کالم

یہ سچ ہے

taiwar hussain

کامیاب معاشرہ وہی ہوتا ہے جس دور میں آسانی سے فرائض ادا ہو رہے ہوں اور حقوق بھی ۔ جس دور میں انسان کو حقوق کے حصول کیلئے جہاد کرنا پڑے اسے جبر کا دور کہا جاتا ہے ۔ اگر دعا کا سہارا باقی رہ جائے تو ظالم کا زمانہ ہوتا ہے ۔ جس زمانے میں کچھ لوگ حق سے محروم ہوں اور اور کچھ حق سے زیادہ بلکہ بہت زیادہ حاصل کررہے ہوں اسے افراتفری کا زمانہ کہتے ہیں ۔ جب ہر شئے ، ہر جنس ایک ہی دام فروخت ہونے لگے اسے اندھیر نگری کہا جاتا ہے ۔ حقوق کا تحفظ کرنے والا معاشرہ ایک متوازن اور فلاحی معاشرہ کہلاتا ہے ۔ حقوق کی پامالی نفرت پیدا کرتی ہے اور اسے کی ادائیگی محنت تعلق لگاو¿کے جذبات کو فروغ دیتی ہے ۔ واضح اصول ہے کہ محبت اطاعت پیدا کرتی ہے اور نفرت بغاوت ، یوں تو زندگی میں کئی حقوق واجب الادا ہوتے ہیں لیکن سماج کے حقوق ذات کے حقوق اور خٓلق کے حقوق زیادہ اہم ہیں ۔ سماج کے حقوق میں قوم ملک حکومت اور پاس رہنے والوں کے حقوق اہم ہیں ۔ قوم کو قوموں کی برادری میں معزز مقام دلانے کیلئے کوشش کرنا اور قائم رہنا اور محنت کرتے رہتا ضروری ہے ۔ ہم قبلیوں ، فرقوقں اور مذہبی عصیبتوں میں پٹے ہوئے ہیں ، اگر ہم اپنے آپ کو پاکستان سمجھیں تو پھر سندھی ، بلوچی ، پٹھان ، پنجابی کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے ۔ یہ قوم کا حق ہے کہ ہم انفرادی تشخص کی بجائے اجتماعی شناخت کے حصول کیلئے کوشاں رہیں ۔ ہم وطن پرست رہیں ۔ ہم اپنے مفادات کو پیش نظر نہ رکھیں ملک نے ہمیں ایک قوم اور وحدت بنایا ہے ، اس پاک وطن کے حصول کیلئے لاکھوں قربانیاں دی گئی ہیں ، بہت مشکل مراحل سے قافلہ گزرا لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہم اپنے مفاد کے حصول کیلئے ملکی مفاد کو پس پشت ڈال دیتے ہیں ۔ آدھا گنوا بیٹھے ہیں پھر بھی ہوش نہیں آیا ، ملک سلامت ہے تو ہم سلامت ہیں ، عوام کا حق ہے کہ ان کا ملک محفوظ ہو ، شب روز محفوظ ہوں ، جان مال عزت محفوظ ہوں ، حال اور مستقبل محفوظ ہو، ملک کی بقاکیلئے ہر جان اپنا سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہو لیکن ہمارے ملک میں تو ہر فرد اپنی ذات کے دائر ے میں قید ہے ۔ اپنی ذات کے بھی بڑے حقوق ہیں ، ظاہر اور باطن کے حقوق سے باعزت شہری بناجاتا ہے ،باطن میں احساس کی دنیا زندہ رہنی چاہیے ،سوچنے والا ذہن وہ بھی مثبت سوچ اور محسوس کرنے والا دل ہو جو نصیب والوں کو ہی ملتا ہے ۔ ایک روشن روحانی زندگی بھی ضروری ہے جو کسی روحانی بزرگ کی صحبت سے میسر ہوسکتی ہے ، وہ دنیا کو اتا ہی عزیر رکھنے والا ہو جتنی اس کی کم سے کم ضرورت ہو، ۔۔زندہ ہو تو انسان زندہ ہوتا ہے ورنہ مردے ہی چلتے پھرتے محسوس ہوتے ہیں ۔ سوچ بچار کرنے والے معاشہرے کا سرمایہ ہوتے ہیں ، یہ ایک بڑا کام ہے غور اور فکر میں رہنا اور پھر معاشرے اور اس میں رہنے والے انسانوں کی فلاح ،بہبود کیلئے خیالوں سے عمل کی راہیں نہ صرف تلاش کرنا بلکہ راستے نکالنا صاحب فکر انسان قابل احترام ہوتے ہیں ۔ نہ جانے ہمیں کیا ہوگیا کہ ایسے لوگ نظر نہیں آرہے جو قوم اور ملک کی ترقی خوشحالی اور اسے دنیا کی نظر میں قابل احترام بنانے والے ہوں ۔اللہ کے گھر میں دیر ہے انشا ءاللہ ایسی کوئی شخصیت وقت کے ساتھ سامنے آئے گی جس کی سوچ اپنی ذات کے گرد نہ گھومی ہو بلکہ ہمارے ملک کے غریب عوام اور ملک کی خوشحالی ترقی کیلئے ہو ۔ سات دہائیاں گزر چکیں لیکن ہمارا ملک نہ تو ترقی یافتہ بن سکا اور نہ ہی عوام خوشحال قوم بن سکے ، عوام نے اپنے جن نمائندوں کو منتخب کرکے حکومتیں بنوائیں انہوں نے اس غریب عوام کو دھوکہ دیا اور صرف حیلوں ،بہانوں سے اپنی تجوریاں بھرتے رہے ، ملک سے باہر جاکر پر تعیش قیام گاہیں خریدتے رہے ، نسل درنسل بھوک ،افلاس کو ختم کر ڈالا وہ ایسا پارس بن گئے کہ جو ان کے ساتھ جڑا وہ بھی سونا بن گیا،اب بھی وقت ہے عوام سوچ سمجھ کر اپنے نمائندوں کا انتخاب کریں ،جذباتی ہوکر نہیں معقولیت کے ساتھ ذمہ داری کے ساتھ اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں ، ایک بریانی کی پلیٹ اور چند سوروپوں پر اپنے آپ کا سودا نہ کریں ملک اسی وقت صحیح راستے پر گامزن ہوگا جب لوگ اپنے اچھے ایماندار محنتی ، ملک سے محبت کرنے والے اور عوام کی مشکلات کو صحیح معنوں میں حل کرنے والے منتخب کریں گے ۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے سیاست ایک کاروبار کا درجہ اختیار کرچکی ہے ۔ پہلے تو لاکھوں روپے الیکشن پر صرف ہوتے تھے اب معاملہ کروڑوں تک پہنچ چکا ہے ، لہٰذا جو نمائندہ کروڑوں روپے انتخاب پر خرچ کرکے صوبائی یا قومی اسمبلی میں آئے گا وہ اس انوسٹمنٹ کو اپنے مفاد کے حصول استعمال نہیں کرے گا لیکن اس کا فرض بنتا ہے کہ جو وعدے وہ الیکشن کی مہم کے دورا ن کرتا ہے انہیں پورا کرے صرف کمائی کے چکر میں نہ رہے ، ابھی تک تو یہی کچھ دیکھنے کو ملا ہے ، ملک کی مالی اور معاشی حالت ہمار ے سامنے ہے ، افواہیں گردش کررہی ہیں کہ پاکستان ڈیفالٹ نہ کرجائے ۔ 75برسوں کے گزر جانے کے بعد ہم اس مقام پر پہنچے ہیں کہ ملک کی مالی حالت دگرگوں ہے ۔ سوچنے اور پھر اپنی طرز حکمرانی کو وقت اور حالات کی مطابقت میں ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی منفی شہرت ہماری منفی شہرت ہے کیونکہ ہم پاکستانی ہیں ۔ آنےوالا وقت اللہ کرے بہترین ہو اور ہم مناسب پلاننگ اور ایمانداری سے ملک کو مالی طوفان کے تھپڑوں سے محفوظ کرسکیں ۔ اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ دعاو¿ں کا سننے اور قبولیت کا شرف عطا کر نے والی ذات ہے ۔ ہمارا ملک معاشی لحاظ سے دنیا کے کسی ملک سے کم نہیں ۔ وسائل ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ انسانوں پر سب سے اہم حق اللہ کا ہے ۔ زندگی دینے والا چاہتا ہے یہ زندگی اس پاک ذات کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر گزاری جائے ۔ وہ چاپتا ہے کہ اس کے محبوبﷺ کے بتائے راستے پر گزاری جائے انسان اس ہستی سے تعلق بنائے رجوع رکھے ۔ اللہ سے غافل رہنے والی زندگی حجابات میں کھوجاتی ہے ۔ خالق کے خیال کو چھوڑ کر مخلوق کے خیال میں گم ہونے والا انسان دین،دنیا کے خسارے میں رہتا ہے ۔ ہم اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ عارضی زندگی کو گزارنے کیلئے سب کاوشیں نہیں ہونی چاہئیںبلکہ ابدی حیات حاصل کرنے کیلئے کوشاںہوں۔ وہ اپنے محبوب ﷺ کی محبت سے ہمیں نوازتا ہے وہ ہمیں کامیاب زندگی سے تعارف کرواتا ہے ، ہم پر فرض ہے کہ اللہ کی اطاعت کریں یہ اس اسکا حق ہے ۔ سب کے حقوق سے مقدم حق یہی ہے ۔ اسمیں کوئی معذوری کوئی مجبوری نہیں ، اس حق کو ادا نہ کرنے میں کوئی جواز نہیں ، معقولیت نہیں ، اللہ نے اپنے کرم سے اطاعت کرنے والے انسان کو اشرف بنادیا ہے ، زمین اور آسمان مسخر کرنےوالا انسان جو صرف اللہ کے سامنے تہہ دل سے جھکنے والا اور اس پاک ذات کے بتائے راستے پر چلنے والا ہو جو اس کے محبوبﷺ کی غلامی میں رہنے والا ہو ۔ سرکار دو عالم کے فرمان سے زیادہ معتبر کوئی بات نہیں جو راستہ اور زندگی کے ارشادات فرمادیئے وہی انسان کی کامیابی کا واحد ذریعہ ہے ۔ ہم دنیا اور آخرت میں اسی وقت کامران ہونگے جب اللہ اور اس کے محبوب ﷺ کی غلامی میں آئیں گے ۔ ہمیں خود ساختہ اصول نہیں صرف اللہ کے بتائے ہوئے راستے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

güvenilir kumar siteleri