کالم

آئین کی پاسداری مسائل و مشکلات کا حل

چیف جسٹس قاضی فائر عیسیٰ نے مخصوص نشستوں سے متعلق سنی اتحاد کونسل کے کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیئے کہ ملک کو اب آئین پر چلنے دیں سپریم کورٹ کے فیصلے انصاف پر مبنی ہیں نظریہ ضرورت کے تمام فیصلوں میں انصاف کے تقاضوں کا ذکر ٹھوس مواد نہ ملے تو انصاف کی مرضی کی تشریح کی جاتی ہے کسی جج سے بد نیتی منسوب نہیں کر رہا جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے خود آئین کی یہ سنگین خلاف ورزی کی کیا آئینی ادارے کی جانب سے غیر آئینی تشریح کی عدالت توثیق کردے؟ کیا آپ چاہتے ہیں ہم نظریہ ضرورت کو دوبارہ زندہ کر دیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا یہ کوئی پٹواری کی زمین کے تنازع کا کیس نہیں جو صرف اپیل تک محدود رہیں مکمل انصاف کا اختیار اور کہاںاستعمال کرنا ہے اسلامی نظریاتی ریاست ہونے کے باعث پاکستان عصر حاضر کی تمام الحادی قوتوں کی آنکھوں میں کھٹک رہا ہے بھارت سمیت صیہونی لابی مملکت خداداد کی سلامتی کے در پے ہے یہ قوتیں ہماری معیشت معاشرت اور عسکری قوت کو نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں ارض پاک کو درپیش اندرونی وبیرونی سازشوں کے تناظر میں قوم کا متحد ہونا وقت کا سب سے بڑا تقاضا ہے مگر افسوس ہمارے ملکی حالات اس کے بر عکس ہیں وطن عزیز میں کہنے کو تحریر وتقریر کی آزادی ہے ذرائع ابلاغ میں بیانات کی حد تک ہماری سیاسی قیادت سے بڑھ کو کئی محب وطن نہیں مگر ان کی ذاتی اور جماعتی مفادات کے گرد گھومتی سیاست کا پارہ اتنا چڑھ چکا ہے کہ 22کروڑ عوام کا اتحاد پارہ پارہ ہوچکا ہے انتشار اور افراتفری کی چنگاریاں بحیثیت قوم ہمیں کمزور اور ہماری قومی سلامتی کے دشمنوں کو توانا بنا رہی ہیں وطن عزیز 8مارچ 2022سے مسلسل سیاسی بحرانوں عدم استحکام انتشار اور افراتفری کا شکار ہے وقت کے ساتھ ساتھ ملک میں سیاسی استحکام کے امکانات کم سے کم ہوتے جارہے ہیں سیاسی قائدین کے غیر ذمہ دارانہ اور عاقبت اندیش بیانات نہ صرف ملک کےلئے خارجہ سطح پر گھمبیر مسائل پیدا کر رہے ہیں بلکہ عالمی مالیاتی اداروں کا اعتماد بھی ٹوٹنے کا باعث بن رہے ہیں پاکستان اس وقت جن اندرونی و بیرونی چیلنجز کا شکار ہے اس سے نبرد آزما ہونا کسی ایک جماعت کے بس کی نہیں نہیں ملک کو بحرانوں سے نکالنے کےلئے تمام سیاسی جماعتوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے تاریخ اپنے آپ کو دھرانا پر تلی ہوئی ہے وقت سیاست نہیں ریاست بچانے کا ہے ملک و قوم سے وفاداری کا تقاضا تو یہ ہے کہ فریقین صبر وتحمل بردباری اور برداشت سے کام لیںاور سیاسی مفادات پر قومی مفاد کو ترجیح دیں تاکہ ملک سے سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہوسکے مگر ایسا کچھ نہیں ہو رہا سیاست کا موجودہ چلن اور اقتدار کی رسہ کشی پورے نظام کو زمین بوس اور ملک و قوم کو کسی بڑے امتحان سے دو چار کرسکتی ہے ملک و قوم کو اس وقت جن مسائل و مشکلات کا سامنا ہے اور ان کے حل کی راہ میں جو رکاوٹیں حائل ہیں وہ ساری رکاوٹیں اسی وقت دور ہوں گی جب ہم ہر سطح پر آئین و قانون کی پاسداری کریں گے صرف قانون کے احترام سے ہی مسائل کا حل ممکن ہے ہمارے نظام اور اداروں کی تباہی کی بنیادی وجہ ہی آئین و قانون کی پاسداری سے انحراف ہے ہم صرف آئین و قانون کا راستہ اختیار کر کے ہی اپنے ملک و قوم کو محفوظ و مامون بنا سکتے ہیں جب ملک میں آئین اور قانون موجود ہے تو پھر کسی کو بھی اپنے آپ کو آئین سے بالاترنہیں سمجھنا چاہیے آئین میں انتظامیہ مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات انتہائی واضح ہیں تنقید کا راستہ اس وقت کھلتا ہے جب کوئی ریاستی ادارہ اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے دوسرے ریاستی ادارے کے معاملات میں مداخلت کرتا ہے اس وقت ملک کو کچھ اسی قسم کی صورت حال کا سامنا ہے جس کو ختم کرنے کے لئے نیک نیتی کے ساتھ اقدامات کی ضرورت ہے اب بھی وقت ہے حکمران اور تمام ادارے خود کو طاقتور اور بالادست سمجھنے اور اپنی اپنی قوت میں اضافہ کرنے کی جستجو کرنے کے بجائے ملک وقوم کی فکر کریں ملک میں اس وقت جو کچھ ہورہا ہے اس سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے دو حصوں کے درمیان بعض اہم ترین معاملات پر ہم آہنگی نہیں ہے پاک فوج کی جانب سے خود کو نیوٹرل کرنے کی پالیسی نے سیاسی معاملات میں عدلیہ کے کردار کو بڑھا دیا ہے جبکہ ملک میں یہ رائے بھی تقویت پکڑتی جارہی کہ عدلیہ کے اختیارات کی کوئی حدود و قیود نہیں ہے وہ سب کو ہٹا سکتی ہے لیکن اسے کوئی نہیں ہٹا سکتا گزشتہ چند سالوں کے دوران عدلیہ نے اپنا احترام بھی قائم رکھا اور طاقت میں بھی اضافہ کیا ہے اپنے ڈھانچے میں پارلیمان اور دیگر آئینی اداروں کی مداخلت کے تمام آئینی اور قانونی دروازے بھی بند کر دیئے ہیں تاکہ ریاست کا کوئی ستون ان کے کام میں مداخلت نہ کرسکے دیکھا جائے تو عدلیہ نے اس سفر میں حقیقی اسٹیبلشمنٹ سے زیادہ طاقت حاصل کرلی ہے جس کا فائدہ کے ساتھ ساتھ نقصان بھی ہورہا ہے مخدوش معاشی صورتحال میں ملک کسی انتشار اور افراتفری کا متحمل نہیں ہوسکتا تصادم محاذ آرائی اور اقتدار کے سٹیک ہولڈرز کے درمیان مفادات کا ٹکرا اور اختیارات وطاقت کے حصول کی جنگ تیزی کے ساتھ قومی سلامتی کےلئے جس طرح خطرناک ہوتی جارہی ہے ہر باشعور پاکستانی کو اس کا بخوبی اندازہ ہے ملک و قوم سے وفاداری کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں اور ادارے صبر وتحمل بردباری اور برداشت سے کام لیں اورئین وقانون کے مطابق اپنا اپنا کردار ادا کریں تاکہ ملک بے یقینی کی کیفیت سے نجات پائے گرتی ہوئی معیشت کی بحالی ممکن ہو اور سیاسی انتشار ختم ہو سکے خدا کرے کہ اس ملک میں آئین اور قانون کے ساتھ کھلواڑ کا سلسلہ ہمیشہ کےلئے بند ہو اور ہم ایک پابند آئین اور مہذب قوم کی حیثیت سے دنیا میں اپنا تعارف کرانے کے قابل ہوسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے