامی سطح پر اپنے اقتصادی اور ترقیاتی ایجنڈے کو اگے بڑھانے کے لیے اس قیمتی موقع سے فائدہ اٹھائے گا، اس اجلاس کا مقصد دو طرفہ تعلقات کو سٹرٹیجک اقتصادی شراکت داری میں تبدیل کرنے کے لیے مملکت سعودی عرب کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔علاوہ ازیں وزیراعظم کویت کی امیر سے بھی ملاقات ہو گی، شہباز شریف کی سعودی وزرا برائے خزانہ ، صنعت ، سرمایہ کاری سے بھی ملاقاتیں متوقع ہیں۔وزیراعظم کی بل اینڈ میلینڈا گیٹس فاو¿نڈیشن کے کو چیرمین کے علاوہ عالمی مالیاتی فنڈ کی مینیجنگ ڈائریکٹراورصدراسلامی ترقیاتی بینک سے ملاقات ہو گی۔سعودی عرب پہنچنے کے بعدوزیراعظم سے مشیر شاہی دربار اور جنرل سیکرٹری سعودی پاکستان سپریم کوآرڈینیشن کونسل محمد بن مزیاد آل تویجری کی سربراہی میں وفد نے ملاقات کی۔اس موقع پروزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور سعودی عرب کے معاشی تعلقات ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں ، ہم پاکستان کی گورننس اسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے حوالے سے سعودی حکومت کی کامیاب اصلاحاتی پالیسی کے تجربے سے مستفید ہونا چاہتے ہیں، پاکستان اور سعودی عرب کے دیرینہ برادرانہ تعلقات ہیں جو وقت کے ساتھ مزید مضبوط ہو رہے ہیں۔ملاقات میں دونوں اطراف سے معاشی تعلقات کو مزید فروغ دینے کے حوالے سے غیر معمولی گرمجوشی کا اظہار کیا گیا۔ آل تجویری اور ان کے وفد نے پاکستان میں سعودی سرمایہ کاری کے حوالے سے سعودی حکومت اور کمپنیوں کی طرف سے گہری دلچسپی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سعودی وزیر خارجہ کے پاکستان کے دورے کے بعد پاکستان میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری کی جانب سے ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کردیا گیا ہے،جنگی بنیادوں پر پاکستان میں سرمایہ کاری پر کام شروع کر دیا ہے، جس میں سرکاری اور نجی سیکٹر دونوں کی سرمایہ کاری شامل ہے،سعودی کاروباری برادری اور سرمایہ کاروں پر مشتمل اہم وفد انتہائی کم وقت میں پاکستان کا دورہ کرے گا ۔ آل تجویری جو کہ سعودی عرب کے ویژن 2030 کے انچارج بھی ہیں ،نے وزیراعظم کو ویژن 2030 کے حوالے سے تفصیلی آگاہ کیا۔انہوں نے کہا کہ سعودی ویژن 2030کے تحت پاکستانی افرادی قوت و سرکاری افسران کو تربیت فراہم کرنے کے حوالے سے ہر ممکن مدد کریں گے۔
کسانوں کی شکایات کا ازالہ
حکومت نے گندم کے حوالے سامنے آنے کی شکایات کے حل کےلئے اہم فیصلہ کرتے ہوئے گندم خریداری کا ہدف 14 لاکھ میٹرک ٹن سے بڑھا کر 18ملین میٹرک ٹن کرتے ہوئے فوری خریداری کا حکم دے دیا ہے۔یقینا یہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔ملک بھر میں گندم کی خریداری کے معاملے پر کسانوں کو مشکلات کا سامنا ہے،قومی اسمبلی میں بھی اس حوالے سے اپوزیشن نے گندم کی خریداری سے حکومتی انکار اور بمپر فصل ہونے کے باوجود اجناس کی درآمد کی اجازت دینے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اپوزیشن کے شیخ وقاص اکرم نے حکومت کو خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ جلد کسان سڑکوں پر ہوں گے اور حکمران اس کا سامنا نہیں کر سکیں گے۔اس ضمن میںوزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی رانا تنویر نے اعتراف کیا کہ گندم کی درآمد کی اجازت دینا نگران حکومت کا غلط فیصلہ تھا، انہوں نے کہا کہ وہ کاشتکاروں سے زیادہ سے زیادہ گندم کی خریداری کے لیے صوبائی حکومتوں کو خط لکھیں گے۔اب وزیراعظم کسانوں کی شکایات پر سخت نوٹس لیتے ہوئے وفاقی حکومت کی طرف سے کسانوں سے گندم کی فوری خریداری کا حکم دے دیا ہے۔امیدہے کہ اس سے کسانوں کی شکایات کا ازالہ ہو پائے گا۔وزیراعظم نے گندم کی خریداری کے حوالے سے پاسکو کو شفافیت اور کسانوں کی سہولت کو ترجیح دینے کی ہدایت بھی ہے۔اس سے قبل وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں اقتصادی رابطہ کمیٹی نے پاسکوکے لیے چودہ لاکھ میٹرک ٹن گندم کی خریداری کا ہدف مقررکیا تھا۔اقتصادی رابطہ کمیٹی نے 5 اپریل کے اجلاس میں پاسکو کےلئے اس سال کا گندم کا خریداری ہدف 14 لاکھ میٹرک ٹن مقرر کیا تھا جبکہ پاسکو کےلئے169 ارب روپے کی کیش کریڈٹ لائن کاہدف منظور ہوا تھا جس گندم کی قیمت خرید 3900روپے فی من مقررکی گئی۔
حکومت سولر صارفین پر غضب ڈھانے سے گریز کرے
اگرچہ حکومت نے سولر پاور پر فکسڈ ٹیکس لگائے جانے کے حوالے سے چلنے والی خبروں کی تردید کی ہے،اس ضمن میں پاور ڈویژن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ فکسڈ ٹیکس لگانے کی خبروں کی سختی سے تردید سولر پاور پر فکسڈ ٹیکس لگانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں ہے اور نہ ہی سی پی پی اے یا پاور ڈویژن نے حکومت کو ایسی کوئی سمری نہیں بھیجی ہے،تاہم جس تواتر سے خبریں گردش کر رہی ہیں اس میں ضرور کچھ نہ کچھ کالا دکھائی دیتا ہے۔نیٹ میٹرنگ کا نظام شمسی توانائی میں سرمایہ کاری کو فروغ دے رہا ہے،عوام میں بڑھتی ہوئی بجلی کی قیمتوں کی وجہ بے تحاشہ سولر پینل لگانے کا رجحان بھی بڑھ رہا ہے۔اب حکومت نیا غضب ڈھا کر اتنا پیسہ اکٹھا نہیں کر پائے گی جتنا سے عوامی غیض و غضب کا سے سامنا کرنا پڑے گا۔عوام پہلے اس حکومت کی کارکردگی سے ناخوش ہے۔مزید اس قسم کی فیصلے اسے لے ڈوبیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے