کالم

آئی ایم ایف کا قرض عوام پرلگائیں

طالب علموں سے بھری بس اسلام آباد کے وزٹ پر تھی کہ شکرپڑیاں پہنچی تو بس ڈرائیور کے قابو میں نہ رہی اور حادثے کا شکار ہوگئی۔ ایک طالب علم اللہ کو پیارا ہو گیا اور باقی بچے زخمی حالت میں پمز اور پولی کلینک اسپتال میں زیر علاج ہیں۔ ایسے حادثات اکثر دیکھنے میں آتے ہیں۔ بابا کرمو ان بچوں کی تیمارداری کے لیے گیا تھا۔ بتایا کہ بچوں کو دیکھ کر افسوس ہوا ہے۔ بتایا گیا کہ بس کی بریکیں فیل ہو جانے سے یہ حادثہ پیش آیا۔ مجھ سے پوچھا آپ اس پر کیا کہتے ہو۔ کہا اگر پاکستانی شہری کی حیثیت سے میرا جواب یہ ہو گا کہ ایسے تو ہوتا رہتا ہے۔جو ان حادثات میں بچ جایا کریں وہ بچ جانے پر کالا بکرا دیا کریں۔ پوچھا اگر یہ حادثہ امریکا میں ہوتا تو ،کہا پہلے تو وہاں ایسا ہونا ممکن نہیں۔ اگر پھر بھی کسی وجہ سے ایسا حادثہ ہو جاتا ہے تو وہ اس حادثے کی فوری وجوہات معلوم کرتے ہیں کہ یہ حادثہ کیسے رونما ہوا۔ کیا ڈرئیور نے آٹھ گھنٹے سے زیادہ ڈرائیونگ تو نہیں کی ۔ کیا بس کا فٹنس ریکارڈ ٹھیک تھا۔ امریکہ میں تمام کمرشل وہیکل کی دیکھ بھال کے لیے وہاں ادارے موجود ہیں۔ جہاں وہیکل کا ورکشاپ میں معائنہ ہوتا ہے۔ پاس ہونے پر اسے فٹنس سرٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔پھر یہ روڈ پر آ سکتے ہیں ورنہ نہیں۔جب کہ ایسا یہاں نہیں ہے۔ اگر یہاں بھی آئی ایم ایف کے قرض سے ایک ادارہ بنادیا جائے جو سارے کمرشل وہیکلز کےلئے ورکشاب ہوں جہاں مشینوں کمپیوٹر کے ذریعے ان کا معائنہ ہو۔ ایسا کرنے سے لوگوں کی زندگیاں محفوظ بنائی جا سکتی ہیں۔ نئے جاب پیدا ہو سکتے ہیں۔ حکومت کو آمدن بھی ہو سکتی ہے۔لہٰذا اس پر عمل کریں۔پاکستان سے ایران جاتے ہوئے اکثر بسیں حادثے کا شکار ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ ان بسوں کی فٹنس نہیں ہوتی۔ جس کی وجہ سے قیمتی جانوں کا زیاں ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے سے برا حال ہے۔جو ذرائع موجود ہیں وہ آئے روز مختلف بہانوں سے میٹرو کی بندش سے بہت سارے لوگوں کے معمولات زندگی ڈسٹرب کر دئے جاتے ہیں۔ اگر اسلام آباد میں میٹرو بس سسٹم اور دیگر ٹرانسپورٹ سسٹم کے ذریعے پورے اسلام آباد میں ٹرانسپورٹ کی اچھی سروس ملنی شروع ہوجائے اور یہ سروس اپنی ترتیب سے ہمیشہ چلتی رہے اور کبھی بند نہ ہوتو اسلام آبادکا ٹریفک پلان بہت بہتر ہوسکتاہے۔ اسلام آباد کا روڈ نیٹ ورک بہتر ہونے اور ہر جگہ تک پبلک ٹرانسپورٹ کی آسان رسائی کی وجہ سے لوگ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دیں گےاور پرائیویٹ ٹرانسپورٹ جیسے ہی کم ہوگی اسلام آباد کے نظارے دیکھنے والے ہوں گے۔شنگھائی کانفرنس کی وجہ سے آج کا اسلام آباد خوبصورت ترین شہر بن چکا ہے۔ مگر عوام کو دیکھنے نہیں دیا جارہا۔ اس کی وجہ سیاسی جماعت ہے جو آئے روز جلوس لے کر اسلام آباد پہنچنے کا اعلان کردیتے ہیں۔ جب کہ ان کا لیڈر راولپنڈی جیل میں ہے اور وہاں جانے کے بجائے اسلام آباد کا رخ کرتے ہیں۔ اگر انہیں اپنے لیڈر کا خیال ہوتا تکلیف ہوتی تو جلوس پر بھنگڑے نہ ڈال رہے ہوتے۔غیر ضروری جلوس نہ نکال رہے ہوتے تو آج ان کی حالت مختلف ہوتی۔سینیٹر حامد خان صاحب نے شنگھائی کانفرنس کے دوران احتجاج کرنے سے منع کیا ۔ یوں تو اس جماعت کے سب سے سینیر حامد خان صاحب ہی ہیں عمران خان کے بعد ان کا حق تھا کہ پارٹی کے سربراہ ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا تو اس جماعت کے غلط فیصلوں پر انگلیاں نہ اٹھتیں۔ ملک میں آج بھی تیسری جماعت کی ضرورت ہے جو ملکی حالات کو دیکھ کر سیاست کرے۔ ملک کو نقصان نہ پہنچائے۔ عوام کی بہتری کےلئے کام کرے ۔ جائیں اسمبلی میں بل پاس کرائیں کہ سرکاری اسپتال ہوں یا کوئی پرایﺅیٹ اسپتال والے مریض کے مرنے کے بعد مریض کے لواحقین سے کوئی رقم کسی بھی مد میں وصول کرنے کے مجاز نہیں ہوں گے۔اس سے اسپتال والے مریض کو مارنے کے بجائے مریض کی صحت کا خیال رکھیں گے کہ ان کی رقم ڈوبے نہ جائے ۔ایسے کام کریں جس سے عام آدمی کو فائدہ ہو۔ میں نہ مانو ملک بگاڑو کی سیاست کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔اسپتالوں کی طرح اسکولوں کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔دس سال عمر کے سکول کے بچوں کو دل کے دورے پڑنے لگے ہیں۔ اس کی وجہ یہ بظاہر دکھائی دیتی ہے کہ بچوں کو صبح جلدی اٹھا دیا جاتا ہے رات کو دیر تک جاگتے رہتے ہیں ۔بچوں کے بستے ان کے وزن سے زیادہ اٹھانے رکھنے سے اور موبائل کا زیادہ استعمال کرنے سے انہیں دل کی بیماریوں کا سامنا ہے۔ سکول میں گیم کا پیریڈ لازمی رکھیں۔ شام کو بچے گراو¿نڈ میں کھیل کھود کے لیے ضرور جائیں۔ کھانے پینے میں بازاری چیزیں کھانے سے پرہیز کریں۔ کسی قسم کا سوڈا پینے سے منع کریں۔ سادہ پانی کا استعمال زیادہ کرائیں۔ ایسا کرنا استاتذہ کے ساتھ والدین کا بھی فرض ہے کہ بچوں کی طرف دھیان دیں ۔ سیاست میں مثبت سوچ اپنائیں ۔ سیاست عوام اور ملک کی بہتری کےلئے کریں عوام خود اقتدار کی کرسی پر لے آئے گی۔ یہی مشورہ ہے یہی وقت اور ملک کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے