سپریم کورٹ کے چیف جسٹس بندیال صاحب رخصت ہوئے اور بروز اتوار نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے اپنے عہدے کا حلف صدر پاکستان عارف علوی صاحب سے لیا۔ اس موقع پر چیف جسٹس صاحب کی بیگم سرینا صاحبہ نے جس طرح مشکل گھڑی میں اپنے شوہر کا ساتھ دیا آج شوہر نے حق ادا کرتے ہوئے خوشی کے موقع پرحلف لیتے ہوئے ساتھ کھڑا کیا۔اس روز یہ معجزہ دکھائی دیا ورنہ تو بعض شخصیات کی یہی خواہش تھی کہ قاضی صاحب چیف جسٹس نہ بنے مگر قدرت نے قسمت میں چیف جسٹس بنا لکھ رکھا تھا اور سترہ ستمبر کو چیف جسٹس بنے میں کامیاب ہوئے چیف جسٹس صاحب کی بیگم نے انہیں چیف جسٹس بنانے میں اہم رول ادا کیا چھڑی کی مدد سے کٹہرے میں کھڑی ہو کر سوالات کے جوابات دیا کرتی تھی ۔ آج واقع ہی اپنے شوہر کے ساتھ کھڑا ہونا بنتا تھا۔چیف جسٹس بنے کے بعد پہلا فل کورٹ بنچ بنایا اور اس کی سارا دن میڈیا پر لائف کورج کی۔ ایسا پاکستان کی تاریخ میں یہ سب کچھ پہلی بار ہوا۔ یہ ہوا کا تازہ جھونکا لگا۔اس سے قبل سپریم کورٹ بار نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے اعزاز میں فیر ویل ڈنر 13 ستمبر کو سپریم کورٹ کے اوپن ایریا میں دیا، باراس ڈنر کا نام گڈ ٹو سی یو رکھتی تو بہتر ہوتا۔ بندیال صاحب جب رات سات کے پروگرام میں نو بجے تشریف لائے تو وہاں شرکا سبھی پسینہ سے شرابور بیٹھے تھے۔ کچھ کو تو پسینہ شرمندگی سے بہت زیادہ آیا اور کچھ کو گرمی کی وجہ سے زیادہ ایا ۔ پنکھے چل رہے تھے اس کے باوجود گرمی نے اپنا رنگ ایسے ہی دکھایا جیسے چیف صاحب نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل نیب کا فیصلہ دو ایک سے سنایا۔ چیف بندیال صاحب کا اندر اور باہر کا موسم گرم رہا۔ ایسے میں جب ہماری ٹیبل کے قریب سے چیف صاحب کا گزر ہوا تو کہا سر جس پر چیف جسٹس صاحب نے مسکرا کر دیکھا تو میں نے کہا گڈ ٹو سی یو یہ سن کر کہا اس کا ذکر میں اپنی سپیچ میں کرونگا ۔ صدر سپریم کورٹ عابد زبیری نے اپنے خطاب میں گڈ ٹو سی یو کا ذکر بندیال صاحب کے خطاب سے پہلے کر دیا۔ جب بندیال صاحب نے خطاب شروع کیا تو کہا آج میں خطاب نہیں کرونگا بس اتنا کہوں گا گڈ ٹو سی یو۔ یہ بندیال صاحب کا آخری خطاب بطور چیف جسٹس وکلا کو تھا۔بندیال صاحب ڈنڈا ریس کے اخری کھلاڑی تھے۔ امید ہے اپ کے جانے سے یہ ریس ختم ہو جائے گی۔قارئین امید ہے آپ سب ڈنڈا ریس سے واقف ہونگے۔ایک ایسی ہی ریس سپریم کورٹ میں کچھ عرصے سے دیکھی جا رہی تھی۔اس ریس میں ہر بھاگنے والا اپنا ڈنڈا تیزی سے دوسرے تک پہنچاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی کچھ سالوں سے ایسی ہی ریس دکھائی دیتی رہی۔ اس ڈنڈا ریس کا آغاز سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ججز بحالی تحریک سے شروع ہوا پہلا ڈنڈا انہوں نے سابق جسٹس ثاقب نثار تک پہنچایا پھر انہوں نے وہ ڈنڈا جسٹس کھوسہ صاحب کو دیا۔پھر کھوسہ صاحب نے یہ ڈنڈاجسٹس گلزار کو دیا اور جسٹس گلزار نے پھر جسٹس بندیال کو دیا۔ اب چیف جسٹس بندیال صاحب اس ریس کے ڈنڈے کو مزید کسی کو نہیں دے سکے۔ کیونکہ سامنے کوئی ایسا نہیں تھا کہ جس کو لیا ہوا ڈنڈا دوسرے کو دے سکتے۔لہذا اب یہ ڈنڈا ریس ختم ہوچکی ہے اگر کہا جائے کہ ججز بحالی تحریک کا یہ ڈنڈا اپنے منطقی انجام کو پہنچا ہے تو غلط نہ ہو گا۔بندیال صاحب نے اس کھیل کو جاری رکھنے کے لیے قاضی صاحب کو رستہ سے ہٹانے کی ریفرنس کے زریعے کوشش کی تاکہ یہ ڈنڈا ریس جاری رہے مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا اور اب نئے چیف جسٹس قاضی صاحب کے آجانے سے ڈنڈا ریس کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ شائد اس گیم کے خاتمے کی وجہ سے بندیال صاحب کے خطاب میں وہ جوش و جذبہ نہ تھا جو اکثر بنچ میں دیکھتے تھے ۔کچھ موسم نے بھی اس عشایہ تقریب کا ساتھ نہ دیا ہر کوئی پسینے سے شرابور تھا۔اس تقریب میں کوئی ایسا نہ تھاجسے پسینہ نہ آیا ہو۔ کیا کیا جائے ملکی حالات بھی گرم موسم بھی گرم اور عوام بھی گرم۔
اگر گزرے ہوئے سالوں کو بغور دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ ہمارے درمیان کوئی ایسی مخلوق ہے جو سیاسی لیڈر سیاسی جماعتیں بناتی ہے۔عدالتی بنچ بناتی ہے فیصلے کراتی ہے ہوا بھرتی ہے پھر انکو زیرو سے ہیرو اور ہیرو سے زیرو بھی کردیتی ہے۔ جس کی وجہ سے جمہوریت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ایسا کرنے سے جمہوریت اور سیاستدان بدنام ہو چکے ہیں اب عیاں ہو چکا ہے کہ جو کوئی سیاستدان بناتے ہیں جو ان میں ہوا بھرتے ہیں وہی جوڈیشنل سسٹم کو بھی چلانے ہیں۔ وہی اپنی مرضی کے ججز لگاتے ہیں ان سے اپنے مرضی کے فیصلے کراتے ہیں۔ کہا جاتا ہے یہ وہی ہیں جو خود کرپشن کرتے ہیں اور کرپٹ لوگ اداروں پر بٹھاتے ہیں اور بدنام سیاست دانوں سرکاری ملازمین کو کرتے ہیں۔ بابا کرمو نے کہا کبھی ہم نے نہیں سنا کہ جس نے آئین توڑا ہو اس کو اقتدار کے بعد جیل میں رکھا ہو ان پر بھی کبھی نیب کیس بنے ہوں۔ ریٹائر ہونے سے پہلے اپنی اولادوں کو فارن میں تعلیم کے لئے بھیجوا دیتے ہیں۔ریٹائرمنٹ کے بعد خود بھی ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں پنشن لینے پروٹوکول کے ساتھ کبھی کبھی واپس آتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ یہاں جب تک رہتے ہیں بادشاہ بن کر زندگی گزارتے ہیں۔ اب کچھ باتیں بابا کرمو کی ملاقات میں وہ کہتے ہیں قوم کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض یہ ہے کہ نہ یہ خود قانون کے مطابق کام کرتے ہیں اور نہ ہی یہ دوسرے اداروں کو قانون کے مطابق چلنے دیتے ہیں ۔ ایسا کرنے سے تمام اداروں کا نظام درہم بھرہم ہو کر رہ گیا ہے۔ سب سے اہم ادارہ جوڈیشری اور دفاع کا کہلاتا ہے۔ ججز کو آپس میں لڑوایا جاتا ہے۔ جس کی مثال قاضی فائز عیسٰی صاحب کی ہے جن پر صدارتی ریفرنس بنا کر کٹہرے میں اپنے ججز کے سامنے میاں بیوی سمیت کھڑا کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح اسلام اباد ہائی کورٹ کے سینئر جج شوکت عزیز صدیقی کو ججمنٹ مرضی کی نہ لکھنے پر گھر بھیج دیا گیاتھا۔ابھی تک ان کے کیس کا فیصلہ بھی نہیں ہونے دیا گیا۔یاد رہے قانون اور آئین کو لوگ اس وقت نہیں مانیں گے جب تک تمام ملکی ادارے اپنی اپنی حدود میں رہ کر کام نہیں کریں گے۔ جو دوسروں کے کاموں میں گڑ بڑ کرتے ان کو چاہیے کہ وہ اپنا معیار ٹھیک کریں۔ انہیں بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔غلط کام کرنے والوں کوجب تک کٹہرے میں نہیں کھڑا کیا جائے گا ادارے مضبوط نہیں ہونگے۔ جہاں جج اپنے انصاف کی اپیل اوپر والی عدالت میں لگاتے ہوں وہاں کا عدل کا نظام کیسا ہو گا۔ اب چیف جسٹس بندیال کی نوکری ختم پنشن اور ان کی مراعات شروع ۔ نئے چیف جسٹس آف پاکستان کا عدل کا سفر شروع ہو چکا ہے۔پہلا قدم تو بڑا سوچ سمجھ کر اٹھایا ہے۔ کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ امیدیں تو ان سے بہت سی ہیں دیکھتے ہیں پورا اترتے ہیں یا نہیں۔
کالم
چیف جسٹس آف پاکستان نے تاریخ رقم کر دی
- by web desk
- ستمبر 21, 2023
- 0 Comments
- Less than a minute
- 1589 Views
- 2 سال ago