کالم

پروفیسر خورشید احمد،ایک عہدجوتمام ہوا

عصرِ حاضر تجھے کیا معلوم ہم کیا لوگ تھے
جو صدی آئی نہیں اس کی صدا ہم لوگ تھے
پروفیسر خورشید احمد کی والدہ سرور جہاں کا تعلق ترکیہ(ترکی)سے تھا۔ پروفیسر خورشید احمد کے نانا سید فیض اللہ آفندی ترکیہ کے ایک معزز اور بااثر خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ پروفیسر خورشید احمد کی رحلت سے وہ عہد تمام ہوا جس نے سید مودودی کے قافلے میں ان کی حیات میں اپنی شعوری زندگی کے سفر کا آغاز کیا تھا۔ پروفیسر خورشید احمد کا خاندان قیامِ پاکستان کے بعد لاہور آیا اور ایک سال کے بعد کراچی منتقل ہو گیا۔ ان کی والدہ سرور جہاں کا انتقال 1960 میں کراچی میں ہوا اور اس کے دو سال بعد 1962 میں ان کے والد کا انتقال بھی کراچی میں ہوا۔
پروفیسر خورشید احمد بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلی مودودی کے بعد سب سے زیادہ متاثر چودھری غلام محمد سے تھے جن کے بارے میں پروفیسر صاحب نے اپنے مضمون میں انہیں اپنا مربی اور رہنما قرار دیا تھا۔ اور اس میں کیا شک ہے کہ چودھری غلام محمد? کو جن لوگوں نے دیکھا ہے وہ اس کی شہادت دیتے ہیں کہ اللہ نے انہیں ایک دل آویز اور لوگوں کے دلوں میں گھر کر لینے والی شخصیت عطا کی تھی۔پروفیسر خورشید احمد کی رحلت پر پاکستان ہندوستان امریکہ یورپ اور مشرق وسطی سمیت ہر جگہ ان کی شخصیت کے اوصافِ حسنی پر لکھا جا رہا ہے۔استاذ محترم الطاف حسن قریشی (مدیر اعلی اردو ڈائجسٹ)نے اردو ڈائجسٹ کے مئی 2025 کے شمارے میں پروفیسر خورشید احمد کی دل آویز شخصیت پر مفصل مضمون شائع کیا ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی میں اپنی سرکاری ملازمت کے باعث باقاعدہ شامل تو نہیں ہوا تاہم سید مودودی کی شخصیت سے قیام پاکستان سے قبل ہی اسکول کے زمانے سے واقف ہوا اور انہیں پڑھنے لگا۔ میرے بڑے بھائی حافظ افروغ حسن قریشی (صحابیات پر لکھی جانے والی مستند کتاب کے مصنف) قیامِ پاکستان سے قبل ہی جماعت اسلامی کے رکن بن گئے تھے۔ میرے دوسرے بڑے بھائی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی بھی جماعت اسلامی کے زیر انتظام لاہور سے شائع ہونے والے روزنامہ تسنیم سے وابستہ تھے اور خود الطاف حسن قریشی صاحب قیامِ پاکستان کے بعد مولانا سیدابوالاعلی مودودی کے مسجد مبارک میں ہونے والے درسِ قرآن میں باقاعدگی سے شرکت کرتے رہے ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو وہ اس نسل کے آخری شخصیت ہیں جنہوں نے جماعت اسلامی کے قیام سے لے کر آج تک اس کے تمام نشیب و فراز کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ محترم پروفیسر خورشید احمد صاحب کو اللہ نے علم و حکمت کے ساتھ ساتھ نرم خوئی کی دولت سے بھی بڑی فیاضی کے ساتھ سرفراز فرمایا تھا جس نے ان کو اپنے جاننے والوں میں ہمیشہ محبوب بنائے رکھا۔ ان کے والد محترم ایک بڑے تاجر تھے جو دہلی میں ٹینری کے ہول سیل کے کاروبار سے وابستہ تھے۔ ان کے مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی اور آل انڈیا مسلم لیگ کے دیگر زعما سے قریبی تعلقات تھے۔ ان کا شمار تحریک پاکستان میں فیاضی کے ساتھ مالی معاونت کرنے والوں میں ہوتا تھا۔ پروفیسر خورشید احمد صاحب دہلی میں بچہ مسلم لیگ کے صدر تھے اور ساتھ ہی اپنے والد کی وجہ سے ان کا تعلق سید مودودی سے بھی قائم ہو گیا جس کا تذکرہ محترم پروفیسر سلیم منصور خالد (مدیر ترجمان القرآن)نے اپنے مضمون میں کیا ہے۔پروفیسر خورشید احمد چار بھائی تھے، بہن کوئی نہیں تھی۔ ان کے سب سے بڑے بھائی ضمیر احمد مرحوم تھے دوسرے نمبر پر پروفیسر خورشید صاحب تھے تیسرے بھائی ممتاز طارق تھے جو صحافت سے وابستہ تھے اور 1966 میں صحافیوں کے قافلے کے ساتھ پی آئی اے کے اس جہاز میں سوار تھے جو قاہرہ جاتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گیا تھا۔ ان کے چوتھے بھائی ڈاکٹر انیس احمد اللہ کے فضل و کرم سے حیات ہیں اور اسلام آباد کے رفاہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں۔ پروفیسر خورشید صاحب کو اپنے سب سے چھوٹے بھائی ڈاکٹر انیس احمد سے کس قدر محبت تھی اس سے وہ تمام حضرات بخوبی واقف ہیں جن کا کسی درجے میں بھی خورشید صاحب سے تعلق و رابطہ رہا۔6 جنوری 1964 کو جنرل ایوب خان نے جماعت اسلامی پر پابندی لگا کر مجلس شوریٰ کے تمام ارکان کو گرفتار کیا ان میں پروفیسر خورشیدصاحب بھی شامل تھے۔ خورشید صاحب نے 9ماہ کی قید کے دوران کتاب تذکرہ زنداں لکھی اس میں اپنے بھائی انیس احمد کا تذکرہ جس محبت سے کیا ہے اس سے بھی بہ خوبی اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں انیس احمد سے کس قدر محبت تھی۔ ان کے بڑے بھائی وائس ایڈمرل ضمیر احمد صاحب زمانہ طالب علمی میں خورشید صاحب سے پہلے اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم رہے۔ البتہ خورشید صاحب ناظم کراچی کے بعد کل پاکستان اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہے۔اللہ نے پروفیسر خورشید صاحب کو تین بیٹے اور تین بیٹیاں عطا فرمائیں جو سب شادی شدہ اور انگلینڈ میں مقیم ہیں۔ خورشید صاحب کی اہلیہ کا انتقال چند سال قبل ہو گیا تھا جس کی وجہ سے خورشید صاحب کو پاکستان سے انگلینڈ منتقل ہونا پڑا۔ تاہم ان کا دل و دماغ ہمیشہ پاکستان میں ہی رہا۔ اس کا اندازہ ان تمام لوگوں کو ہے جن سے ان کا انگلینڈ میں بالمشافہ یا ٹیلی فون کے ذریعے رابطہ رہا ہے۔پروفیسر خورشید احمد نے عملی صحافت کا آغاز زمانہ طالب علمی میں اپنے حقیقی بھائیوں کی طرح عزیز دوست ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری کی ادارت میں شائع ہونے والے اسلامی جمعیت طلبہ کے ترجمان پندرہ روزہ اخبار اسٹوڈنٹس وائس کے شریک ایڈیٹر کے طور پر کیا تھا جو کثیرالاشاعت اخبار تھا اور طلبہ اور انگریزی دان طبقے میں بے حد مقبول بھی۔ (جاری ہے)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے