کالم

چمکی ذرا سی دھوپ تو سائے مےںآ گئے

دنےا بنانے والے نے اس کو چلانے کےلئے جو نظام بنا رکھا ہے ۔اس نظام قدرت مےں اور اس کے مقررہ اوقات مےں کوئی تبدےلی کر سکا ہے اور نہ ہی کوئی تبدےلی کر سکے گا اور نہ ہی قدرت والا اس نظام قدرت مےں تبدےلی کرنے کا کسی کو اختےار دےتا ہے لےکن دنےا داروں نے دنےاوی نظام چلانے ،حکومتےں بنانے اور انہےں چلانے کا جو نظام قائم کر رکھا ہے ،ےہ نظام اوقات ،اس کے مقررہ اوقات بدلتے رہے ہےں اور بدلتے رہےں گے کےونکہ دنےاوی نظام مصلحتوں پر قائم ہوتا ہے جب کوئی مصلحت دےکھتا ہے چلا جاتا ہے اور جب کوئی مصلحت سمجھتا ہے چلا آتا ہے ۔قانون قدرت سے کسی کو بھی مفر نہےں ہے ۔قدرت کے اپنے فےصلے اور ضابطے ہےں جو پورے ہو کر رہتے ہےں ۔قدرت کے ےہ فےصلے ،اصول اور ضابطے کبھی نوشتہ دےوار کی صورت مےں سامنے آتے ہےں اور کبھی مکافات عمل کی شکل اختےار کےے ہوتے ہےں ۔ملکی سےاسی ہواﺅں کے رخ تبدےل ہو رہے ہےں اور موسم بھی بدلنے لگے ہےں ۔اقتدار کی بلند ہواﺅں اور رنگےن فضاﺅں مےں مفاد کا دانہ چگنے والے اور اڑانےں بھرنے والے بدلتی ہواﺅں ،بدلتی فضاﺅں اور بدلتے موسموں کے سندےسے ملتے ہی ہمنواﺅں سے بچھڑ جانے اور نقل مکانی کےلئے تےار بےٹھے ہےں اور اکثرےت اڑانےں بھر چکی ہے ۔ کمر باندھے ہوئے چلنے کو ےاں سب ےار بےٹھے ہےں
بہت آگے گئے باقی جو ہےں تےار بےٹھے ہےں
اقتدار کی مےووں بھری شاخ کے متلاشی پرندے تو پرانی شاہوں سے اب اڑ ہی جائےں گے اور انتخابات کی اگلی معےاد تک ان کے اب قلےل رہ جانے والے ہمنواﺅں کو ان کے وچھوڑے کے دکھ برداشت کرنا ہی پڑےں گے ۔رخصتی کے ےہ آخری لمحات تو وفا دارےاں نبھانے اور قربانےاں دےنے کا تقاضا کرتے ہےں لےکن گلشن سےاست کے کاروبار مےں نہ تو کوئی وفادارےں نبھاتا ہے اور نہ ہی اپنے مفادات کی قربانی دےتا ہے ۔شکےل جلالی مرحوم نے بہت ہی خوبصورت شعر کہا تھا ،ہم جنس اگر کوئی نہ ملے آسمان پر ،بہتر ہے خاک ڈالےے اےسی اڑان پر۔ےہ بات تو بہت خوبصورت ہے لےکن ےہ ان فصلی پرندوں کی بات نہےں جو موسم بدلتے ہی اپنی جنس بھی بدل لےتے ہےں اور جن کا مقصد فقط اڑانےں بھرنا اور چوری کھانا ہوتا ہے ۔رخصتی کے آخری لمحات مےں جب ہر جانب چل چلاﺅ کا عالم ہے نئے بندھنوں کے اندراج کےلئے سےاسی جماعتوں کے قائدےن ناموں کے اندراج کےلئے رجسٹر تھام چکے ہےں ۔اگر طاقت کو مرکز مان کر اس سےاسی چوکور کے تمام کونوں کی پےمائش کی جائے تو مرکز سے ان کونوں کا فاصلہ تقرےباً برابر نکلے گا ۔چنانچہ رخصتی کے ان آخری لمحات مےں جو ساز بج رہے ہےں اور جو دھنےں رقص کر رہی ہےں ان مےں عوام کی اکثرےت کا پسندےدہ ساز اور دھن صرف اےک ہی ہے کہ جائےں تو جائےں کہاں ؟رخصتی کے ان آخری لمحات مےں رخصت ہونے والے بعض ارکان کے اشک بھری آنکھوں سمےت جذبات کچھ اےسے ہےں جےسے بابل کی چوکھٹ چھوڑ کر پےا کے دےس جانے والوں کے ہوتے ہےں ۔آج عجےب بات ےہ وقوع پذےر ہوئی کہ عمران خان کو چھوڑنے والوں مےں سے کسی کےلئے بھی کہےں سے ،لوٹالوٹا کی صدائےں بلند نہےں ہوئےں اس کی وجہ شاےد ےہ ہے کہ پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کی اکثرےت نے کسی جماعت کا حصہ بننے کی بجائے سےاست کو ہی خےر باد کہہ دےا ہے ۔پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کے متعلق کچھ لوگ کہہ رہے ہےں کہ ناقابل برداشت دباﺅ ڈال کر انہےں عمران خان کو داغ مفارقت دےنے پر مجبور کےا گےا ۔ےہ سمجھ سے بالا ہے کہ وہ کونسا دباﺅ ہے جو عمران خان پر مر مٹنے والوں کےلئے چند دنوں مےں ہی ناقابل برداشت ہو گےا ۔ ےہاں اگر ماضی کے حوالے سے دےکھا جائے کہ خورشےد شاہ جےسے بزرگ سےاستدان نے اےک قابل ضمانت کےس مےں ضمانت نہ ملنے پر 2019ءسے 2021ءتک جےل مےں رہنا برداشت کر لےا مگر کوئی بھی دباﺅ انہےں ان کو پارٹی چھوڑنے پر مجبور نہ کر سکا ۔ان کے علاوہ پےپلز پارٹی کے ڈاکٹر عاصم ،شرجےل نواز مےمن اور اسی طرح مسلم لےگ ن کے خواجہ آصف اور احسن اقبال جےسے کئی لوگوں کی مثالےں پےش کی جا سکتی ہےں جنہوں نے ہر قسم کا دباﺅ برداشت کرتے ہوئے اپنی پارٹےوں کے ساتھ وفاداری نبھائی ۔جو لوگ آناً فاناً تحرےک انصاف اور عمران خان کا ساتھ چھوڑ رہے ہےں ان کےلئے ےہی سمجھنا بہتر ہے کہ جس طرح وہ کسی کی انگلی پکڑ کر تحرےک انصاف مےں داخل ہوئے تھے اسی طرح محض کسی کی انگلی کے اشارے سے ان کی واپسی ہو گئی ۔سرد ہوائےں چلنے پر عمران خان پر مر مٹنے کے دعوے کرنے والے اکثرلوگ خزاں کے زرد پتے ثابت ہوئے ،اتنے ہی بس جری تھے حرےفان آفتاب ،چمکی ذرا سی دھوپ تو سائے مےں آ گئے ۔جس پارٹی کے سنئےر نائب صدر ،سےکرٹری جنرل ،صوبائی صدر اور دےگر عہدےدار محض تےن چار دن کی جےل ےاترا کے بعد بنےادی رکنےت سے مستعفی اور سےاست سے ہی کنارہ کش ہو جائےں ،اسے رےت کا گھروندا قرار دےنے والے غلط نہےں کہہ رہے ۔تحرےک انصاف کا کوئی عہدےدار ،سابق رکن اسمبلی،ٹکٹ ہولڈر ،مےڈےا کے سامنے آتا ،رٹا رٹاےا بےان پڑھتا اور اخبار نوےسوں کے سوالات کے جوابات دئےے بغےر گھر چلا جاتا ہے ۔پی ٹی آئی کے اےسے بہت سے کارکن جو امپورٹ اور اہم عہدوں پہ فائض کئے گئے ،کچھ معاون خصوصی بھی رہے جب ان سب نے حالات اور وقت کا جائزہ لےا کہ پی ٹی آئی تو پورے شکنجے مےں آ گئی تو انہوں نے وقت سے پہلے بھانپ لےا اور دوڑ لگا کر لندن کو دوبارہ اپنا مسکن ٹھہراےا ۔کچھ لوگ وعدہ معاف گواہ اور کچھ چےنلز پہ آ کے عمران خان دور مےں کی گئی کرپشن کے قصے اور سربستہ راز افشا کرنے مےں مشغول ہےں ۔عثمان بزدار جو پی ٹی آئی کے دور حکومت مےں وزےر اعلیٰ پنجاب رہے ،چئےرمےن پی ٹی آئی انہےں اپنا وسےم اکرم پلس قرار دےتے تھے اور وہ بھی اےک اہم فےکٹر ہے کہ پی ٹی آئی کی نوبت بہ اےنجا رسےد، انہوں نے بھی کوئٹہ مےں پرےس کانفرنس مےں سےاست سے ہی علےحدگی کا اعلان کےا اور شےخ رشےد نے انہےں بزدلوں کے امام کا خطاب دےا ۔
وہ لوگ بھی پی ٹی آئی کا ساتھ چھوڑ گئے جو کہا کرتے تھے کہ اگر مجھ سے پی ٹی آئی چھڑوانی ہے تو مےرے ماتھے پر گولی مار دو ،انہوں نے ماتھے پر گولی کھائے بغےر ہی اپنی پارٹی چھوڑ دی ۔دراصل وفادارےاں تبدےل کرنے والوں کا کوئی نظرےہ نہےں ہوتا ۔ےہ ہمےشہ اسی فارمولے کو اپناتے ہےں کہ ”چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کی “ ہمےں وہ کل بھی ےاد ہے کہ جب کوئی تحرےک انصاف مےں شامل ہوتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ کپتان نے اےک اور وکٹ گرا لی ہے اور آج مکافات عمل ہے کہ وکٹ گنوانے کی باتےں ہو رہی ہےں ۔ےوں تو گھس بےٹھئے ہر سےاسی جماعت مےں ہوتے ہےں لےکن تحرےک انصاف تو جماعت ہی گھس بےٹھےوں کی تھی ۔تحرےک انصاف مےں وہ کونسا اےسا پنچھی ہے جس نے ٹھکانے نہےں بدلے ۔ اس دور مےں تو پےپلز پارٹی ،نواز لےگ ،قاف لےگ اور دےگر سےاسی جماعتوں سے وابستہ پنچھی اےک ہی اڑان مےں تحرےک انصاف کے درخت کی چھاﺅں مےں اپنا گھونسلا تبدےل کر گئے ۔ےہ وہی لوگ ہےں جو کہتے تھے کہ مر جائےں گے مگر عمران خان کا ساتھ نہےں چھوڑےں گے ۔معزز قارئےن وقت بدلتا ہے ۔9مئی سے قبل عمران خان اس زعم اور خوش فہمی مےں مبتلا تھے کہ عوام کی اکثرےت ان کے ساتھ ہے اور فوج مےں بھی وہ بہت مقبول ہےں ۔وہ خود کو ترکی کے صدر طےب اردوان سمجھنے لگے تھے ۔ان کا خےال تھا کہ جب وہ انقلاب کے نام پر سڑکوں پر آئےں گے تو ادارے کے سربراہ کے خلاف بغاوت ہو جائے گی لےکن ان کا ےہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوا ۔اب ان کے قرےبی ساتھی اےک اےک کر کے ان کا ساتھ چھوڑ چکے ہےں کےونکہ وہ نہےں چاہتے کہ ناکام بغاوت کی پاداش مےں ان پر بھی مقدمے قائم ہوں ۔پاکستان کی سےاسی تارےخ مےں کئی بڑے لےڈرز کو مائنس کرنے کی کوشش کی گئی ،کسی کو پھانسی دےکر ،کسی کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر اور کسی کو عدالتی سزاﺅں کے ذرےعے لےکن مائنس وہی ہوتا ہے جسے عوام مائنس کرتے ہےں ۔الطاف حسےن اور عمران خان اےسے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے