کالم

آبی دہشت گردی

ہزاروںسال قبل مصر کے خدےو (بادشاہ)نے اےک رات عجےب و غرےب خواب دےکھا کہ اےک طرف سے سات موٹی تازی گائےں نمودار ہوتی ہےں پھر اسی سمت سے سات کمزور اور لاغر گائےں باری باری آتی ہےں جو پہلے والی گائےوں کو اےک اےک کر کے کھا جاتی ہےں ۔خدےو اس خواب کی تعبےر کےلئے بے تاب ہو گےا ۔اس دور کے تمام ستارہ شناس اس خواب کی تعبےر بتانے سے عاجز رہے ۔اےک دن اےک انتہائی خوبصورت اور وجےہہ جوان دربار شاہی مےں پہنچا ۔اس نے خواب کی تعبےر کےلئے بے قرار بادشاہ کو خواب کی تعبےر اس طرح بتائی ۔” سات موٹی گائےں خوشحالی کی علامت ہےں ےعنی پہلے سات برس خوب بارش برسے گی اگلے سات برس قحط سالی کے ہوں گے،سات کمزور و ناتواں گائےں اسی خشک سالی کو ظاہر کرتی ہےں ،ےہ خواب اس بات کا اشارہ ہے کہ اگر تم نے خوشحالی کے سات برسوں کے دوران غلہ جمع کر لےا تو تم عوام کو بھوکوں مرنے سے بچا لو گے “۔ بنی اسرائےل کے ےہ خوش گفتار، حسےن و جمےل نوجوان حضرت ےوسف علےہ السلام تھے جنہوں نے خدےو کو اپنی مدد آپ کا قانون سمجھاےا جس کے سبب مصری عوام قحط سالی کا شکار ہونے سے بچ گئے ۔خدا کی تخلےق کردہ حےات و کائنات اس کے بنائے ہوئے غےر متبدل اصولوں کے تابع ہے جو قومےں اےڈہاک کی بنےاد پر پالےسےاں مرتب کرتی ہےں ،عوام کو رےلےف دےنے کے جز وقتی سامان کرتی ہےں ،حقائق سے چشم پوشی کر کے آنکھےں موند ھ لےتی ہےں ان کا مستقبل ہمےشہ گہرے منفی اثرات لئے ناقابل تلافی نقصان کا آئےنہ دار ہوتا ہے ،پھر اس تالےف کا ابھرنا کوئی معنی نہےں رکھتا کہ کاش ہمےں وقت پر اس کا ادراک ہوتا اور ہم پےش بندی کےلئے کچھ نہ کچھ کر لےتے۔خشک آبی کا بھےانک رقص جاری ہے ۔خوفناک حقائق اپنے آگ اگلتے جبڑے کھولے تےزی سے ہماری طرف محوسفر ہےں لےکن ہم نے اےڈہاک ازم اپنا لےا ہے جس کے کارن کمزور گائےں ہی ہمارا مقدر بنتی نظر آرہی ہےں ۔آج اگر جنگےں تےل پر ہو رہی ہےں تو مستقبل مےں جنگوں کی بنےاد پانی ہو گا ۔اےک دوسرے کے آبی وسائل پر قبضہ سنگےن صورت حال اختےار کر جائے گا اور ےہ آبی ہتھےار اےٹمی ہتھےاروں سے بھی زےادہ تباہی کا باعث ہو گا ۔ساﺅتھ امرےکہ مےں پانامہ کےنال، مڈل اےسٹ مےں نہر سوےزو دجلہ فرات کے درےا اور ترکی،عراق اور شام کے درمےان پانی کے مسائل موجود ہےں لےکن ہر ملک اپنے حصے کا پانی عالمی اقدار و قوانےن کے مطابق حاصل کر رہا ہے کسی بھی ملک کی معےشت تباہ کرنے کےلئے اسے لق و دق صحرامےں تبدےل کرنے والا ہتھےار پانی ہے اور بد قسمتی سے ےہ ہتھےار ،ہمارے پڑوسی ملک بھارت کی ترجےحات مےں پہلے نمبر پر ہے ۔چےنی جنرل سن زور لکھتا ہے کہ ”عسکری برتری ےہ ہے کہ جنگ کئے بغےر دشمن کی قوت کمزور کر دی جائے“۔اس فارمولے پر بھارت پاکستان کیخلاف پوری طرح عمل پےرا ہے ۔پاکستان کا کسان بھارت کے رحم و کرم پر ہے ۔لاکھوں اےکڑ اراضی ہر سال بنجر ہو جاتی ہے ۔سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے پانی کا بڑا حصہ بھارت منتقل ہو گےا ۔قےام پاکستان کے وقت ہمارے مغربی حصے مےں چھ درےاآئے تھے۔ستلج ،بےاس، راوی ، چناب ، جہلم اور سندھ ،پہلے تےن درےا ﺅں کا ہم نے بھارت سے سودا کر لےا ۔اب بھارت پاکستانی حصے کے درےاﺅں پر نقب لگانے کی پالےسےوں پر گامزن ہے ۔ےہی وجہ ہے کہ اب ہمارے درےاﺅں کے چہرے رونقوں ،تابانےوں ، روانےوں اور جولانےوں سے محروم ہو چکے ہےں ۔ بھارت ہمارے درےاﺅں پر بندباندھ کر ڈےم تعمےر کر کے اپنے رےگستانوں کو سےراب کر کے سونا بنا رہا ہے اور ےہاںپاکستان مےں حالت ےہ ہے کہ ہمارے گےارہ ہےڈ ورکس خشک ہونے کو ہےں ہمارے صوبے پانی کےلئے آپس مےں دست و گرےباں ہےں ۔بھارت نے سندھ طاس معاہدے ،بےن الاقوامی قوانےن اور عالمی اصولوں کو بلڈوز کرتے ہوئے درےائے چناب ،جہلم،سندھ اور ان کے معاون ندی نالوں کا پانی غےر قانونی تعمےر کئے گئے ڈےموں کے ذرےعے اپنی حدود مےں روک لےا ہے ۔درےائے سندھ مےں صرف بےس فےصد پانی آ رہا ہے جبکہ چناب اور جہلم سوکھ چکے ہےں اس وجہ سے پنجاب کی 19بڑی ،2791چھوٹی نہرےں ،11050ڈسٹری بےوٹرےزاور اےک لاکھ چھ ہزار کھال بند پڑے ہےں اس سے لاکھوں اےکڑ کھڑی فصلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ےہ اعدادوشمار راقم کی طرف سے نہےں بلکہ ماضی قرےب مےں سندھ طاس واٹر کونسل کے چئےر مےن اور عالمی واٹر اسمبلی کے چےف کوآرڈےنےٹر حافط ظہورالحسن نے حقےقت حال کی نشاندہی کی تھی ۔ انہوں نے کہا تھا کہ بھارت پاکستان کے حصے مےں آنےوالے درےاﺅں پر 62 ڈےم مکمل کرنے کے قرےب ہے اور مزےد 31 ڈےموں کی تعمےر شروع کر رہا ہے ۔بھارت ناردرن کےنال لنک کے اےک بڑے منصوبے پر عمل پےرا ہے جس پر 230ارب ڈالر لاگت آئے گی ۔اس منصوبے کو پاکستان کے درےاﺅں کے ساتھ لنک کےا جا رہا ہے ۔ اےک چھوٹا درےا جو بھارتی علاقے مےں کشن گنگا اور پاکستان مےں نےلم کہلاتا ہے ےہ مےر پور کے مقام پر درےائے جہلم کا حصہ بنتا ہے اس درےا پر بھارت نے ڈےم تعمےر کےا ہے ےہ اےک متنازع ڈےم ہے مگر حال ہی مےں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق پاکستان عالمی بےنک کو اس مسئلے پر ثالثی کےلئے آمادہ کرنے مےں ناکام رہا ہے اس سے قبل بھی بھارت درےائے جہلم پر بگلےار ڈےم بنا چکا ہے ےہ ہماری حکومت کی بے بصےرتی اور مجرمانہ غفلت کا مظہر ہے ۔ زرعی پےداوار مےں اضافے کےلئے آبی وسائل کی فراہمی بنےادی اہمےت رکھتی ہے ۔وطن عزےز کی معےشت کا زےادہ تر انحصار بھی زراعت پر ہے پاکستان کی 80فےصد آبادی زراعت اور 20 فےصد صنعتوں سے منسلک ہے ۔انڈسٹری بجلی کی کمی کے باعث سخت متاثر ہے ۔بھارت نے ڈےموں کی تعمےر کر کے سندھ طاس معاہدے کو توڑا ہے لےکن دکھائی اےسا دےتا ہے کہ متعلقہ وزارت ،محکمے اور افراد اس تشوےش کو دور کرنے کےلئے کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے سے معذور رہے ہےں ۔کےا کسی نے کبھی سوچا ہے کہ ملکی بقا اور سلامتی داﺅ پر لگ چکی ہے اور آئندہ پنجاب کے درےا اور نہرےں خشک ہو کر صومالےہ اور سوڈان کا منظر پےش کرےں گی ۔کبھی کبھار کسی وزےر،مشےر ےا اعلیٰ افسر کی جانب سے معاہدہ سندھ طاس کے تحت پاکستان کے حصہ مےں آنے والے درےاﺅں کا پانی روکنے پر بھارت کے خلاف اقدامات اٹھانے کا اعلان کےا جاتا ہے ےا ملک مےں کسی بڑے آبی ذخےرے کی تعمےر کا قوم کو عندےہ دےا جاتا ہے لےکن اس کے بعد طوےل خاموشی چھا جاتی ہے اس اہم اےشو پر ہمارے ہاں سےاست تو کی جاتی رہی لےکن کسی عملی اقدام سے ہمےشہ محرومی ہی نظر آئی ۔چےن ہماری مانند پانی کے مسئلے سے دوچار تھا لےکن آج وہ تارےخ انسانی کا سب سے بڑا ڈےم بنا رہا ہے لےکن ہمارے ہاںکالا باغ ڈےم جےسے آبی ذخائر کی تعمےر سےاست کی نذر کر کے ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے کی تدبےر ہی کی گئی ۔کالا باغ ڈےم کا منصوبہ 1963ءمےں منصہ شہود پر آےا لےکن ےہ کھٹائی مےں پڑتا چلا گےا ۔ اس سچ کو جھٹلاےا نہےں جا سکتا کہ ڈےموں کی تعمےر سے نظرےں چرانا اےتھوپےا کے عوام کی طرح پاکستانی عوام کا مقدر بھوک اور پےاس کے ہاتھوں مر جانا بنانا ہو گا ۔آبادی مےں اضافے کے ساتھ آبی ضرورےات کی تکمےل کرنے والے منصوبوں کی تعداد مےں اضافہ نہ ہو تو قحط نہ ٹلنے والی تقدےر کا روپ دھار لےا کرتے ہےں ۔ہر سال لاکھوں کےوسک پانی جو سونے سے بھی زےادہ قےمتی ہے سمندر مےں گر کر ضائع ہو جاتا ہے جس سے اربوں کا نقصان ہو جاتا ہے ۔بدقسمتی سے زندگی کے بہت سے اہم شعبوں کی طرح وطن عزےز مےں تجاہل و تغافل آبی وسائل کے شعبے مےں بھی جاری و ساری رہا ۔ساری دنےا اپنے آبی وسائل کی بہتر تنظےم اور استعمال پر اپنی تمام توانائےاں وقف کئے ہوئے ہے لےکن ہم نے اس کے خلاف اپنا پورا زور اور توانائےاں صرف کر دےں ۔بھارت نے بھا ئرہ ڈےم بنا کر راجستھان کی لاکھوں اےکڑ زمےن بھی آباد کر لی ہے اور بہت بڑی نہر سے دفاعی بند کا کام بھی لے رہا ہے ۔دوسری طرف پاکستانی رےگستان تھر اور چولستان کے اےک کروڑ سے زائد انتہائی زرخےز رقبے پر رےت اڑ رہی ہے جو پانی ملتے ہی سونا اگل سکتا ہے ۔مستقبل کے چےلنج اس بات کے متقاضی ہےں کہ پاکستان کے درےاﺅں پر جابجا بند باندھے جائےں ۔پورا درےائی پانی حاصل کرنے کے ٹھوس اقدامات سے اجتناب اور غفلت نہ کی جائے ۔اگر مستقبل کی منصوبہ بندی سے آنکھےں چرا لی گئےں تو وطن عزےز کو مستقبل مےں بڑے قحط سے بچانا ممکن نہےں ہو گا اور کمزور گائےںہمارا مقدر بننے سے کوئی نہےں روک سکتا ۔ بھارت تو ہمےں پہلے ہی بنجر بنانے پر تلا بےٹھا ہے ۔سوچنا تو ہمےں ہے کےونکہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہےں بدلی
نہ ہو جس کو خےال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے