وسطی ایشیاکی جمہوریات قازقستان ،ازبکستان ، ترکمانستان، تاجکستان اور کرغزستان آج عالمی سیاست، توانائی، اور علاقائی روابط کے نئے مراکز بن چکی ہیں۔ سوویت یونین سے آزادی کے بعد یہ ممالک اگرچہ روسی اثر میں رہے، لیکن اب کثیرالجہتی خارجہ پالیسی اپناتے ہوئے دنیا کے دیگر خطوں، خصوصا جنوبی ایشیا اور پاکستان کی جانب بڑھ رہے ہیں ۔ پاکستان، جو طویل عرصے تک مشرق وسطی اور مغرب کیساتھ تعلقات پر زیادہ توجہ دیتا رہا، اب وسطی ایشیا کو اپنی خارجہ پالیسی میں اہم حیثیت دے رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں اسلام آباد نے اس خطے کیساتھ روابط کو اقتصادی، توانائی، اور تزویراتی بنیادوں پر وسعت دینے کی سنجیدہ کوششیں کی ہیں۔پاکستان نے 2021میں ایک جامع پالیسی متعارف کروائی جسے ویژن وسطی ایشیاکا نام دیا گیا۔ اس پالیسی کا مقصد وسطی ایشیائی ممالک کیساتھ سیاسی، تجارتی، ثقافتی، توانائی اور سیکورٹی تعاون کو بڑھانا ہے۔ اس پالیسی کے تحت، پاکستان خود کو ایک پل (Bridge) کے طور پر پیش کر رہا ہے، جو وسطی ایشیا کو جنوبی ایشیا، خلیج اور افریقہ سے منسلک کر سکتا ہے۔ پاکستانی وزیرِاعظم شہباز شریف نے 2023 اور 2024 میں قازقستان اور ازبکستان کے سرکاری دورے کیے، جہاں توانائی، ٹرانسپورٹ، تجارت، ویزا سہولیات اور تعلیمی تعاون کے متعدد معاہدے طے پائے۔ ان دوروں نے اس بات کو واضح کر دیا کہ اسلام آباد خطے کے ساتھ عملی شراکت داری کا خواہاں ہے، نہ کہ صرف روایتی سفارتی تعلقات کا۔پاکستان کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے، اور وسطی ایشیائی ریاستیں، جو تیل، گیس اور بجلی کی زائد پیداوار رکھتی ہیں، پاکستان کیلئے ایک قدرتی حل فراہم کرتی ہیں، ترکمانستان، افغانستان ،پاکستان، بھارت(TAPI) گیس پائپ لائن ایک میگا پروجیکٹ ہے جو ترکمانستان کے گیس فیلڈز کو براستہ افغانستان پاکستان اور بھارت سے جوڑے گا۔ اگرچہ سیکیورٹی مسائل اور مالیاتی خدشات اس منصوبے کی راہ میں رکاوٹ ہیں، تاہم اس کی تزویراتی اہمیت مسلمہ ہے۔ کرغزستان اور تاجکستان سے پاکستان کو 1300 میگاواٹ بجلی کی ترسیل پر مبنی CASA-1000 منصوبہ بھی ویژن وسطی ایشیا کا کلیدی حصہ ہے۔ یہ منصوبہ، جو زیرِ تکمیل ہے، پاکستان کی بجلی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے شمال سے جنوب تک توانائی کا بہا ممکن بنائیگا۔پاکستان کی گوادر بندرگاہ وسطی ایشیائی ریاستوں کیلئے ایک قدرتی تجارتی راستہ بن چکی ہے۔چین،کرغزستان ، ازبکستان ریل منصوبے کو پاکستان تک وسعت دینے کی بات ہو رہی ہے، جس کے نتیجے میں وسطی ایشیا کو بحیرہ عرب سے براہِ راست رسائی حاصل ہو گی۔ اس منصوبے سے تجارتی لاگت اور وقت میں نمایاں کمی آئے گی، جو پورے خطے کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔پاکستان اور وسطی ایشیائی ممالک کے درمیان تجارتی حجم فی الحال محدود ہے، تاہم رواں سال قازقستان کیساتھ موجودہ تجارتی حجم کو 1 ارب ڈالر تک لیجانے کا ہدف ہے۔پاکستان ٹیکسٹائل، ادویات، سرجیکل آلات، زرعی مشینری ، ٹیکنالوجی، صنعتی زونز، اور مشترکہ وینچرز کے ذریعے وسطی ایشیا میں سرمایہ کاری کو فروغ دینا چاہتا ہے۔پاکستان وسطی ایشیا کے ساتھ دفاعی تعاون بھی بڑھا رہا ہے، خصوصاً انسداد دہشت گردی، بارڈر سیکیورٹی، اور فوجی تربیت کے شعبوں میں۔ ازبکستان اور کرغزستان کیساتھ مشترکہ فوجی مشقیں اور تربیتی معاہدے اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ اسلام آباد صرف اقتصادی نہیں، بلکہ سیکیورٹی شراکت داری کو بھی اہمیت دیتا ہے۔ پاکستان کی وسطی ایشیا میں بڑھتی دلچسپی نہ صرف توانائی اور تجارت کا معاملہ ہے، بلکہ خارجہ پالیسی کو متنوع بنانے کی کوشش بھی ہے۔ عالمی سطح پر بھارت، کی بڑھتی موجودگی کے تناظر میں، پاکستان کو وسطی ایشیا میں فعال کردار ادا کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔جغرافیائی قربت، مذہبی و ثقافتی ہم آہنگی، اور توانائی و تجارتی ضروریات نے پاکستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کو ایک دوسرے کیلئے قدرتی شراکت دار بنا دیا ہے۔ ویژن وسطی ایشیا”جیسے اقدامات، TAPIاور CASA-1000جیسے منصوبے، اور گوادر جیسے انفراسٹرکچر منصوبے پاکستان کو ایک نئے یوریشیائی کوریڈور کا مرکز بنا سکتے ہیں۔اسلام آباد اگر مستقل مزاجی سے اپنی سفارت کاری، سیکیورٹی پالیسی اور معاشی اہداف پر کام کرتا رہا، تو وہ نہ صرف وسطی ایشیائی خطے میں اپنی جگہ مستحکم کرے گا بلکہ جنوبی ایشیا، مشرق وسطی اور یوریشیا کے درمیان ایک فیصلہ کن پل بھی بن جائے گا۔