جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے متنبہ کیا ہے کہ پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی ہوش کے ناخن لیں ورنہ حالات مارشل لاءکی طرف بڑھ رہے ہیں۔پو رے ملک میں ایک ہی روز انتخابات کرائے جائیں تاکہ سیاسی بے یقینی ختم ہو۔ پی ڈی ایم، پیپلز پارٹی قربانی دے، مرکزی اور سندھ اسمبلی تحلیل کرکے نگران حکومتیں قائم کی جائے، سیاست اور جمہوریت پر یقین رکھنے والے تمام سٹیک ہولڈرز شفاف انتخابات کےلیے مذاکرات کریں۔امیر جماعت اسلامی نے چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو جماعت اسلامی کے ہیڈ کوارٹرمنصورہ میں قیام کی دعوت دیتے ہوئے پیشکش کی ہے کہ منصورہ دارالامن ہے، عمران خان یا جس بھی سیاستدان کو جان کا خطرہ ہے وہ منصورہ آ جائے۔ یہاں ان کی زندگیاں محفوظ ہیں ۔الیکشن کمیشن نے ملک کو آئینی بحران میں مبتلا کردیا۔
الیکشن کے حوالے سے سپریم کورٹ کا حکم نہ مانا تو یہ آئین سے بغاوت ہوگی۔ اداروں پر اعتماد ختم ہونا ہماری بربادی کی وجہ ہے۔ آج پیپلزپارٹی، ن لیگ اور پی ٹی آئی کا ووٹر مایوس ہے۔ صرف ایک طبقہ خوشحال ہے وہ حکمران ہیں۔ مسائل سے نکلنے کا واحد حل اسلامی ریاست ہے ۔ملک کو آئی ایم ایف کے قرضوں کی ضرورت نہیں۔ غیر ترقیاتی اخراجات، کرپشن اور پروٹوکول کلچر کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ پانچ لاکھ گاڑیاں وزیروں مشیروں، بیوروکریسی کے پرائیویٹ استعمال میں پٹرول مفت ڈلتاہے۔ گورنرز، سرکاری بابو، وزیر ایکڑوں پر محیط محلات میں رہتے ہیں۔ ان کے لیے دس مرلے کا گھر ہونا چاہیے۔ تازہ ترین حالات نے پاکستان کی سیاست کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے جہاں یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں کیا ہو سکتا ہے۔پاکستان کی معیشت، سیاست اور امن و امان کی صورتحال خراب ہے۔ اس وقت صرف ایک بات کی پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ بحران مزید بڑھے گا۔ یہ جتنا گہرا ہو گا، اتنا ہی انتشار ہو گا، اتنی ہی بدامنی ہو گی۔ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ قرض کے حصول کے لیے ہونے والے مذاکرات کو پٹڑی سے اتار سکتی ہے، جس سے سیاسی صورتحال مزید ابتر ہو گی۔ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کےلئے سب کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔
سیاسی معاملات کے حل کےلئے ”آئینی تقاضے“ ہر صورت مقدم رکھنے سے مثبت نتائج کا حصول ممکن بنایا جاسکتا ہے ،پاکستان‘ آج سیاسی اور معاشی حوالوں سے جس سنگین حالات کا شکار ہے ،ماضی میں اسکی کوئی مثال نہیں ملتی۔”سیاسی اختلافات“ کی آڑ میں ایک دوسرے کا احترام اور اخلاقیات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے اور سیاسی معاملات کو ”نوریٹرن پوائنٹ “ پر لے جانے سے گریز کرنا چاہیے۔ایسا نہ ہو کہ ملکی حالات ابتری کی جانب اس قدر بڑھیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی پاک فوج مداخلت پہ مجبور ہوجائے اور ممکن ہے سیاسی سمجھوتہ کرنے پر مخالف سیاسی کیمپوں کو مجبور کرے یا پھر سے مارشل ر±ول کی طرف چل نکلے اور سیاستدان پھر سے ہاتھ ملتے رہ جائیں اور جانے ملک کس عظیم تنہائی کی جانب لڑھک جائے۔
اسٹیبلشمنٹ کے ملک پرمسلط مصنوعی و نا اہل قیادت کے تمام تجربے ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔آئین و جمہوریت کے مطابق اورمخلص و دیانتدار قیادت کے ذریعے ہی ملک کی ترقی استحکام اورعوام مسائل سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔جماعت اسلامی ملک میں ظلم وجبرکے نظام کے خاتمے اورقرآن وسنت کے نفاذ،آئین وقانون کی حکمرانی اورجمہوریت کی بالادستی کےلیے جدوجہد کر رہی ہے۔ٹرائیکا آئندہ سو سال بھی حکمران رہا ملک آگے نہیں بڑھ سکتا۔ فرسودہ نظام اور اس کے محافظوں سے نجات حاصل کرناہو گی، پاکستان کو اسلامی نظام کی ضرورت ہے۔ کرپشن فری اسلامی فلاحی پاکستان کی منزل کے حصول کے لیے قوم جماعت اسلامی کا ساتھ دے۔ پی ڈی ایم بھی اپنے بلند وبانگ دعوو¿ں کے باوجود عوام کو ریلیف فراہم کرنے میں مکمل طور ناکام ثابت ہوئی ہے۔
22 جماعتوں کی اتحادی حکومت بھی تحریک انصاف کا تسلسل ثابت ہوئی ہے۔ ملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے والی مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے عوام کو مایوسی اور اندھیروں کے سوا کچھ نہیں دیا۔ملکی مسائل کے حل اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کےلئے باہمی مشاورت سے مشترکہ حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔فوری طور پر قومی سطح کا ڈائیلاگ شروع کیا جائے ۔حکمران مہنگائی اور بے روز گاری پر قابو پانے کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ سیاستدان باہمی کھینچا تانی کی بجائے ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے چارٹر آف اکانومی کریں اور مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کریں ۔اس وقت تما م بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما اقتدار کے حصول کے لیے ملک کو مزید بحرانوں کی نذر کر ر ہے ہیں جس کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے غریب عوام کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کر نا مسئلہ بن گیا ہے۔سیاسی قیادت نے اگر ہوش کے ناخن نہ لیے تو خدانخواستہ ملک ایسے بحران میں پھنس جائے گا جس سے نکلنے کے لیے راستہ نہیں ملے گا ۔تمام سیاسی فریقین کو چاہیئے کہ وہ مل بیٹھ کر مذاکرات کے ذریعے مسائل کا حل تلاش کریں اور ملک میں فوری طور پر قومی ڈائیلاگ کا آغاز کیا جائے یہی وہ واحد راستہ ہے جس کے ذریعے ملکی مسائل سے نمٹا جا سکتا ہے۔