کالم

کیا بھارت مکمل طور ہندو راشٹر بن رہا ہے؟

riaz-chuadary

یہ بات دنیا سے ڈھکی چھپی نہیں کہ 2014 ئ کے بعد جب سے بی جے پی برسرِ اقتدار آئی ہے تب سے مسلم مخالف جذبات میں بھی شدت دیکھنے کو ملی ہے۔2014ءکے بعد 2019ء میں دوبارہ نریندر مودی کا وزیر اعظم منتخب ہونا اور اسی طرح 2017ء کے بعد 2022ءمیں بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں ہندو انتہا پسند اور کٹر مسلم مخالف یوگی آدتیہ ناتھ (جس کو مرکز میں مودی کے متبادل کے طور پر دیکھا جا رہا ہے) کے دوبارہ وزیر اعلیٰ بننے سے واضح ہوتا ہے بھارت مکمل طور ہندو راشٹر بننے کی جانب گامزن ہے۔
بھارت میں کانگریس کے رہنما راہول گاندھی نے کہا ہے کہ جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے ملک میں نفرت اور اشتعال انگیزی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کے رہنما ملک کو تقسیم کر رہے ہیں اور جان بوجھ کر خوف پیدا کر رہے ہیں۔ لوگوں کو ڈراتے ہیں اور نفرت پیدا کرتے ہیں۔ بھارت میں ڈر بڑھتا جا رہا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور مستقبل کا خوف بڑھتا جا رہا ہے۔
حالیہ انتخابات میں 5 میں سے 4 ریاستوں اترپردیش، اتراکھنڈ، منی پور اور گوا میں بھارتیہ جنتا پارٹی اقتدار میں واپس آگئی ہے۔ عام طور پر یہی تاثر اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس فتح سے مسلمانوں کے حالات مزید گھمبیر ہونگے۔بھارت میں ریاستی انتخابات سے قبل یہ تاثر زد عام تھا کہ اگر مخصوص قسم کا زعفرانی رنگ کا لباس پہننے والے یوگی آدتیہ ناتھ خصوصاً اتر پردیش میں دوبارہ اقتدار میں آتے ہیں تو مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کے خلاف مبینہ ظلم و تشدد کا سلسلہ تیز ہو جائے گا۔ اگر ان کے پچھلے پانچ سالہ مسلم مخالف اقدامات کا ذکر کریں تو ان میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی، لو جہاد، گھر واپسی اور بین المذاہب شادیوں پر پابندی نمایاں ہے۔ ان کے 5 سالہ دورِ اقتدار میں مسلمانوں پر مشتعل ہجوم کے ہاتھوں تشدد اور ان کے خلاف نفرت بھری تقاریر سر عام ہوتی رہی ہیں۔ مغل دور کا تعمیر شدہ تاج محل اور بابری مسجد سے نفرت یوگی آدتیہ ناتھ کی مسلم مخالف جذبات کی ایک چھوٹی سی مثال ہے۔
نریندرا مودی کی مرکزی حکومت کے مسلم مخالف سینکڑوں واقعات میڈیا میں رپورٹ ہو چکے ہیں جن میں نمایاں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد غیر قانونی اور غیر انسانی کرفیو کا نفاذ اور شہریت ترمیمی قانون کے تحت 30 لاکھ مسلمانوں کی بے دخلی کی راہیں ہموار کرنا شامل ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ آج منافرت اور انتہا پسندانہ سوچ کی وجہ سے بھارتی معاشرہ تقسیم ہوچکا ہے۔ سخت گیر ہندو آئے روز عوامی جلسوں میں مسلمانوں کا سیاسی، سماجی، معاشرتی اور معاشی سطح پر بائیکاٹ کا اعلان کر رہے ہیں۔”ہم آج سے عہد کرتے ہیں کہ ہم مسلمانوں کی دکانوں سے کسی قسم کا کپڑا، جوتا اور دیگر سامان نہیں خریدیں گے اور نہ ہی انہیں کسی قسم کا سامان فروخت کریں گے“۔
بھارتی انتہا پسند جماعتوں بی جے پی اور آر ایس ایس کا ریکارڈ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں سے بھرا پڑا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کے خلاف روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک، تشدد اور قتل جیسے واقعات کے بعد ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی عالمی تنظیمیں تشویش کا اظہار کر چکی ہیں۔بھارت میں لاکھوں افراد کو بھوک اور مصائب میں پھنسانے والی مودی سرکار اپنی ناکام پالیسیوں کو چھپانے کے لیے نت نئے سماجی اور مذہبی مسائل پیدا کررہی ہے۔
بھارتی حکمراں جماعت نے اقتدار میں آنے کے بعد بابری مسجد پر بھی قبضہ کیا۔ بابری مسجد کے سلسلے میں مسلمانوں کو انصاف فراہم نہیں کیا گیا۔ بھارت میں مسلمانوں اور اقلیتوں کو آئے روز جبر و ستم یا تعصب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ہندوتوا یا اکھنڈ ہندو مملکت کی علمبردار مودی حکومت کی شہ پر اقلیتوں کو کورونا وائرس کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ہندو اکثریتی علاقوں سے مار مار کر نکالا جارہا ہے۔ انھیں سبزی، پھل اور کھانے پینے کی دوسری اشیا خریدنے نہیں دی جارہی ہیں اور مسلمان مریضوں کو سرکاری اسپتالوں میں علاج کی سہولت دینے سے انکار کیا جارہا ہے۔ بھارت کی حکمراں جماعت بی جے پی اور اس سے منسلک ہندو انتہا پسند تنظیمیں بھارت میں نفرت کی دیواریں تعمیر کررہی ہیں۔
بھارت میں مسلمانوں سمیت دیگر اقلیتوں کو بھی سیاسی اور سماجی طور پر امتیازی سلوک کا سامنا ہے جن میں بھارت کے 23 کروڑ دلت بھی شامل ہیں۔ بی بی سی کے مطابق دلت کمیونٹی سماجی زینے میں نیچے سے نیچے چلی جا رہی ہے اور اکثر فرقہ وارانہ تشدد کا نشانہ بنتی ہے۔مسلمان تو ایک طرف، صرف ایک گائے کو جواز بناکر دلت اوردیگر اقلیتوں کو زدوکوب کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ انہیں جان سے مار دیا جاتا ہے۔ ہندو غنڈوں کا ہجوم اکٹھا ہو کر اقلیتی افراد کو مارتا ہے اور ان کو جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کرتا ہے۔ خواتین اور بچوں پر جنسی حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مذہبی عدم رواداری، منافرت اور انتہا پسندی کے بعد یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت بھارت میں اقلیتوں سے زیادہ گائے محفوظ ہے۔ یہ اس ملک کی منظر نگاری ہے، جو کبھی سیکولر ملک ہونے پر ناز کرتا تھا، جبکہ اب یہ ایک متعصب ریاست کا روپ دھار چکی ہے، جہاں اقلیتوںپر عرصہ حیات تنگ کیا جاچکا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri