نصف صدی سے کچھ اُو پر پھیلی میری صحافتی زندگی بہت سے تلخ و شریں حوادثات و واقعات سے بھری پڑی ہے فیلڈ میں رپورٹنگ کرتے کرتے مختلف محکموں اداروں کی کارکردگیاں دیکھتے افسروں اور حکمرانوں سے ملتے ملاتے اور اس دوران ایک سرکاری کالج میں نوجوان نسل کو سوکس پڑھاتے مختلف ممالک کے نظام ہائے زندگی ان ملکوں کے دساتیر پڑھتے اور ان ممالک کو نیچے سے اُوپر کی طرف ترقی کا سفر کرتے دیکھ کر یہ خواہش ابھرتی ہے کہ ہمیں ازاد ہوئے سات دہائیوں سے اوپر ہو چکے ہیں اس طویل عرصہ میں ہم نے جمہوری نیم جمہوری مارشل لائی اداروں کو بھگتنے اور کبھی صدارتی اور کبھی پارلیمانی نظاموں کو ازمانے کے باوجود ترقی کی راہ میں کچھ اس طرح سے کھڑ ے ہیں کہ ایک قدم اگر آگے جاتے ہیں تو دو قدم پیچھے چل پڑتے ہیں یہ صورتحال صرف مجھے ہی نہیں اور بہت سے لوگو ں کو محسوس ہوتی ہے میں سمجھتاہوں کہ ترقی کی را ہ میں حائل بہت ساری دیگر قباحتوں کے علاوہ ایک بنیادی وجہ بد انتظامی بھی ہے آپ امریکہ سے لیکر متحدہ عرب امارات تک کو دیکھیں آپ چین سے لیکر جاپان تک کے قرضے حکومت اور انتظامات پر غو ر کریں ان سب میں کہیں بادشاہت ہے کہیں جمہوریت اور کہیں کچھ اور طرز حکمرانی لیکن ایک بات جو سب میں مشترک ہے وہ ہے ان ممالک میں چھوٹے انتظامی یونٹوں کارواج وہ ممالک سمجھتے ہیں کہ اگر حکمران ایماندار دیانت دار ہو اور اُسے اپنے ملک اور قوم کی شفافیت کے ساتھ خدمت کرنا مقصود ہو تو انہیں عام آدمی کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے سرکاری امور کے تمام محکمے عام آدمی کی دہلیز کے قریب رکھنے سے انہیں تمام سرکاری اور محکمہ جاتی سہولتیں وقت اور سفری اخراجات ضائع کیے بغیر میسر آنے سے آسانیاں پیدا ہوتی ہیں جس سے ہر شخص با آسانی حکومتی اداروں اور سہولتوں سے استعفادہ کر کے انفرادی اور اجتماعی ترقی کا باعث بنتا ہے وطن عزیز میں ابتدا میں دو صوبوں مشرقی اور مغربی پاکستا ن تھا ۔پھر مغربی پاکستان چار صوبوں میں تقسیم ہوا لیکن اس کے بعد چھوٹے انتظامی یونٹ بنانے پر نہ تو توجہ دی گئی اور نہ سوچا گیا وقت گزرنے اور آبادی میں اضافہ کیساتھ چھوٹے انتظامی یونٹوں کے لیئے آوازیں بلند ہوتی رہیں کبھی ہزارہ کو صوبہ بنانے کے کبھی جنوبی پنجاب کو اور کبھی سندھ میں نیا صوبہ بننے کی آوازیں اُٹھتی رہی ہیں لیکن بعض سیاسی مجبوریوں اور بعض سیاست دانوںکی مجبوریاں اس میں حائل ہونے سے نئے صوبوں کی ضرورت سیاسی نعروں تک محدود ہو کر رہ گئی اور اب بدلتے ہوئے سیاسی حالات سوشل میڈیا اور پرنٹ اینڈ الیکٹرانک میڈیا میں ہونے والی ترقی اور عام آدمی میں تعلیم اور اگاہی نے بہت سی ایسی دبی ہوئی آوازوں باتوں اور ضرورتوں کو اجاگر کرنا شروع کردیا ہے جنوبی پنجاب میں تحصیل حاصل پور سے لیکر دیگر بہت سے تحصیلوں تک اگر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ ان تحصیلوں میں رہنے والے لاکھو ں لوگوں کو سرکاری محکموں سے متعلق مختلف کاموں کے لیئے روزانہ کی بنیاد پر پر اپنے ضلع تک جانے میں وقت اور سفری اخراجات کے علاوہ دیگر کس طرح کی مصیبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں یہی صورتحال میرے آبائی شہر تحصیل وزیرآباد کی بھی ہے جو ماضی میں کبھی صوبائی دارلحکومت ہوا کرتا تھا پھر ضلع بھی رہا اور اب قیام پاکستان سے آج تک تحصیل کے درجے پر کھڑا ہے اور اب پنجاب کے متحرک وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الہیٰ اور تحریک انصاف کے صدر عمران خان کی کوششوں سے اسے ضلع کا درجہ دینے کا کام آخری مراحل میں ہے لیکن بعض قوتوں کو شاید اس پر عتراض ہونے کی وجہ سے معاملہ آخری مرحلہ پر رکا ہو ا ہے بتایا جاتا ہے کہ وزیرآباد کو ضلع بنانے کے بعد گکھڑ منڈی اور علی پور چٹھہ کو تحصیل کا درجہ دیا جائے گا جبکہ ڈسکہ تحصیل کو ضلع سیالکوٹ سے الگ کر کے وزیرآباد کے ساتھ لگایا جائے گا لیکن ڈسکہ میرے دوست کے شہر میں اس فیصلے کو نامنظور کر کے احتجاج کیا جا رہا ہے اگر جغرافیائی لحاظ سے دیکھا جائے تو ڈسکہ کی نسبت سمبڑیال تحصیل وزیرآباد ضلع کے لیے بڑی بہترین ہے لیکن سمبڑیال میں ڈرائی پورٹ اور سیالکوٹ کے فراخدل صنعت کاروں کی کوششوں سے سیالکوٹ ائیرپورٹ بننے بلکہ ان قابل تحسین صنعتکاروں کے سرمائے سے بننے والی ائیر سیال ھوائی سروس کے بعد سیالکوٹ کے لوگ کبھی بھی یہ برداشت نہیں کریں گے کہ سونے کی چڑیا سمبڑیا ل کو سیالکوٹ سے الگ کر کے وزیرآباد کے ساتھ لگا دیا جائے تو پھر ہونا یہ چاہیے کہ ڈسکہ اور سمبٹریال تحصیلوں کے وہ علاقے جو وزیرآباد سے ملتے ہیں انہیں اکٹھاکر کے سوہدرہ کو بھی تحصیل کا درجہ دے دیاجائے جس پر ڈسکہ اور سمبڑیال کو شاید کوئی شکایت بھی نہیں ہو گی اور سوہدرہ جیسا تاریخی قصبہ تحریک پاکستان کے معروف لیڈر پیر سید بشیر شاہ سہروردی قادری حکیم عنایت اللہ نسیم علیگ بریگیڈیر قاضی علاوالدین کا قصبہ ہے اور سہیل احمد المعروف عزیز ی فلم سٹار ڈاکٹر جاوید اکرم مہر خالد مجید نجیب اللہ ملک فلم سٹار طاہرہ نقوی اور ایسے بہت سی دیگر نادر روزگا ر شخصیات کی جنم بھومی ہے اور علم فضل کے لحاظ سے بھی معتبر قصبہ ہے اگر اسے تحصیل کا درجہ سے دیا جائے تو معاملات ٹھیک بھی ہو سکتے ہیں رہی بات کہ ضلع وزیرآباد کو گوجرانوالہ ڈویثرن کے ساتھ ہی رہنا چاہیے یا نئے بننے والے گجرات ڈویثرن کے ساتھ تو تمام تر سیاسی باتوں سے ہٹ کر اگر دیکھا جائے تو گجرات وزیرآباد کو قریب تر ہے گجرات ڈویثرن عام آدمی کے لیئے بہت سی سہولتوں کا سبب بن سکتا ہے گوجرانوالہ دور بھی ہے اور وہ اس قدر گنجان آباد ہو چکا ہے کہ گاڑی پارکنگ بھی ایک مسلہ ہوتا ہے بہرحال نئے ضلعے اور نئی تحصیلیں ہر لحاظ سے عام آدمی کو سہولیات فراہم کرنے اور ملکی تعمیر و ترقی خوشحالی کے لیے بہت ضروری ہیں لیکن سوچتا ہوں کہ سیالکوٹ کے سیاستدانوں نے سیالکوٹ کو ڈویثرن بنانے کےلئے کیوں کوشش نہیں کی حلانکہ سیالکوٹ علاقہ اور آبادی کے لحاظ سے اس درجہ پر ہے کہ سیالکوٹ کو بھی ڈویژن کا درجہ ملے آج نہیں تو کل سیالکوٹ بھی ڈویثرن ہو گا وزیرآباد کو ضلع بنانے میں رکاوٹوں کے خلاف بار ایسوی ایشن اور دیگر سماجی تنظیمیں بھی میدان میں آچکی ہیں دیکھیں سیاست کس کروٹ بیٹھتی ہے ۔
کالم
وزیرآباد کو ضلع بنانے میں رکاوٹ کون ہے
- by Daily Pakistan
- اگست 29, 2022
- 0 Comments
- Less than a minute
- 42923 Views
- 2 سال ago