کالم

آئی ایم ایف شرائط عجلت میں منظور

آئی ایم ایف شرائط عجلت میں منظور

تحریر ! ڈاکٹر مرزا اختیار بیگ
میں اپنے گزشتہ کالموں اور ٹی وی انٹرویوز میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ حالیہ بجٹ میں حکومت کی جانب سے عائد کئے گئے بھاری ٹیکسز، پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 60روپے سے 70روپے فی لیٹر اضافہ، بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اوسطا 5.72 روپے فی یونٹ کا اضافہ اور کیپٹو پاور گیس کے نرخوں میں 250 روپے فی MMBTU اضافہ جو 2750 روپے سے بڑھاکر 3000روپے فی MMBTU کردیا گیا ہے۔ یہ اقدامات آئی ایم ایف کے 6 ارب ڈالر کے طویل المیعاد بیل آئوٹ پیکیج کی شرائط میں شامل ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف کیلئے تمام اقدامات پورے کرچکی ہے اور جولائی کے آخر تک آئی ایم ایف سے اسٹاف لیول معاہدہ ہوجائے گا جس کی وزیر مملکت برائے خزانہ علی ملک نے تصدیق کی ہے۔ آئی ایم ایف کے تخمینہ کے مطابق ریونیو میں 200 سے 250 ارب روپے کی کمی متوقع ہے اور اس کمی کو پورا کرنے کیلئے ایف بی آر نے آئی ایم ایف کو 1747 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کے اقدامات سے پورا کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جس کی بنیاد پر نئے مالی سال 12970 ارب روپے کے مجموعی ٹیکس وصولی کا ہدف رکھا گیا ہے جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں 40 فیصد زیادہ ہے۔ میرے نزدیک ٹیکسوں کا نیا ہدف غیر حقیقت پسندانہ ہے جو عوام اور بزنس کمیونٹی پر ناقابل برداشت بوجھ ثابت ہوگا۔ آئی ایم ایف کو بھی پاکستان کی موجودہ معاشی صورتحال میں 40 فیصد اضافی ریونیو وصولی کے ہدف پر خدشات ہیں۔ حکومت کی جانب سے املاک کے لین دین پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کے اطلاق سے قانونی جنگ متوقع ہے کیونکہ سرکاری ملازمین کو پراپرٹی کی فروخت میں اس ڈیوٹی سے استثنی کو لاہور ہائیکورٹ میں آئین کے آرٹیکل 8 کے تحت چیلنج کیا گیا ہے۔ پاکستان کے آئین کے مطابق ملک میں تمام شہریوں کے حقوق یکساں ہیں۔ حکومت آگے کنواں اور پیچھے کھائی جیسی صورتحال سے دوچار ہے۔ دوسری طرف حکومت کو تنخواہ دار طبقے اور نان فائلرز پر ٹیکسوں کی بھرمار پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ گزشتہ مالی سال تنخواہ دار طبقے نے 375 ارب روپے ٹیکس جمع کرایا تھا اور اس سال حکومت اسی طبقے سے 475 ارب روپے کمانا چاہتی ہے۔ ایف بی آر نے سیمنٹ کی بوری پر ایکسائز ڈیوٹی میں 100 فیصد اضافہ کیا ہے جس سے سیمنٹ کی قیمت 2 روپے فی کلو سے بڑھ کر 4 روپے فی کلو ہوگئی ہے جس سے ایف بی آر کو 80 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہونے کی امید ہے لیکن رئیل اسٹیٹ اور کنسٹرکشن سیکٹر میں شدید مندی کے مدنظر سیمنٹ کی قیمتوں میں اضافہ کنسٹرکشن انڈسٹری کو مزید متاثر کرے گا۔ پاکستان نے جون میں آئی ایم ایف کے طویل المدتی بیل آئوٹ پیکیج میں پی آئی اے سمیت 6 قومی اداروں کی نجکاری کا اعلان کیا تھا لیکن پی آئی اے پر یورپی یونین کی پابندی کے باعث بولی لگانے والوں کو خدشات ہیں۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ اور ایکسپورٹرز کو نارمل ٹیکس نظام میں فوری طور پر لانے سے ملکی ایکسپورٹ بری طرح متاثر ہو گی۔ حال ہی میں مجھے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی کی اسٹینڈنگ کمیٹیوں برائے فنانس و ریونیو، کامرس اور اقتصادی امور پر نامزد کیا ہے۔ یہ کمیٹیاں بجٹ کی بے ضابطگیوں اور بزنس کمیونٹی کے خدشات کیلئے اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ قائمہ کمیٹی برائے فنانس و ریونیو کا پہلا اجلاس 11 جولائی کو پارلیمنٹ ہائوس میں طلب کیا گیا ہے جس میں، میں بزنس کمیونٹی کے مسائل پیش کروں گا۔ اس سلسلے میں گزشتہ دنوں پاکستان کی ٹاول مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (TMA) نے مجھے بجٹ پر شدید تحفظات کیلئے اپنے اجلاس میں مدعو کیا تھا جس میں ملک کے بڑے ٹاول مینوفیکچررز اور ایکسپورٹرز نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور ایسوسی ایشن نے ٹاول انڈسٹری پر نئے ٹیکسوں کی بھرمار سے انڈسٹری کی مقابلاتی سکت میں مسلسل کمی پر ایک پریزینٹیشن دی اور بتایا کہ اس وقت ہمارے پاور ٹیرف 13.3 سینٹ فی کلو واٹ ہیں جبکہ خطے کے دیگر ممالک بنگلہ دیش، چین اور بھارت میں یہ پاور ٹیرف اوسطا 8 سینٹ فی کلو واٹ ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ایکسپورٹرز کو ایک فیصد فکس ٹیکس نظام سے نارمل ٹیکس نظام میں فوری شامل کرنے کے بجائے بتدریج لایا جائے۔ یہی صورتحال فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (FPCCI)، کراچی چیمبرز،آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (APTMA) اور پاکستان ہوزری مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (PHMA) کی ہے جنہوں نے بجٹ کی بے ضابطگیوں پر شدید تحفظات پیش کئے ہیں۔ حالیہ بجٹ نے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے جس میں صنعتکار، ایکسپورٹرز، رئیل اسٹیٹ، بلڈرز اور بالخصوص تنخواہ دار طبقہ شامل ہے۔ بجٹ میں ٹیکسوں کی بھرمار سے مہنگائی یعنی افراط زر میں دوبارہ اضافہ ہوگا جو غریب کی کمر توڑ دے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے