کالم

کشمیریوں کے مطالبات

آزاد و مقبوضہ کشمیر یا اوورسیز میں مقیم کشمیری اپنی آزادی اور حق خودارادیت کے ساتھ ساتھ اپنی شناخت اور حقوق کے لئے بھی تگ ودو کررہے ہیں اسی جدوجہد میں انہیں غداری اور وفاداری کے تمغوں،لیبلوں اور سرٹیفکیٹوں سے بھی نوازا جاتا ہے بھارت نے کشمیریوں کے ساتھ ڈائیلاگ اور مزاکرات کی ساری راہیں اس وقت بند کردی ہیں جب اس نے اپنے آئین میں تبدیلی کرکے مقبوضہ کشمیر کو یونین ٹریٹری میں تبدیل کردیا تھا اور اب الیکشن کروا کر بظاہر عمر عبداللہ کو ایک بار پھر کٹھ پتلی وزیراعلی تعینات کردیا ہے جبکہ سارے انتظامی اختیارات سٹیٹ گورنر کے پاس ہیں حتی کہ پولیس بھی سٹیٹ گورنر کے ماتحت ہے تازہ ترین ڈویلپمنٹ میں جماعت اسلامی پر پابندی کے بعد وہاں سے مولانا ابو اعلی مودودی رحمتہ اللہ کی کتابیں اور بک اسٹالز بھی اپنے قبضے میں لے لیے ہیں مودی کے دور حکومت میں مقبوضہ کشمیر میں آبادی کا تناسب بھی تبدیل کر دیا گیا ہے اور پورے کشمیر کی آوازیں دبانے کی ناکام کوششیں بھی ہورہی ہیں وہاں تعمیر و ترقی زور و شور سے جاری ہے جو کشمیریوں کو لولی پاپ دینے کی کوشش ہے تاکہ کشمیری اپنی آزادی کی تحریک کو بھول جائیں جو آزادی کا نعم البدل قطعا نہیں بھارت تو کشمیریوں کی بات نہیں سن رہا ہے لیکن پاکستان تو آزاد کشمیر کے لوگوں کی بات سنتا ہے اس لئے پاکستان سے ترش و تلخ اور شیریں گلے شکوے و شکایتیں بھی رہتی ہیں جنہیں پاکستان کے ارباب اختیار خاص کرکے عسکری قیادت کو مثبت انداز میں لینا چاہیے اور مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر سے متعلق اپنی ترجیحات اور پالسیوں کا ازسرنو جائزہ لینا چاہئے جنرل باجوہ کے دور سے خاص کرکے اگست 2019کے بعد بھارتی اقدامات سے کشمیریوں کو پاکستان سے متعلق بہت مایوسی اور شکایات ہیں ایسے میں آزادکشمیر یا اوورسیز میں کشمیری جو کشمیر کی تحریک میں پشتی بان کی حیثیت رکھتے ہیں اور پاکستان کے بلا معاوضہ سفیر کہلاتے تھے وہ ناراض ہیں اور ایسا ہم نے 2019 کے بعد دیکھا ہے حالیہ دنوں میں آزاد کشمیر میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی ہڑتالوں اور مطالبات سے انحراف اور خاص کرکے جس طریقے سے ان ہڑتالوں اور مطالبات کو ہینڈل کیا گیا ہے اس نے جلتی پر تیل چھڑکا ہے اس سے کشمیری حلقوں میں غم و غصہ بڑھا ہے ۔ اس لئے ایک تو کشمیر کی تحریک کو اپنی مرکزی قومی پالیسی کے طور پر جاری رکھیں صرف ایک دن 5 فروری کو کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی سے کام نہیں چلے گا دوسرا آزاد کشمیر اور اورسیز کشمیریوں سے متعلق کچھ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے آزاد کشمیر کے لوگوں کی محرومیوں کو ختم کیا جائے داخلی خود مختاری دی جائے۔ اسی تناظر میں کچھ مطالبات منظر عام پر لائے گئے ہیں جو توجہ طلب ہیں۔
کشمیر کی تحریک آزادی کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے والوں میں ایک معروف نام امریکہ شگاگو میں مقیم جاوید راٹھور کا ہے جو جموں و کشمیر یکجہتی کونسل کے چیئرمین ہیں انہوں نے امریکہ میں رہ کر کشمیر کاز کے لئے بہت کام کیا ہے وہ ان دنوں چند ماہ سے پاکستان میں ہیں اب انہوں نے آزاد کشمیر میں اسٹیٹس کو کو توڑنے کے لیے مظفرآباد میں ایک پریس کانفرنس کر کے ہلچل مچا دی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے انہوں نے آزاد کشمیر و گلگت بلتستان کو پاکستان کی سینیٹ اور قومی اسمبلی میں نمائندگی دینے کا مطالبہ کیا ہے جبکہ اوورسیز کشمیریوں کے لئے بھی نمائندگی کا مطالبہ کیا ہے اور پاکستان میں مقیم مہاجر ین کی سیٹیں ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے جاوید راٹھور نے اپنی پریس کانفرنس کے بعد آزاد کشمیر ، پاکستان کے آئینی ماہرین اور سیاسی شخصیات سے بھی ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کیا ہے جس میں سابق سپیکر سید فخر امام، سابق چیف جسٹس منظور گیلانی، سابق سپریم کورٹ بار کے صدر اور سینیئر وکیل عارف چوہدری ایڈووکیٹ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے رہنماں اور دیگر شامل ہیں اور وہ آزاد کشمیر پاکستان کے دیگر علاقوں میں بھی اپنی مہم شروع کررہے ہیں تاکہ اس بارے میں رائے عامہ ہموار کی جائے یاد رہے جاوید راٹھور آزاد کشمیر اوورسیزمیں کوئی نو وارد نہیں ہیں۔
انکا آبائی تعلق آزادکشمیر کے ضلع حویلی کے ایک بہت ہی پسماندہ اور چھوٹے سے گاﺅں چھمبر سے ہے جنہوں نے اپنے کیریئر کا آغاز شعبہ صحافت سے کیا مختلف اخبارات میں بطور رپورٹر اور سب ایڈیٹر کام کیا اور خود بھی اسلام آباد سے ماہنامہ اور ہفت روزہ کے ایڈیٹر اور پبلشر رہے ہیں پھر 1990میں آزادکشمیر کے وزیراعظم کے پریس سیکرٹری رہے۔ 1992میں محترمہ بینظیر بھٹو نے انہیں اپنے سکرٹریٹ میں کشمیر ڈیسک کا چیئرمین مقرر کیا اسی دوران انہوں نے Kashmir Myth & Realityکے نام سے کشمیر پر ایک کتاب بھی لکھی اور کشمیر کے حوالے سے پارٹی اور حکومت کو بہت ساری تجاویز بھی دیتے رہے جن میں پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے قیام کا فیصلہ بھی تھا وہ نوابزادہ نصراللہ خان کی کشمیر پارلیمانی کمیٹی کے اس وفد میں بھی شامل تھے جو 1995 میں اقوام متحدہ امریکہ اور مختلف یورپین ممالک کے دورے پر گیا تھا پھر 1996 میں محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد 1997 میں وہ امریکہ چلے گئے جہاں وہ مستقل آباد ہو گئے جاوید راٹھور نے امریکہ میں رہ کر بھی کشمیر کاز کو نہیں چھوڑا اور کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کے لیے کشمیر یکجہتی کونسل کی بنیاد رکھی اور کشمیر کے حوالے سے بہت کام کیا۔ انہوں نے اپنی جیب سے 2 کروڑ روپے خرچ کر کے 10 کلو میٹر ایک سڑک اپنی نگرانی میں اپنے علاقے حویلی میں بنوائی ہے امریکہ میں ان کا حلقہ احباب اور کام کافی عرصے سے تسلیم کیا جاتا ہے وہ امریکہ میں ایک کامیاب بزنس مین ہیں اور پاکستان کے استحکام کے لئے آئین و قانون کی پاسداری اور جمہوریت کی بحالی کےلئے ہمیشہ متحرک رہتے ہیں انہیں امریکہ سمیت اوورسیز پاکستانیوں اور کشمیریوں میں جانا اور پہچانا جاتا ہے ان کے مطالبات پاکستان کی کشمیر پالیسی میں نئی جہت کے طور پر تسلیم کرنے میں کیا حرج ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے