کالم

پاکستان کی لازوال قربانیاں!

اس میں شبہ نہیں کہ پاکستان نے افغانستان کی روس اور امریکہ کی جنگ میں لازوال قربانیاں دی ہے۔ پاکستان میں لاکھوں افغان پناہ گزینوں کین آباد کاری سے ملکی معیشت اور امن و امان کو نقصان پہنچا، معیشت تباہ ہوئی اور ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر کو فروغ ملا۔وہ وقت یاد کریں جب افغانستان میں اشرف غنی کے فرار کے بعد طالبان طور پرفاتحانہ کابل میں داخل ہوئے تھے ۔ اورپنٹا گان میں جنرل کینیتھ نے افغانستان سے امریکی شہریوں کے انخلا کی تکمیل کے ساتھ بیس سالہ امریکی جنگ کے خاتمے کا اعلان کردیا تھا۔واشنگٹن میں ہونے والے اس اعلان کے بعد کابل میں طالبان سڑکو ں پر نکل آئے اورہوائی فائرنگ کرکے” مکمل آزادی“ کا جشن منایا تھا۔ جب کہ ہمارے ہاں بھی افغانستان میںبظاہر امریکی شکست کواس کے نظام کے زوال کی علامت قرار دیا جا رہا تھااور یہ دعوی کیا جا رہا تھا کہ امریکی نظام شکست و ریخت کاشکار ہوچکا ہے۔ افغانستان میں چالیس سال قبل استعماری طاقتوں نے جس کھیل کی شروعات کی تھیں اس کا اختتام ہو چکا ہے۔ امریکہ نے دورانِ جنگ خطے میں آلہ کار طبقہ پیدا کرنے کے لیے کھربوں ڈالرز خرچ کیے گئے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پچاسی ارب ڈالر کا اسلحہ ناکارہ شکل میں طالبان کے ہاتھ لگا تھا۔ امریکہ نے اس خطے سے لوٹتے وقت ساتھ چلنے والی قوتوں کو زیرنگیں رکھنے کے لیے ایف اے ٹی ایف کا استعمال شروع کردیا ہے جو آج بھی ہمارے لئیے گلے کا روگ ہے۔ دراصل استعمار کے پاس تعمیر کا کوئی پروگرام نہیں ہے۔ اپنے غلبے کے دور امریکہ نے دنیا میں ظلم و زیادتی اور قہر و غضب کی بدترین مثالیں رقم کیں افغانستان، لیبیا ،عراق اور شام کے حالات دنیا کے سامنے ہیں۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاءکے بعد تاثر تھا کہ اب جب کہ امریکہ کو شکست ہو چکی ہے خطے کے ممالک اس سے بھر پور فائدہ اٹھائیں گے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ اس وقت روس ، چین اورایران ایک پیج پر ہیں۔ البتہ یہ بات اہم ہے کہ روس شام میں عالمی استعماری طاقتوں کے دانت کھٹے کرچکا ہے۔ چین معاشی میدان میں معجزاتی حد تک کامیابیاں سمیٹ رہا ہے اور چین نے بار بار استعماری طاقتوں کو متنبہ کیا ہے کہ: ”وہ دن کب کے چلے گئے جب چھوٹے ممالک کے گروہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ چھوٹے، بڑے، مضبوط، کمزور، امیر اور غریب ہر طرح کے ملک برابر ہیں۔ اور یہ کہ عالمی امور پر تمام ممالک کی مشاورت کے بعد فیصلے ہونے چاہئیے ”چین کو دھمکانے کا وقت گیا۔ کسی طاقت نے دھونس جمانے کی کوشش کی تو اس کا سر دیوارِ چین پر مارکر پاش پاش کردیں گے“۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاءکے بعدروس کے صدر ولادی میر پیوٹن نے کہا کہ امریکہ کی افغان جنگ کا نتیجہ صفر نکلا ، 20 سالہ مہم جوئی سانحات پر ختم ہوئی اور افغانیوں کی روایات کو توڑنے کی ہر امریکی کوشش ناکام ہوئی۔اس سے قبل روسی صدر ولادیمیر پیوتن نے افغان مہاجرین کو روس میں آباد کرنے کی مغربی ممالک خواہش کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سویت یونین کی دس سالہ جنگ کے خاتمے کے بعد سے افغانستان کے معاملات میں دخل اندازی بند کر دی ہے۔ جبکہ چین کا کہنا تھا کہ 20 سال سے جاری جنگ کے بعد امریکی فوجیوں کے انخلا نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ افغانستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہوگیاہے اور ایسا ہی ہوا چین اور اگغانستان کے درمیان ہونے والے معاہدے اس کا ثبوت ہے ۔چینی وزارت خارجہ کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں ا± مید ہے کہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت قائم ہوگی جو جامع، قابل رسائی اور وسیع نمائندگی کی حامل ہوگی اور افغانستان ہر قسم کی دہشت گرد قوتوں کے خلاف سختی سے کریک ڈاو¿ن کرے گا۔دریں اثناءچین نے طالبان کے افغانستان میں قبضے کے بعد ان سے دوستانہ اور تعاون پر مبنی تعلقات کو گہرا کرنے کے عزم کا اظہار کیا ۔افغانستان میں طالبان کے قبضے کے بعد کابل میں چین کا سفارت خانہ بند نہیں کیا گیا جو چین کی دور اندیشی کا ثبوت تھا ۔تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ چین کیلئے کابل میں ایک مستحکم اور معاون حکومت بیرون ملک انفراسٹرکچر کی توسیع کی راہ ہموار کرے گی جبکہ طالبان چین کو سرمایہ کاری اور معاشی مدد کا ایک اہم ذریعہ سمجھ سکتے ہیں۔ جو سچ ثاابت ہوئے۔افغانستان میں ببرک کارمل کی حکومت گرانے کے لیے امریکہ نےوہاں دخل اندازی شروع کر دی تھی اور 1979ء میں ” مجاہدین“ کی سرپرستی شروع ہوگئی تھی بعد آزاں ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت‘ 1992ء میں افغانستان کے قصرِ صدارت تک محدود کردی گئی۔ 1996ء میں ” طالبان“ کے ذریعے ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت کو اس کی موت ساتھ ہی ختم کر دیا گیا جبکہ 1992ءمیں ہی مجاہدین کی متوازی حکومت کھڑی کردی گئی۔ اس کی سربراہی شروع میں صبغت اللہ مجددی کو سونپی گئی، جو صرف دو ماہ تک برقرار رہ سکی۔ بعد میں معاملات پروفیسر برہان الدین ربانی کو منتقل ہوگئے۔ 1996ءسے 2001ءتک افغانستان میں ملا محمد عمر کی سربراہی میں امارتِ اسلامیہ کا ”طالبان دور“ شروع ہوگیا۔ 2002ءمیں حامد کرزئی کی سربراہی میں اسلامی عبوری حکومت کا آغاز ہوااور کرزئی کے بعد اشرف غنی کی حکومت قائم کی گئی جس کا خاتمہ پندرہ اگست2020ءکو ہوا جب وہ افغانستان سے بھاگ گئے اور طالبان فاتحانہ انداز میں کابل میں داخل ہوئے۔ امریکہ نے 31 اگست کی ڈیڈلائن مکمل ہونے سے پہلے ہی افغانستان سے اپنا انخلا مکمل کرلیا جس کے بعد سب کو اب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی۔عالمی میڈیا جن طالبان کو سامنے لا یا بیس سال قبل انھیں کی حکومت ختم کرکے کرزئی حکومت قائم کی گئی تھی۔ القاعدہ اور اسامہ بن لادن کو پناہ دینے کے جرم میں طالبان کو دہشت گرد قرار دیکر افغانستان کے اقتدار سے بے دخل کر دیا تھا، انہی کے ہاتھوں میں سلطنت دوبارہ سونپ دی۔ آج اسی بساط پر نئے انداز میں دوبارہ کھیل شروع کرایا گیا۔ ایک طرف امریکہ مستقبل میں یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ہمارے جانے کے بعد کسی میں اتنی استعداد نہیں ہے کہ وہ ہماری جگہ لے سکے۔ گویا خطہ مستقل بداَمنی کا شکار رہے گا۔ مگر علاقائی طاقتوں چین، روس اور ایران نے یہ تہیہ کیا کہ خطے کا مستقبل عالمی امن اور استحکام میں مضمر ہے۔ لہٰذا یہ ممالک خطے میں ا سی کے حصول کی حکمتِ عملی پر گامزن دکھائی دیتے ہیں۔ دوحہ معاہدہ میں امریکی افواج کی واپسی کیلئے محفوظ راہ فراہم کرنے کے علاوہ طالبان کا یہ بھی معاہدہ تھا کہ وہ افغانستان کی سر زمین کو کسی دوسرے ملک کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔اس وقت حالات یہ ہے کہ امریکہ کے افغانستان سے انخلاءکے بعدپیدا شدہ حالات سے ہم نے فائدہ نہیں اٹھایا لاکھوں مہاجرین کو پاکستان نے پناہ دی مگر اس کا صلہ کیا ملا اس پر ہمیں سوچنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri