اداریہ کالم

آئین و قانون کویرغمال بنانے کی اجازت نہیں دینگے ، وزیراعظم کا عزم

idaria

نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے گلگت بلتستان کے دورہ کے موقع پر اس عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی کو بھی آئین و قانون کویرغمال بنانے کی اجازت نہیں دیں گے،کسی بھی نشست کیلئے اب بولی نہیں لگے گی، ہم بولیوں کا گلہ گھونٹنے کیلئے آئے ہیں،حقوق کے نفاذ کی ذمہ داری ریاست کی ہے،اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھائیں گے،غلط فہمیوں کی بنیاد پر دوریوں کاخاتمہ ضروری ہے،حکمت اور ہمت کے ساتھ غلط فہمیوں کا خاتمہ کریں گے،گلگت بلتستان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کریں گے،گلگت بلتستان کے لوگوں کے مسائل آئینی طریقے سے حل کریں گے۔ نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ گلگت کے باسیوں نے جس محبت سے استقبال کیا وہ قابل ستائش ہے،گلگت بلتستان مختلف رنگ ونسل کے لوگوں کا گلدستہ ہے،ایک دوسرے کے حقوق کو یکساں تسلیم کرنا معاشرے کی بنیاد ہے،ایک دوسرے کے حقوق کااحترام ضروری ہے،اکٹھے زندگی گزارنا انسانیت کی معراج ہے۔ حقوق کے نفاذ کی ذمہ داری ریاست کی ہے،اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھائیں گے، گلگت بلتستان کے لوگوں کے حوصلے پہاڑوں کی طرح ہیں۔سیاحت کے غرض سے دنیا بھر سے لوگ یہاں آتے ہیں،اس علاقے کا پرامن ہونا ضروری ہے۔یہاں مختلف لوگوں سے ملاقاتیں ہوئی ہیں، گلگت بلتستان کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے عوام کے مسائل قانونی کی عملداری اور آئینی طریقے سے ترجیحی بنیادوں پر حل کئے جائیں گے، ملک میں ایک قوم ، ایک قانون اور صرف پاکستان کے نعرے کی ہی گنجائش ہے ،گلگت بلتستان کے مسائل ہرممکن حد تک حل کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ یہاں کے لوگ اپنے پاﺅں پر کھڑے ہوں اور ایک پروقار زندگی بسر کریں اوران کی شناخت کے حوالے سے جو سوالات ہیں ان کے بھی جلد آئینی جوابات مل جائیں گے،انہوں نے کہاکہ گلگت بلتستان میں سڑکوں کے بنیاد ی ڈھانچے کو بہتر بنانا وفاقی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے، سپریم ایپلٹ کورٹ میں جج کی تعیناتی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہاکہ اس حوالے سے جلد خوشخبری سنائیں گے۔ قراقرم یونیورسٹی کے مالی معاملات کو حل کیا جائے گا،وزیراعظم نے کہاکہ پاکستان کے اندر صرف پاکستان کے انٹیلی جنس ادارے ہی کا م کرسکتے ہیں اسکے علاوہ کسی ادارے کی کوئی گنجائش نہیں ہے،پاکستان میں صرف ایک قوم،ایک قانون اور صرف پاکستان کے نعرے کی ہی گنجائش ہے۔نگران وزیراعظم نے گلگت بلتستان کا دورہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب وہاں مذہبی و مسلکی کشیدگی پائی جاتی ہے۔اس کشیدگی کو کم کرنے کے لئے وفاق کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے ،بیرونی قوتیں اس کشیدگی کو بھڑکھانے میں مصروف تھیں،امید ہے وزیراعظم کے دورے کے بعد وہاں پائی جانے والی کشیدگی کو کم کرنے میں بھرپور مدد ملے گی۔علاوہ ازیںوزیراعظم نے کئی دیگر اعلانات بھی کئے،جن میں گلگت میں پی ٹی وی کے بیورو آفس کے قیام اورپی ٹی وی پر شینا اور بلتی زبان میں ٹاک شوز شروع کرنے کےلئے ہدایات جاری کی ہیں تاکہ یہاں کے سیاسی ، معاشی اوردیگر مسائل کو اجاگرکیا جاسکے۔اسی طرح گلگت میں مواصلاتی نظام کی تعمیر نو اور بہتری کے لیے حکمت عملی تشکیل دینے کی ہدایت کر دی۔وادیِ ہنزہ کے دورہ کے موقع پرہنزہ کی سیاسی اور سماجی شخصیات سے ملاقات کی، وزیر اعظم نے قراقرم ایریا ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے منصوبے ہنر کھن کا دورہ بھی کیا۔ہنزہ کی سیاسی قیادت اور عمائدین نے ہنزہ میں بجلی کی طلب و رسد، آبادی کے تناسب سے اسمبلی میں اضافی نشستوں کی فراہمی اور دیگر معاملات سے آگاہ کیا، وزیراعظم نے وفد کو گلگت بلتستان میں بجلی کے مسائل کے جلد از جلد حل کی یقین دہانی کرائی متعلقہ حکام کو گلگت بلتستان میں نجی شعبے کےساتھ مل کر مقامی طور پر بجلی کی پیداوار کی حکمت عملی تشکیل دینے کی ہدایت کی، ملاقات میں گلگت بلتستان کی سیاسی قیادت نے وزیراعظم کو سیاحت کے شعبے کو درپیش مسائل کے حوالے سے آگاہ کیا۔وفد نے وزیراعظم سے درخواست کی کہ گلگت بلتستان کے مختلف حصوں کوفضائی رابطوں کے ذریعے منسلک کیا جائے، وزیراعظم نے چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کو ہدایت کی کہ نشاندہی کردہ تمام مسائل کو جلد از جلد حل کرنے کے لئے تمام وسائل کو بروئے کار لائیں، وزیر اعظم نے ہنزہ میں قراقرم ایریا ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کے منصوبے ہنر کھن میں ڈیجیٹل ہب اور خصوصی افراد کی بحالی کے سینٹر کا دورہ کیا۔انوار الحق کاکڑ نے قراقرم ایریا ڈویلپمنٹ آرگنائزیشن کی مقامی آبادی کی فلاح و بہبود کےلئے خدمات کو سراہا ،نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں میں ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے کام کرنے کا جوش و ولولہ انتہائی خوش آئند ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کا صائب مطالبہ
الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نگراں وزیر اعظم کے پرنسپل سیکریٹری کو لکھے گئے خط میں اپنی اہم ذمہ داری کی طرف توجہ دی ہے کہ نگران سیٹ اپ میں ایسے ارکان کا تقرر نہ کیا جائے جن کی سیاسی وابستگی ہو۔ خط میں کہا گیا ہے کہ کابینہ ارکان کا تقرر کرتے وقت ان افراد سے اجتناب کیا جائے جن کی سیاسی وابستگی ہو ۔ اپنے خط میں انہوں نے لکھا کہ عام تاثر ہے بلکہ درست تاثر ہے کہ نگران حکومت سابقہ حکومت کا تسلسل ہے،الیکشن کمیشن لکھا کہ ایک سیاسی جماعت نے حالیہ پریس کانفرنس میں اس طرف نشاندہی کی اور نگران حکومت پر الزام لگایا کہ وہ سابقہ حکومت کی وراثت لیکر چل رہی ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ کابینہ ارکان کا تقررکرتے وقت ان افراد سے اجتناب کیا جائے جن کی سیاسی وابستگی ہو، سینیئر سول سرونٹس کی اہم عہدوں پر تقرری کے وقت غیر جانبداری کو سامنے رکھا جائے۔ای سی پی نے اجتناب کا مشورہ دیا ہے ،بلکہ حکومت کو ایسے افراد کی نشاندہی کر کے کابینہ سے نکالنے کا کہنا چاہئے تھا کیوں حالیہ ایک دو تقریاں ایسی ہوئی ہیں جن کی وابستگی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔نگران وزیراعظم کو خود اد امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جس سے ان کی غیر جانبداری متاثر ہو رہی ہے۔
آئی ایم ایف کا ڈومور کا مطالبہ
حالیہ مہنگائی کی دلدل میں دھنسی قوم کو نگران حکومت سے ریلیف کی امید لگائے بیٹھی ہے، اسے اطلاع مل رہی ہے کہ آئی ایم ایف، وزارت خزانہ اور وزارت توانائی کے درمیان بجلی کے بلوں پر ریلیف کے معاملے میں پیشرفت نہیں ہوسکی۔اس پہ ظلم یہ کہ اب پھر آئی ایم ایف نے پاکستان سے بجلی خود پیدا کرنے والی صنعتوں کو دی گئی مراعات واپس لینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے مطالبہ کیا ہے کہ بجلی بنانے والی صنعتوں کےلئے گیس کے نرخوں میں فوری اضافہ کیا جائے اور بجلی بنانے والی صنعتوں کیلئے گیس کے نرخوں میں اضافہ جولائی 2023 سے نافذ کیا جائے۔ آئی ایم ایف نے وزارت خزانہ اور وزارت توانائی سے پانچ شرائط پر مبنی معاہدے کا مطالبہ کیا ہے ۔آئی ایم ایف نے کہا ہے کہ دیگر صارفین کی طرح کیپٹو پاور پروڈیوسرز کیلئے گیس نرخوں میں فوری اضافہ کیا جائے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ وزارت خزانہ کی جانب سے ریلیف کا اعلان کرنے اور آئی ایم ایف شرائط پر عمل درآمد کے لیے وقت مانگا ہے، آئی ایم ایف نے وزارت خزانہ کو ہدایت دی ہے کہ صارفین کو ریلیف دینے کے لیے پاور سیکٹر کا نظام درست کیا جائے۔یہ وہ صورتحال جس سے ہر شہر پریشان ہے ،آئی ایم کے مطالبات جس بے دردی سے بڑھتے جا رہے ہیں اس کا خمیازہ عوام تو بھگت ہی رہی ہے ایک ملک کو بھی بھگتنا پڑے گا،حکمرانوں کی شاہ خرچیوں کا بازار جب تک بند نہیں ہوتا،ملکی معیشت کی کشتی کسی کنارے نہیں لگے گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے