کالم

پر امن آزادکشمیر میں پر تشدد مظاہرے

ول تو ترقی یافتہ ممالک میں ایسی کسی صورتحال کا تصور کرنا بھی مشکل ہے کہ حکمران اپنی حکمرانی میں اس قدر مست ہو جائیں کہ انہیں اپنی رعایا کی ضرورتوں مجبوریوں اور مسائل کی خبر ہی نہ ہو ترقی یافتہ تو کیا بہت سے ترقی پذیر ممالک میں بھی حکمران اپنی حکومتیں چلانے تاریخ کے صفحات میں مسکراتے ہوئے چہروں کےساتھ نظر آنے کے لیے اپنے محدود وسائل کے باوجود اپنی رعایا کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کے لیے شب و روز مصروف رہتے ہیں دنیا اکیسویں صدی میں جا رہی ہے شہر دیہات تو ایک طرف جنگلوں ویرانوں میں بھی مواصلات کے تیز ترین نیٹ ورک نے رسائی پا لی ہے اور صورتحال یہاں پہنچی ہے کہ ایک گھاس کاٹنے والے سے لے کر گدھا گاڑی چلانے والے تک کو پوری دنیا کی خبریں اور حالات و واقعات کا علم ہوتا ہے ایسے میں وہی حکمران طویل عرصہ تک حکمرانی کر سکتے ہیں جو عام آدمی کے حالات سے باخبر رہ کر ان کے لیے آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔اگرچہ آزاد کشمیر میں معاملات طے پا جانے کے بعد ہڑتال ختم کر دی گئی ہے،لیکن دیکھیں نا جی کہ آزاد کشمیر جسے ہم اپنی شاہ رگ کہتے ہیں اور مقبوضہ کشمیر جسے آزاد کرانے کے لیے ہم کتنی جنگیں لڑ چکے ہیں میں لاکھوں کشمیری اپنے حکمرانوں کی بے حسی اور حکومتی پالیسیوں سے بے یقینی سے تنگ ا ٓکر گزشتہ چار روز سے سراپا احتجاج رہے، سڑکیں بند کاروبار بند رہا، نظام زندگی معطل ریاستی اداروں کے ملازمین کے ساتھ خون ریز جھڑپیں مار دھاڑ اور پیدل مارچ کر کے مظفرآباد کا محاصرہ کرنےوالے یہ لوگ عام کشمیری تھے۔یہ سب کوئی اچانک باہر نہیں نکلے گزشتہ کئی ماہ سے وہ مطالبہ کر رہے تھے کہ ہمیں سستی بجلی سستی اشیائے خردونوش حفاظت کفالت کی سہولتیں دینے کے علاوہ اشرافیہ کی شاہ خرچیوں کو بھی ختم کیا جائے دیکھا جائے تو عام آدمی کے یہ مطالبات تو جائز ہیں اور دیکھا جائے تو گزشتہ کئی ماہ سے وہ اپنے مطالبات کو اچھے طریقے سے بیان بھی کر رہے تھے اور دیکھا جائے تو مذاکراتی کمیٹی بھی بن چکی تھی جو مذاکرات مذاکرات کھیل کر معاملہ کو ڈنگ ٹپاو¿ پالیسی کے تحت وقت گزاری بھی کر رہی تھی لیکن جب عام آدمی کے اندر محرومیاں غصے میں تبدیل ہوئیں تو اس وقت ہی حکمرانوں اور ذمہ داروں کو معاملات ٹھیک کر لینے چاہیے تھے لیکن ایسا نہیں ہوا کالم نگاری میں میرے استاد اور آئیڈیل منو بھائی مرحوم و مغفور کہا کرتے تھے کہ حکمران کی حکمرانیاں عوام کی نبض سے منسلک ہوتی ہیں جو حکمران اپنی توجہ عوام کے چولہوں پر رکھتے ہیں وہ کامیاب ہوتے ہیں اور جواسے نظر انداز کرنے کی غلطی کرتے ہیں ان کا اقتدار کسی بیوہ کی بددعا کی طرح اچانک تختے پلٹ دیتا ہے ۔منو بھائی کہا کرتے تھے کہ محرومیاں غصے کو جنم دیتی ہیں تو غصہ نفرت کو پیدا کرتا ہے نفرت انتقام پیدا کرتی ہے انتقام پر تشدد مظاہروں کو لاتا ہے تشدد مظاہرے جان لیوا حادثات میں تبدیل ہوتے ہیں جان لیوا حادثات کو روکنے کیلئے جب حکمرانوں سے تنگ آئے ہوئے افسر انہیں لاٹھی گولی انسو گیس اور واٹر کیرن کے استعمال کا مشورہ دے کر سمجھاتے ہیں تو عوامی سمندر بپھر کر اپنی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹوں کو خش و خاشاک کی طرح بہا لے جاتا ہے جس سے وقت سے پہلے منظر اقتدار پر بہت سی تبدیلیاں پیدا ہو کر تخت سے تختہ بھی کر دیتی ہیں اور تقریبا ًیہی کچھ آزاد کشمیر میں بھی شاید ہو ا ۔چالیس لاکھ آبادی والی ریاست کی کل آبادی راولپنڈی سے بھی کم ہے جسے محض ایک کمشنر باآسانی کنٹرول کر رہا ہوتا ہے ان 40 لاکھ کشمیریوں میں غالباً 10 لاکھ سے کچھ زیادہ بیرونی ممالک خاص طور پر لندن کینیڈا امریکہ فرانس جرمنی بیلجیم یا ہالینڈ میں رہتے ہیں اور یہ دس لاکھ کشمیری تارکین وطن ان ممالک میں رہ کر اپنی خون پسینہ کی کمائی
زر مبادلہ کی صورت میں وطن عزیز میں بھیج کر ملک کی خدمت کر رہے ہیں لیکن تکلیف دہ بات یہ ہے کہ یہاں رہنے والے کشمیریوں کو تعلیم صحت صاف پانی سڑکیں پل اورٹرانسپورٹ دیگر بنیادی شہری سہولتیں نہ ہونے کے برابرہیں جبکہ اسکے برعکس ریاست میں 35 سے زیادہ وزیر مشیر ہونے کےساتھ ساتھ وزیراعظم اور صدر بھی موجود ہیں جن کی تنخواہوں اور مراعات پر ہر ماہ کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں ایک ریاست کے سوا کھرب روپے کے بجٹ میں سے عام کشمیری کو کچھ خاص حاصل نہیں ہوتا البتہ اشرافیہ اور سرکاری اعلیٰ ملازمین زیادہ تر حصہ تنخواہوں اور مراعات کی شکل میں لے جاتے ہے لیکن اسکے باوجود یہ کشمیری عرصہ دراز سے یہ محرومیاں مجبوریاں بے حسی برداشت کرنے پر مجبور رہتے ہیں دیکھنے والی بات یہ ہے کہ ان مظاہروں کو نہ تو کوئی سیاسی جماعت لیڈ کر رہی تھی اور نہ ہی حکومتی وزراءان کا حصہ بنے بلکہ عام آدمی پورے آزاد کشمیر سے قافلوں کی صورت میں جوق در جوق سفر کرتے مظفرآباد پہنچے۔ جب حالات زیادہ بگڑے تو صدر اور وزیراعظم پاکستان نے بھی فوری نوٹس لے لیا، مذاکراتی ٹیمیں راولہ کوٹ اور مظفرآباد پہنچ گئیں۔پھر مطالبات جائز ٹھہرنے کے بعد مان بھی لئے گئے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ چار روز سے پوری وادی بند کرنے پہیہ جام ہڑتال کرنے پرتشدد مظاہرے ہونے کا انتظار کیوں کیا گیا سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان کے اندر بھی مہنگی گیس مہنگی بجلی مہنگی اشیا خوردونوش جیسے وہی مسائل درپیش ہیں کیا پاکستانیوں کے مسائل حل کرنے کیلئے بھی کچھ ہوگا یا پھر ابھی انتظار کرنا پڑے گا اس لیے کہ لاٹھی گولی آنسو گیس واٹر کینن مسائل کا مستقل حل نہیں ہوتے دلوں پر حکمرانی کرنے کے لیے عوام کو کچھ دینا پڑتا ہے۔ ان سب واقعات کی اعلی سطحی تحقیقات بھی ہونا چاہیے اور ذمہ دار با اقتدار لوگوں کا محاسبہ بھی ہونا چاہیے جن کی غلطی اور نااہلی سے ایسے پرتشدد واقعات نے جنم لیا اس لیے کہ آزاد کشمیر میں ان عوامی ہنگاموں کا فائدہ بھارت اور ہمارے دشمنوں نے اٹھایا اور دنیا بھر میں ہماری جگ ہنسائی ہوئی جو کسی صورت بھی ملک و قوم کیلئے اچھی بات نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri