کالم

کشمیری بنیادی حقوق سے محروم کیوں؟

مقبوضہ کشمیرمیں سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ بھارت کی طرف سے 27اکتوبر 1947کو سرینگر میں اپنی فوجیں اتارنے کے بعد سے مقبوضہ جموں و کشمیر ظالمانہ فوجی محاصرے میں ہے۔ سات دہائیوں سے زائد عرصے سے بھارتی فوج کے جابرانہ قبضے میں رہنے والے کشمیریوں کا دکھ درد ان کی زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے۔ کشمیریوں کو وحشیانہ طریقے سے دبانے کےلئے 10لاکھ سے زائد بھارتی فوجی مقبوضہ جموں وکشمیر میں تعینات ہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو دفعہ370کی منسوخی کے بعد صرف دھوکے، مشکلات اورپریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پانچ اگست کے بھارتی غیر قانونی اقدامات کے بعد 13ہزار نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں نہ صرف سیاستدان بلکہ انسانی حقوق کے کارکن بھی گرفتار ہیں۔ بھارتی حکومت خوف کا شکار ہے۔ وہ آر ایس ایس اور ہندو توا کا ایجنڈا نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں ڈومیسائل قانون میں تبدیلی کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس سے غیر کشمیریوں کو ملکیتی حقوق مل جائیں گے۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں ادویات اور اشیاءضروریہ کی قلت ہے۔مگر بھارتی حکومت کو صرف وادی میں بزور شمشیر قبضہ کی جلدی ہے۔ عالمی برادری کا ضمیر نجانے کہاں سو گیا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کا کوئی نوٹس ہی نہیں لے رہی۔ ریاستی دہشت گردی، ماورائے عدالت قتل اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت سے جواب مانگا جائے۔ مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت حل عالمی برادری کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی پولیس نے ضلع بارہمولہ سے تین نوجوانوں کو گرفتار کر لیا۔ گرفتارنوجوانوں کی شناخت ضمیر احمد کھانڈے، محمد نسیم اور منظور احمد بھٹی کے ناموں سے ہوئی ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس نے کہا ہے کہ کشمیریوں کو بغیر کسی وجہ کے لوگوں کو بے رحمی سے قتل کیا جا رہا ہے۔ دنیا بدترین صورتحال کا نوٹس لے۔ایک خوشحال اور مضبوط پاکستان کشمیری عوام کے بہترین مفاد میں ہے اور کشمیری ہمیشہ پاکستان کی خوشحالی اور استحکام کی دعا کرتے ہیں۔علاقے کی موجودہ حکومت تمام محاذوں پر ناکام ہو چکی ہے۔قابض فوجیوں نے اگست 2019میں مودی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیرکی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے کشمیریوں کے خلاف ظالمانہ کارروئیوں کو تیز کر دیا ہے۔ سیاسی ماہرین اور تجزیہ کاروں نے کہا کہ بھارتی فوجیوں نے ہر قسم کے وحشیانہ ہتھکنڈے استعمال کر کے کشمیر کو اس کے باشندوں کے لیے ایک جہنم میں تبدیل کر دیا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ کشمیری مقبوضہ علاقے میں روزانہ کی بنیاد پرقتل عام، ماورائے عدالت قتل، شبانہ چھاپوں اور تشدد کا سامناکر رہے ہیں۔ دنیا کب تک مقبوضہ جموں وکشمیرمیں فوجی درندگی پر خاموش رہے گی؟ فوجی طاقت کے وحشیانہ استعمال سے کشمیریوں کے مطالبہ آزادی کو دبایا نہیں جا سکتا۔ وقت آگیا ہے کہ مقبوضہ جموں وکشمیرمیں جاری تشدد اور ظلم وبربریت کودنیا بھر میں اجاگرکیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی تحقیقاتی ادارے نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی نے کئی مقامات پر چھاپے مارے اور ایک درجن کے قریب کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کر لیا۔ادھربھارتی فوج نے شمالی کشمیر میں کشمیری رہنما پیر عبدالصمد انقلابی کے گھر پر حملہ کر کے گھر کی توڑ پھوڑ کی اور سامان توڑ پھوڑ دیا۔ پیر عبدالصمد انقلابی اسلامی تنظیم آزادی جموں کشمیر کے چیئرمین ہیں۔ سمبل سوناواری ضلع بانڈی پورہ میں پیر عبدالصمد انقلابی کے گھر سے فورسز نے ان کا موبائل فون قبضے میں لے لیا ہے۔این آئی اے کے اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کے ہمراہ سرینگر کے علاقوں بٹہ مالو ، باغ مہتاب اور ضلع کپواڑ ہ کے علاقے کرالہ پورہ میں چھاپے مارے اور کشمیری نوجوانوں کو گرفتار کر لیا۔تلاشی کے دوران سیل فونز، سم کارڈز، بینکنگ چینلز کے استعمال کو ظاہر کرنے کے ریکارڈ اور یہاں تک کہ ایک ڈمی پستول بھی قبضے میں لے لیا گیا ،جبکہ بھارتی ریاست مدھیہ پردیش میں زیر تعلیم کشمیری طالب علم طفیل مقبول کے خلاف بھارت سے بغاوت کا مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔سوال یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ ان مظالم پر کیوں خاموش ہے؟ انسانی حقوق کے دعویدار کہاں ہیں؟ پاکستان نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی ذرائع پر عائد کردہ کڑی پابندیوں کو اپنے غیرقانونی اقدامات کو چھپانے کیلئے بطور ہتھیار استعمال کررہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے