ہم ان دنوں کی بات کرتے ہیں جب سعودی عرب کی زمین ریتلی ضرور تھی، مگر دل روشن اور رشتے خالص ہوا کرتے تھے۔ نہ آسمان سے باتیں کرتے ٹاور تھے، نہ ہر ہاتھ میں موبائل، نہ ہر دل میں غرور۔ تب پاکستان کے بیٹے روزگار، عزت اور حلال رزق کےلئے وہاں گئے اور سچ پوچھیں تو وہاں کے باسی ہماری محنت کے محتاج تھے، ہم ان کے مہمان نہیں، میزبان تھے۔میں خود 25سال اس سرزمین پر رہا۔ وہ دن دیکھے جب مدینہ کی گلیوں سے لے کر مکہ کی پہاڑیوں تک پاکستانیوں کا کردار ایسا تھا کہ مقامی لوگ ہمیں استاد کہتے، بھائی مانتے۔ ہوٹلوں، سراں، مکانات، بازاروں میں ہماری محنت کے نشان ثبت تھے۔1977 میں جب ریال پونے تین روپے کا تھا، ہم یہاں سے 8 ہزار روپے میں ٹکٹ لے کر جاتے تھے۔ آج ریال 75روپے کا ہے، اور ہم ہی شرمندہ کھڑے ہیں۔یہ وہی ہم تھے جنہوں نے ان کے ہوٹل آباد کیے، گاڑیاں چلائیں، گھروں کو سنبھالا۔ یہ وہی ہم تھے جو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کا تصور بھی نہ رکھتے تھے۔ ہمارے بچوں کا رزق ہماری محنت سے جڑا تھا، کسی احسان سے نہیں۔ اور آج جب ہمیں کمزور کہہ کر طعنہ دیا جاتا ہے تو دل زخمی ہوتا ہے۔سعودی حکومت برسوں سے ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم اور صفر میں وزٹ ویزے اور عمرے پر پابندیاں لگاتی رہی ہے۔ مقصد ظاہر تو حج کا نظم و ضبط تھا، مگر اصل زد ہمیشہ ان پر پڑی جو کبھی ان کی خدمت کرتے تھے۔ آج الزام دیا جاتا ہے کہ پاکستانی مانگتے ہیں، قانون توڑتے ہیں۔ کیا یمنیوں کو کبھی اس لیے نکالا گیا کہ وہ مانگتے تھے؟ فلسطینی عورتیں رمضان میں مانگتی ہیں، مگر ان پر پابندی کیوں نہیں؟ اصل بات یہ ہے کہ جب الزام لگانا ہو، تو کمزور کو نشانہ بنانا آسان ہوتا ہے۔کہتے ہیں پاکستانی وزٹ ویزے پر حج کر لیتے ہیں۔ مگر انہیں لے جانے والے کون ہیں؟ جموم کے ریگستانی راستے سے یا مکہ کے دروازوں سے وہ خود نہیں جاتے، مقامی مافیاز لے کر جاتے ہیں۔ انہی راستوں پر، انہی "پوائنٹس” پر ہر سال لاکھوں ریال کا کاروبار ہوتا رہا، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ بھی اس میں شریک ہوتے رہے۔ لیکن الزام صرف ہمارے لوگوں پر آیا۔ریال کی قیمت اور ہماری بے وقعتی کا سفر بھی کوئی حادثہ نہیں۔ وہ دن یاد کرو جب ریال پونے تین روپے کا تھا۔ آج 75 روپے پر ہے۔ یہ ہماری معاشی بربادی، بددیانت حکمرانوں، اور قومی غیرت کی پامالی کی قیمت ہے۔ جدہ، مکہ، مدینہ ہر شہر میں ہمارے حکمرانوں نے جائیدادیں بنائیں، دولت کے انبار لگائے، اور انہی کے ذریعے پاکستانیوں کو نیچا دکھایا گیا۔عزیزیہ سٹیل مل میں انڈین انجینئر کام کرتے تھے۔ میں خود گواہ ہوں کہ 2002 میں ایک بھارتی چیف انجینئر وہاں ایکسیڈنٹ میں مرا، اور وہاں ہندو برملا کہتے تھے ”میاں شریف ہمارے بھگوان ہیں“۔ انہوں نے ان کی مورتیاں بھی بنا رکھی تھیں۔ یہ وہ سچ ہے جسے آج بھی کوئی زبان پر لانے کو تیار نہیں۔ میرے ایک پرانے دوست، نعیم بٹ، جو حال ہی میں شوگر کی زیادتی سے دنیا سے رخصت ہوا، اس نے خدا کی قسم کھا کر مجھے یہ بات بتائی تھی۔یاد کرو وہ وقت جب حاجی بندرگاہ پر اترتے تو بدو ان کے سامان پر حملہ کرتے تھے۔ آج جب ان کے ہاں ترقی آ چکی ہے، تو ہمیں طعنے دیے جا رہے ہیں۔ ہم نے کبھی ان کے فاقہ زدہ ماضی کا مذاق نہیں اڑایا۔ بہاولپور، حیدرآباد کے نواب خیرات بانٹنے جاتے تھے، آج انہی کے وارثوں کو خیرات کا طعنہ سننا پڑ رہا ہے۔اور پھر پچھلے سال کی وہ گستاخی، جب ایک پڑوسی ملک نے فلم بنا کر ہمیں گالی دی۔ میں نے اس وقت نہ صرف اخبارات میں اشتہارات دیے، بلکہ جدہ کی ایک تقریب میں دو ٹوک کہا:”ہم پاکستانی جس کا کھاتے ہیں، اسکے گن گاتے ہیں، پاکستانیوں کو دوسروں کے ساتھ مت ملائیے!”یہ صرف ایک جملہ نہیں، ہماری قومی غیرت کا آئینہ ہے۔ ہم وفادار ہیں، مگر غلام نہیں؛ صابر ہیں، مگر بے غیرت نہیں۔آج اگر ہم مجبور ہو گئے ہیں، تو یہ ہماری محنت سے پیدا کردہ خوشحالی کا صلہ نہیں، بلکہ ہمارے حکمرانوں کی نااہلی اور عالمی سیاست کی چالاکیوں کا نتیجہ ہے۔مگر یاد رکھو!ہم نے مکہ و مدینہ کے راستے اپنے پسینے سے دھوئے تھے، بازاروں کو اپنے ہنر سے بسایا تھا، اور ہوٹلوں کو اپنی دیانت سے چلایا تھا۔یہ کالم ان تمام پاکستانیوں کے لیے ہے جو آج بھی وہاں ہیں، محنت کر رہے ہیں، عزت کما رہے ہیں اور ان بچوں کے لیے بھی، جنہیں یہ سکھایا جا رہا ہے کہ تم مانگنے والی قوم ہو۔نہیں بیٹا!ہم وہ قوم ہیں جس نے دوسروں کو دینا سکھایا، عزت دی، روزگار دیا۔ اگر آج ہم مجبور ہیں تو یہ ہماری عادت نہیں، حالات کی مار ہے۔دعا ہے کہ اللہ ہمارے وطن کو سربلند کرے، اور ہماری آئندہ نسلیں اپنے بزرگوں کی قربانیوں پر فخر کریں۔وقت ایک سا نہیں رہتا۔ کل تم ہمارے در پر تھے، آج ہم تمہارے در پر ہیں۔ مگر کل پھر ہم سر اٹھا کے چلیں گے۔