کالم

آئینی ترمیم پارلیمان کی بالادستی کیلئے اہم سنگ میل

حکمران اتحاد بھرپور جدوجہد اورطویل مشاورتی عمل کے بعد بالآخر 26ویں آئینی ترمیم پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں(سینیٹ اور قومی اسمبلی)سے منظورکرانے میں کامیاب ہوگیا، یہ ترمیم ملکی آئینی اور عدالتی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے،یہ حکومتی اتحاد کی عدلیہ پر پارلیمانی بالا دستی قائم کرنے کا ایک تاریخی آئینی اقدام ہے ، عدلیہ کے حوالے سے اصلاحات انتہائی اہمیت کی حامل ہونے کیساتھ ساتھ وقت کی ضرورت تھی کیونکہ پاکستان میں عدالتوں کی کارکردگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، لہٰذا عوامی مفاد میں آئینی ترمیم پر پیشرفت یقینی بنانے خوش آئند ہے ، آئینی ترمیم سےجہاں ملک کے عدالتی نظام میں نمایاں بہتری کی امیدہے وہیں ممکنہ طورپر پارلیمانی بالادستی یقینی بنانے کے حوالے سے بھی یہ سنگ میل ثابت ہو گی ،یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمان کی بالادستی یقینی بنائی گئی ہے۔آئینی ترمیم کے تحت سنیارٹی کی بنیاد پر چیف جسٹس کی تقرری کی بجائے اب 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی 3 سینئر موسٹ ججوں کے ناموں میں سے ایک کا انتخاب چیف جسٹس کے طور پر کریگی جسکی حتمی منظوری وزیر اعظم اور صدر دینگے ، چنانچہ اس عمل سے عدلیہ کی خود ہی سینئرترین جج کو چیف جسٹس بنانے کی اجارہ داری ختم ہو گئی اوریہ اختیارپارلیمان کو منتقل ہوگیا،اسی طرح سپریم کورٹ کے ججز کی تقرری کے طریقہ کار کو بھی پارلیمان کے زیر اثر لایا گیاہے، سپریم کورٹ کے ججز کا تقرراب کمیشن کرے گا، چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن میں 4 سینئر ترین ججز شامل ہوں گے، وفاقی وزیر قانون اور اٹارنی جنرل کے علاوہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے دو،دواراکین بھی کمیشن میں شامل ہوں گے ،اس حوالے سے بھی پارلیمان کا عمل دخل اہمیت اختیارکرگیاہے ، آئینی ترمیم کے مسودے میں سب سے اہم معاملہ آئینی بینچ کے قیام کاہے ۔ آئینی عدالت کی دنیا میں مثالیں موجود ہیں،دنیا کے 85ممالک میں آئینی عدالتیں قائم ہیں اور یہ کامیاب ماڈل ہے،ابتدائی تجویزپاکستان میں بھی آئینی عدالت کے قیام کی ہی تھی تاہم اتفاق رائے نہ ہونے پر اس شق کو آئینی بیچ میں تبدیل کردیاگیا۔جوڈیشل کمیشن ہی آئین بینچ اور ججز کی تعداد کا تعین کریگا۔آئینی بینچ میں جہاں تک ممکن ہو تمام صوبوں سے مساوی ججز تعینات کیے جائینگے۔ آرٹیکل 184کے تحت از خود نوٹس کا اختیار آئینی بینچ کے پاس ہوگا۔ آرٹیکل 185 کے تحت آئین کی تشریح سے متعلق مقدمات آئینی بینچ کے دائرہ اختیار میں آئینگے۔آئینی بینچ صرف آئینی معاملات کو سنے گا جب کہ دیگر مقدمات سپریم کورٹ معمول کے مطابق سنتی رہے گی ،اس سے عدلیہ کی کارگردگی میں نمایاں بہتری آنے اور عام سائلین کو فوری انصاف ملنے کی راہ ہموار ہوگئی ہے ، سپریم کورٹ پر مقدمات کا بوجھ کم ہوگا،دراصل سیاسی اور آئینی مقدمات کی بھرمار سے اعلیٰ عدلیہ پر مقدمات کا بوجھ تھا جس سے عام سائلین کے مقدمات التوا کا شکار ہورہے تھے۔وزیراعظم یا کابینہ کی جانب سے صدر مملکت کو بھجوائی گئی ایڈوائس پر کوئی عدالت، ٹریبونل یا اتھارٹی سوال نہیں اٹھا سکے گی ،یوں عدلیہ کا حکومت کے انتظامی امور میں عمل دخل ختم ہو جائے گا اور حکومت بھی پوری آزادی کے ساتھ نظم ونسق اور کارکردگی پر توجہ مرکوز کرسکے گی۔آئینی ترمیم پر اتفاق رائے پیداکرنے کے حوالے سے حکومتی اتحادکی کاوشیں قابل تعریف ہیں ، تاہم اس سلسلے میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی کردار سب سے اہم ہے کیونکہ ان کی حمایت کے بغیریہ ترامیم بظاہر ممکن نہیں تھیں ۔ مولانا نے مجوزہ ترامیم کی اہمیت کومدنظر رکھتے ہوئے حکومت ک ساتھ بات چیت کے دروازے بند نہیں کئے اور اپنی تجاویز پیش کیں اور بالآخر اتفاق رائے بھی ہو گیا ، اس سارے عمل میں مولانانے ایک بارپھر ایک زیرک اور تجربہ کار اور بصیرت کے حامل سیاستدان ہونے کا ثبوت دیا ہے ۔ حکومت نے گزشتہ ماہ جس طرح عجلت کا مظاہر کرتے ہوئے آئینی ترمیم کے پیکیج کوپارلیمنٹ سے منظور کرانے کی کوشش کی تھی وہ قطعی طور پر جمہوری تقاضوں اور اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتاتھا، حکومت کی ناقص حکمت عملی اس کےلئے سبکی کا باعث بنی تھی اور اتوار کو چھٹی کے روز خصوصی طور پر بلائے گئے سینیٹ اورقومی اسمبلی کے اجلاس بارہاموخر اور بعد ازاں دونوں ایوانوں کے اجلاس غیرمعینہ مدت کےلئے ملتوی کرناپڑے تھے ، اسی طرح حکومت کی جانب سے آئینی ترمیم کے مسودے کو غیر ضروری طور پر پر اسرار یت کے حصار رکھے جانے سے ابہام پیداہوا تھا ، اس سے افواہوں اور قیاس آرائیوں نے جنم لیا ۔ بدقسمتی سے ایک سیاسی جماعت کی طرف سے اس ضمن میں پروپیگنڈا بھی کیا گیا ، اگر حکومت ابتدا سے ہی مشاورت اور افہام و تفہیم کا راستہ اپناتی اور تمام پارلیمانی جماعتوں کو اعتماد میں لیتی ، آئینی ترامیم کا مسودہ متعلقہ کمیٹی میں جاتا وہاں اس پر غور ہوتا، حزب اختلاف کے ارکان کی بھی تجاویز اور رائے لی جاتیں پھر اس معاملے پر پارلیمان میں بحث کرائی جاتی تاکہ عوام کو پتہ چلتا کہ حکومت آئین میں کیا ترامیم کرنے جارہی ہے اور اس سے انکی زندگیوں پر کیا اثرات ہو نگے؟ تو ممکن تھا کہ حکومت کو اتنی تگ ودونہ کرناپڑتی اور معاملہ غیرضروری تاخیرکا شکار نہ ہوتا، بہرحال دیر آید درست آید کے مصدق حکومت نے آئینی ترامیم پر اتفاق رائے پیداکرنے کے بعد انہیں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظورکرایا جس سے یہ معاملہ خوش اسلوبی سے پایاتکمیل تک پہنچا اوراب صدر مملکت کی منظوری کے بعدنئی قانون سازی کاعملاً نفاذہو گیا ہے ۔ بہترہوتا کہ پی ٹی آئی بھی قانون سازی کے اس اہم عمل کاحصہ بنتی اور متفقہ طور پر آئینی ترمیم منظورکی جاتی جس سے پارلیمان کو مضبوط کرنے میں اس جماعت کا کرداربھی تاریخ کاحصہ ہوتا،اس میں کوئی دورائے نہیں پارلیمنٹ کی بالادستی ہمیشہ سیاسی جماعتوں کے رویوں کی وجہ سے ہی مجروح ہوئی ہے ۔ چنانچہ وقت آگیا ہے کہ سیاسی رویوں کو بدلا جائے ، پارلیمان کی مضبوطی اور بالادستی کےلئے تمام سیاسی قیادت مل کر کام کریں ،ذاتی مفاد کی بجائے قومی مفاد کو ترجیح دی جائے، خاص طورپرقومی وعوامی مفاد میںقانون سازی کے عمل اور آئینی معاملات کو سیاسی رنگ دیکر پروپیگنڈا کرنے کی بجائے اپنی ماضی کی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے تعاون اور رواداری کی سیاست کوپروان چڑھا جائے ۔اس سے پارلیمان اور سیاسی نظام پر عوام کا اعتماد بڑھے گا ، اسی طرح اجتماعی دانش کے بہترین نتائج کے حصول کےلئے بھی باہمی مشاورت اور اتفاق رائے کی خاص اہمیت ہے تاکہ غوروفکر کا دائرہ وسیع ہو اور ممکنہ حد تک موثراوربہتر قانون سازی یقینی بنائی جاسکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے