کالم

آئین اور قانون پر عملداری وقت کا تقاضا

اکتوبر کو سپریم کورٹ نے 9 مئی کے واقعات میں ملوث اور گرفتار عام شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے خلاف دائر درخواستوں پر محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسے کالعدم قرار دے دیا تھا۔چھ صفحات پر مشتمل اس مختصر فیصلہ میں کہا گیا کہ آرمی ایکٹ کی سیکشن ٹو ڈی کی ذیلی شقیں ایک اور دو کالعدم قرار دی جاتی ہیں۔علاوہ ازیں آرمی ایکٹ کی سیکشن 59(4) بھی کالعدم قرار دے دی گئی۔یہ فیصلہ 1-4کی اکثریت سے سنایا گیا،جسٹس یحییٰ آفریدی نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔سپریم کورٹ کے مذکورہ فیصلے کےخلاف حکومت کی جانب سے فل کورٹ کے سامنے اپیل کی جاسکتی ہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان کے حوالے سے بعض آئینی اور قانونی ماہرین کے مابین مختلف آرا پر بحث تمحیص ہو رہی ہے۔بعض کے نزدیک یہ بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ایک بڑا سنگ میل ہے جبکہ بعض اسے آئین کی روح سے متصادم قرار دیتے ہیں۔ تاہم اگر نو مئی کے واقعات کے تناظر میں فوجی عمارتوں کو پہنچنے والا نقصان دیکھا جائے تو پر تشدد واقعات میںجو افراد حقیقتاً ملوث تھے تو ان افراد کا ٹرائل فوجی عدالتوں میں ہی ہونا چاہیے تھا۔ فوجی عدالتوں میں ٹرائل کی صورت میں یہ مقدمات روزانہ کی بنیاد پر بھی نمٹائے جا سکتے ہیں جبکہ فوجداری عدالتوں میں مقدمات کی سماعت طویل عرصے تک چلتی رہتی ہے۔سابق شہباز حکومت کی قومی اسمبلی نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کے حق میں ایک قرارداد منظور کی تھی، اب شنید ہے کہ نگران حکومت نے نظرثانی کی اپیل دائر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ چونکہ ریاست کا نقصان قانونی دائرے میں ہی جانچا جا سکتا ہے۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے مطابق اس فیصلے کے خلاف ایک اپیل 30 دن کے اندر شروع کی جا سکتی ہے۔حکومت اگر سمجھتی ہے تو اس ضمن میں فوری پیشرفت ضروری ہے اور امید ہے کہ عدلیہ بھی اس فیصلے کے جملہ پہلوو¿ں کو آئین کی روح کے مطابق پرکھ کر بروقت فیصلہ کرے گی۔فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ اور بیرسٹر اعتزاز احسن نے چیلنج کیا تھا،بعض حلقوں کی رائے ہے کہ ان دونوں شخصیات کا ایک خاص طرف جھکا و¿واضح ہے۔کہا جاتا ہے کہ جسٹس جواد نے اپنے عدالتی کیرئیر میں ہمیشہ پارلیمنٹ کو حقارت سے دیکھا اور وہ پارلیمنٹ کے قانون سازی کے اختیار کو قطعی نہیں سمجھتے تھے۔پاکستان آرمی ایکٹ مقننہ کی طرف سے منظور کردہ قانون ہے اور شروع سے ہی نافذ عمل ہے، اس سے بھی انکار نہیںنے کیا جا سکتا کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں سے بار بار اس کی توثیق بھی کی جاتی رہی ہے۔ 2015 میں آئینی ترمیم کے ذریعے فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا، سپریم کورٹ کے ایک فل کورٹ بینچ نے نہ صرف فوجی عدالتوں کی توثیق جو 2019 تک چلتی رہیں، بلکہ تب سیکشن 2(1)d پر کبھی سوال نہیں اٹھایا،اسی طرح ہائی کورٹس نے بھی اکثر کہا ہے کہ آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائل جائز ٹرائل ہیں۔ قبل ازیں سپریم کورٹ نے مسلسل کہا ہے کہ پاکستان آرمی ایکٹ 1952 کے تحت کسی بھی ملزم کے مقدمے کی سماعت کے لیے اس طرح کے مقدمے میں دیے گئے کسی بھی حکم یا فیصلے یا سنائی گئی سزا عدالتی نظرثانی سے مشروط ہوگی۔اس میں شبہ نہیں کہ فوجی عدالتیں کوئی نیا خیال ہیں جو صرف پاکستان میں موجود ہیں۔دنیا بھر میں جہاں بھی مخصوص حالات پیدا ہوتے ہیں وہاں قوانین اپنی فوجوں کو سیکورٹی کی سنگین خلاف ورزیوں کے معاملات میں شہریوں پر مقدمہ چلانے کا اختیار دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ امریکہ بھی شہریوں پر اپنے فوجی دائرہ اختیار کی اجازت دیتا ہے، جس پر یکساں کوڈ آف ملٹری جسٹس کے تحت مقدمہ چلایا جا سکتا ہے ، ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ کے علاوہ کئی ممالک عام شہریوں کے فوجی ٹرائل کی اجازت دیتے ہیں۔ ارجنٹائن، اسرائیل، ترکی، تھائی لینڈ، چین، انڈونیشیا، کویت، سری لنکا، مالی، لبنان، ملائیشیا، روس، ایران، بھارت، کیوبا، جبوتی، اریٹیریا، کینیا، بحرین، چلی، پیرو، میکسیکو، فلپائن، شام، یمن۔ ، بنگلہ دیش، عراق، سعودی عرب، برونڈی، شام، کمبوڈیا، اردن، سوڈان، لیبیا، الجزائر، گوئٹے مالا، کولمبیا، ریاستہائے متحدہ، یونان، وینزویلا اور زمبابوے نے ایسے تمام قوانین نافذ کیے ہیں جو فوج کو شہریوں کا ٹرائل کی اجازت دیتے ہیں۔ اس ضمن میں بھی یہ دلیل دی جاتی ہے کہ یہ ممالک یا تو تیسری دنیا ہیں یا ان پر سخت حکومت ہے اس لیے ان کی مثالوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان ممالک کی مسلح افواج شورشوں یا اندرونی تنازعات میں ملوث رہی ہیں۔ دنیا بھر کی فوجیں اس طرح کے معاملات کو بے لگام استعمال نہیں کرتی ہیں بلکہ صرف مطلوبہ مقاصد کے لیے انتہائی محتاط ہو کر استعمال کرتی ہیں۔ قانون کے اندر رہتے ہوئے جرائم کی روک تھام کا نظریہ ہے۔ پاکستان آرمی 9/11 کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے آغاز سے نمبرد آزما ہے، اس کے علاوہ جاسوسی کے معاملے میں دشمن بھارت کی طرف سے لاحق خطرات کے علاوہ دہشت گردوں اور دشمن کے ایجنٹوں کو یکساں انصاف دلانے کے لیے فوج نے ایسے مقدمات کا سہارا لیا ہے۔فوجی عدالتوں کے حق میں دلائل دینے والے ماہرین کا موقف ہے کہ اس فیصلے کے ذریعے، عدالت عظمیٰ نے اپنی سیکیورٹی فورسز کا ایک بازو کاٹ دیا ہے جو مشکل حالات میں پاکستان کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس ضمن میںسیاسی بحث کے باوجود، قانونی دائرے میں یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ 9 مئی کے واقعات نے بہت سے خدشات لاحق کر دیئے تھے افواج نے تحمل کا ایک شاندار مظاہرہ کیا۔ بصورت دیگراس کے ایک ایسے ملک میں وسیع اثرات مرتب ہوتے ہیں جس کی فوج دہشت گردوں اور دشمن کے ایجنٹوں کےساتھ ایک نہ رکنے والی جنگ میں مصروف ہے۔ کسی بھی قوم کی خودمختاری کو یقینی بنانے کے لیے قومی سلامتی اور بنیادی حقوق کا نفاذ دونوں ہی بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔تمام ریاستی اداروں اور انکے ماتحت اداروں کےلئے لازم ہے کہ وہ معاشرے میں امن، استحکام، سالمیت، اتحاد، احترام، رواداری، بھائی چارے اور نظم و ضبط کو یقینی بنانے کے لیے انصاف، منصفانہ اور قانون میں پیدا کردہ جگہ کے مطابق کام کریں۔ یہ صرف قانون کا نفاذ ہے نہ کہ صرف قانون سازی جو امن کی بحالی اور پاکستان کی قومی سلامتی کو درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کی راہ ہموار کر سکتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے