کالم

پاور سیکٹر ‘ایف بی آر’میں اصلاحات بڑا چیلنج

وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ بجلی سستی کرنا حکومت کا ایجنڈہ ہے پاور سیکٹر اور ایف بی آر کرپشن سے صاف نہ ہوئے تو نا ڈوب سکتی ہے لوگوں پر مزید ٹیکس لگانا ٹھیک نہیں تنخواہ داروں کا احساس ہے بجلی بحران کے حل کے لئے شبانہ روز کوششیں جاری ہیں ہماری سیاست عوامی خدمت ہے گزشتہ چند ماہ میں اس حوالے سے کئی اقدامات اٹھائے ہیں سستی بجلی ہمارا اور ہماری اتحادی حکومت کا ایجنڈا ہے اس پر سیاست عوامی توہین کے مترادف ہے توانائی کا شعبہ اور ایف بی آر کو فعال بنانے اور کرپشن سے پاک کرنے میں کامیاب ہوگئے تو کشتی منجدھار سے نکل آئے گی عوام کی مشکلات کا پورا ادراک ہے ڈھانچہ جاتی اور ٹیکس اصلاحات پر سنجیدگی سے عمل درآمد ایندھن کی مہنگی درآمدات پر بھاری انحصار زرعی شعبے میں پانی اور توانائی کی قلت عوامی فلاح و بہبود میں سرمایہ کاری کی کمی جیسے مسائل سے نمٹنے کے لئے ناگزیر ہے ورلڈ بینک کی سفارشات کے مطابق کسی بھی ملک میں ترقی کی مناسب رفتار اور غربت میں کمی کیلئے محصولات کا تناسب مجموعی قومی پیداوار کا کم از کم 15 فیصد ہونا چاہیے جبکہ گزشتہ دہائی میں پاکستان کی مجموعی آمدنی کا اوسط جی ڈی پی کا 12.8 فیصد رہا جو کہ جنوبی ایشیا کی اوسط 19.2 فیصد سے کافی کم ہے حالا نکہ 1999 میں یہی شرح 13.2 فیصد تھی گویا ہمارا سفر مجموعی طور پر پیچھے کی جانب جارہا ہے یہ اس کے باوجود ہوا ہے کہ ایف بی آر کی اصلاحات کے نام پر ہم نے بین الاقوامی اداروں سے کئی قرض اور امدادی پیکیج لئے پاکستان کو مالیاتی خسارے کا سامنا ہے اور ٹیکس محصولات میں اضافہ حکومت کےلئے ایک بڑا چیلنج بنتا جارہا ہے حکومت کو محصولات کی وصولی میں بہتر نتائج حاصل کرنے کےلئے ٹیکس کی شرح کو موثر بنانے کی ضرورت ہے سیلز ٹیکس کی شرح بڑھانے سے مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہونے کی وجہ سے فروخت میں کمی کے ساتھ ساتھ ٹیکس وصولی میں بھی نمایاں کمی واقع ہوتی ہے ایک موثر ٹیکس کی شرح طلب اور کھپت کو نقصان نہیں پہنچاتی جب کہ غیر موثر ٹیکس کی شرح لوگوں کی خالص آمدنی اور قوت خرید کو بری طرح متاثر کرتی ہے حکومت کو انکم ٹیکس کی شرح کا فیصلہ کرتے وقت عوام کی قوت خرید کو مدنظر رکھنا چاہیے کیونکہ آبادی کے مختلف طبقات کی آمدنی کی سطح مختلف ہوتی ہے وزیر اعظم شہباز شریف کا توانائی سیکٹر اور ایف بی آر میں اصلاحات کے حوالے سے استد لال منطقی ہے مگر یہ سوال بھی اپنی جگہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے کہ حکومت نے اس اس سلسلے میں کیا کیا ہے؟ فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں گزشتہ بیس سال سے جاری اصلاح احوال کی کوششیں کیوں ناکامی سے دو چار ہیں؟ ایف بی آر میں اصلاحات کے ضمن میں یہ بہت ضروری ہے کہ ہدف کے تعین اور پھر حصول میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو کو اولیت حاصل ہو اور یہ مغالطہ چھوڑ دیا جائے کہ اس سال پچھلے سال کی نسبت زیادہ ٹیکس جمع ہوا ہے محصولات کے نظام میں اصلاحات کی کوئی بھی نئی کوشش تب تک کامیاب نہیں ہوسکتی جب تک پرانی کوششوں کی ناکامی سے سبق نہ سیکھا جائے ایف بی آر میں اصلاحات کی راہ میں پالیسیوں میں ابہام مناسب مہارت کار کی عدم دستیابی اور دیگر عوامل بڑی رکاوٹ ہیں جس کی وجہ سے ادارے میں اصلاحات جوئے شیر لانے کے مترادف ہیں وفاقی وزیر خزانہ ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن کےلئے پرعزم دکھائی دیتے ہیں مگر یہ عمل بھی جلد مکمل ہوتا نظر نہیں آتا ٹیکس کے نظام کو ڈیجیٹل کرنے سے بہت سے چور دروازوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ معرکہ کب سر ہوگا وزیر اعظم شہباز شریف اگر ایف بی آر میں اصلاحات کے لئے پرعزم ہیں تو پھر وہ اس ادارے کے انتظامات اور اصلاح احوال کی کوششوں پر خود کڑی نظر رکھیں کیونکہ وزیر خزانہ اورنگ زیب افسر شاہی کی اندرونہ خانہ سیاست اور اصلاحات کو ناکام بنانے کے لئے کی جانے والی سازشوں کو پوری طرح نہ سمجھ سکیں جہاں تک پاور سیکٹر کی اصلاح کا تعلق ہے یہ ایف بی آر میں اصلاحات سے بھی دشوار امر ہے کیپسٹی پے منٹ کے نام سے ادائیگی کا ظالمانہ نظام بجلی کی مہنگائی کی بڑی وجہ ہے گھریلو صارفین اور صنعتی شبہ ہر ایک بجلی کے بھاری بلوں سے پس رہا ہے مگر حکومت کی جانب سے ابھی تک ایسا کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے بجلی کی قیمت میں کمی کی امید کی جاسکے حکومت نجی بجلی گھروں سے معاہدوں پر غور کرنے سے کترا رہی ہے اور آڈٹ بھی کرنے کے لئے تیار نہیں تو بجلی کے نرخوں میں کمی کیونکر ممکن ہے؟ آئی پی پیز صنعت کی بڑی حصہ دار ہونے کے باوجود حکومت اپنے ملکیتی بجلی گھروں کے معاملات پر بھی نظر ثانی سے گریزاں ہے اس صورت حال میں یہ فرض کرلینا مشکل ہے کہ حکومت بجلی کی قیمت میں کمی کے لئے واقعتا سنجیدہ ہے۔وزیر اعظم شہباز شریف کا پاور سیکٹر اور ایف بی آر میں اصلاح پر زورنہ( نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی)کے مصداق ہے توانائی کی کھپت بھی ترقی کی پیمائش کا ایک پیمانہ ہے مگر جب بغیر سوچے سمجھے توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرتے جائیں گے تو اس کا نتیجہ توانائی کے استعمال میں کمی کی صورت میں سامنے آتا ہے جس کا اثر ان پیداواری سرگرمیوں پر بھی پڑتا ہے جو ملک کے لئے دولت اور عوام کے لئے روز گار پیدا کرتی ہیں ملک میں گزشتہ کچھ عرصے جو غیر معمولی تیزی سے صنعتیں بند ہورہی ہیں اور برآمدات میں گراوٹ کا سلسلہ ہے توانائی کی بے تحاشا مہنگائی اس کا بنیادی سبب ہے بجلی کی چوری بل نہ دینے کی روش انتہائی مہنگے پیدواری وسائل پر انحصار اور بجلی گھروں کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی مخصوص نوعیت ایسے مسائل ہیں جن کے ہوتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی ممکن نہیں ملک میں بجلی کی پیداواری لاگت اور دوسری مسائل اپنی جگہ مگر جب تک اس شعبے پر شفافیت غالب نہیں آتی صارفین کےلئے ریلیف خواب وخیال رہے گا حکومت اور اس کے ذیلی ادارے عالمی بنک کی رپورٹ سے استفادہ کرتے ہوئے اپنی کارگردگی کا جائزہ لیں اور ان خرابیوں کو دور کریں جو پاکستان کی معاشی و سماجی ترقی کا راستہ روکے کھڑی ہیں اور عوام کی اکثریت کو تیزی کے ساتھ خط غربت سے نیچے دھکیلنے کا باعث بن رہی ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے