بھارت میں ایک اور قدیم مسجد شہید کرنے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں جس کے باعث مسلمانوں میں اشتعال پایا جا رہا ہے جبکہ پولیس سے جھڑپوں میں ہلاکتوں کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں۔اتر پردیش کے سنبھل شہر کی پولیس کے مطابق ہندو پنڈٹ نے عدالت میں درخواست دائر کی17ویں صدی کی شاہی جامع مسجد ایک ہندو مندر پر تعمیرکی گئی۔ عدالت نے مسجد کے سروے کا حکم دیا جس پر ایک ٹیم مسجد میں پہنچی اور مسلمان مشتعل ہوگئے اس بات پر تحقیق ہو رہی تھی کہ آیا 17ویں صدی میں مندر پر مساجد تعمیر کی گئی ہیں۔ تصادم میں 2 افراد کی موت کی تصدیق کی گئی ہے۔ ہندو کارکن گروپوں نے کئی مساجد پر دعویٰ کیا ہے جن کے مطابق صدیوں پہلے مسلم مغل سلطنت کے دوران ہندو مندروں پر تعمیر کی گئی تھیں۔ سڑکوں پر لڑائی اس وقت شروع ہوئی جب سروے کرنے والوں کی ایک ٹیم ایک مقامی عدالت کے حکم پر سنبھل کی شاہی جامع مسجد میں داخل ہوئی، ایک ہندو پجاری کی جانب سے ایک درخواست کے بعد یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسے ایک ہندو مندر کی جگہ پر بنایا گیا ہے۔ اتوار کو مظاہرین نے پولیس پر پتھراو¿ کیا، جنہوں نے ہجوم کو صاف کرنے کےلئے آنسو گیس کے گولے چلائے ۔ اس سال کے شروع میں جب وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک عظیم الشان نئے ہندو مندر کا افتتاح کیا تو ہندو قوم پرست کارکنوں کا حوصلہ بڑھ گیا۔بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے مراد آباد اور امروہہ قصبے کے درمیان واقع پرسکون شہر سنبھل آج کل بے چینی، خوف اور غیر یقینی کا شکار ہے۔ اور اس کی وجہ شہر کی صدیوں پرانی شاہی جامع مسجد کو لے کر پیدا ہونے والا تنازع ہے۔گذشتہ برسوں کے دوران ایودھیا میں منہدم کی جانے والی تاریخی بابری مسجد کی طرح مغل بادشاہ ظہیرالدین محمد بابر سے منسوب کی جانے والی اس مسجد کے اطراف اب پولیس فورس تعینات ہے۔ یہ ایک اونچے ٹیلے پر واقع ہے اور اسے سنبھل کی جامع مسجد بھی کہتے ہیں۔ اس کا آرکیٹیکچر اور ڈیزائن بابر سے پہلے کے لودھی حکمرانوں کے فن تعمیر سے زیادہ ملتا جلتا ہے۔ یہ تاریخی مسجد محکمہ آثار قدیمہ کی محفوظ تاریخی عمارات کے زمرے میں شامل ہے۔ یہاں ابتدا سے ہی نماز ادا کی جاتی رہی ہے۔ 1976 میں یہاں کے امام کو ایک ہندو ایکٹیوسٹ نے قتل کر دیا تھا۔ اس واقعے کے بعد سے مسجد کے مرکزی دروازے کے پاس پولیس چوکی بنائی گئی جہاں ہمیشہ اہلکار تعینات رہتے ہیں۔فی الحال ممکنہ کشیدگی کے خوف سے مسجد کے اطراف میں رہنے والے بہت سے مسلمان اپنے گھروں سے کہیں اور منتقل ہو گئے ہیں۔یاد رہے کہ 19 نومبر کو سنبھل میں کیلا دیوی مندر کے مہنت رشی راج مہاراج نے کچھ لوگوں کے ساتھ مل کر مقامی عدالت میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں یہ موقف اپنایا تھا کہ مسجد کی جگہ ایک ہندو مندر قائم تھا جسے 1526 میں توڑ کر مسجد تعمیر کی گئی ہے۔انھوں نے اپنی درخواست میں یہ بھی دعویٰ کیا کہ سنبھل کی شاہی مسجد کی جگہ ’ہری ہر‘ نامی مندر ہے لہٰذا بھارت کا محکمہ آثار قدیمہ اس جگہ کا سروے کرے۔مسجد کی انتظامی کمیٹی کے مطابق دوسرے سروے کے دوران جب مسجد کے حوض کا پانی خالی کیا گیا تو یہ افواہ پھیل گئی کہ مسجد کی کھدائی ہو رہی ہے۔ مسجد انتظامیہ نے یہ اعلان بھی کیا کہ مسجد میں کوئی کھدائی نہیں ہو رہی ہے لیکن مسلمانوں کی بھیڑ مشتعل ہو گئی اور پولیس پر پتھراو¿ کرنا شروع کر دیا۔پولیس نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال کیا۔ اس تصادم میں کم ازکم چار مسلمان نوجوان ہلاک ہوئے جبکہ کئی پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ سروے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے تشدد کے واقعے کے بعد شہر میں خوف کا ماحول ہے۔ پولیس نے احتجاج کرنے والے سینکڑوں نامعلوم مسلمان نوجوانوں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اور ڈرون سے لی گئی تصویروں کی مدد سے انھیں تلاش کر رہی ہے۔شہر میں سیاسی اور مذہبی رہنماو¿ں کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ مسجد کے اطراف میں بھاری سکیورٹی تعینات ہے۔ لوگ سہمے ہوئے ہیں اور بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں سب کو اپنے اپنے طریقے سے رہنے اور عبادت کرنے کا حق حاصل ہے لیکن ’اب جو نفرت کی سیاست ہو رہی ہے یہ ملک کے لیے اچھی نہیں ہے۔‘بابری مسجد کا فیصلہ آیا پورے ملک نے دل پر پتھر رکھ کر اسے قبول کر لیا۔ کسی نے اس کی مخالفت نہیں کی۔ لیکن اب بنارس، متھرا اور سنبھل شروع ہو گیا۔ اب ہمیں یہ ڈر ہے کہ کہیں یہ ہماری پانچ سو برس پرانی جامع مسجد پر قبضہ تو نہیں کر رہے ہیں۔ یہ ڈر تو ہے۔‘کچھ مسلم تنظیموں نے اب سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل کی ہے کہ وہ 1991 کے اس قانون کو نافذ کرے جس کے تحت سبھی عبادت گاہوں کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔بابری مسجد کے انہدام سے ایک برس پہلے ملک کی پارلیمنٹ نے مذہبی عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایک قانون منظور کیا تھا جس میں کہا گیا ہے کہ 15 اگست 1947کے وقت جو عبادت گاہ جس شکل میں موجود تھی اس میں اب کوئی تبدیلی نہیں کی جا سکتی۔
دلچسپ اور عجیب
ہندوتوا سے مسلمان غیر محفوظ
- by web desk
- دسمبر 26, 2024
- 0 Comments
- Less than a minute
- 110 Views
- 2 مہینے ago