حضرت آدم سے لیکر قیامت تک اللہ تعالیٰ انسانوں کی تخلیق کے بعد دنیا میں انہیں بھیج رہا ہے اور بھیجتا رہے گا ہر انسان ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہوتا ہے نہ شکل ملتی ہے اورنہ ہی مزاج عادت خصوصیات پسند اور نہ پسند بھی مختلف ہے صلاحیتیں بھی اسی طرح ہر انسان کی دوسرے سے مختلف ہوتی ہیںیوں کہہ لیں ایک وقت میں مصور تو بہت ہوتے ہیں لیکن ان میں صادقین ایک ہی ہوتا ہے رنگوں اور برش سے شاہکار تخلیق کرنا ہر مصور کے حصے میں نہیں مشاہدہ اور پھر اسے کینوس پر منتقل کرنا اپنے اپنے مشاہدے قابلیت اور صلاحیت کے تابع ہے شاہکار کی طرف نظریں خودبخود اٹھتی ہیںتصویر کلام کرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے قبلہ واصف علی واصف صوفی بزرگ تھے انہیں الفاظ سے تصویر بنانے کا دلکش انداز تھا انکی محفل میں موجود لوگ الفاظ کو سنتے اور وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی ہر جملے میں سبحان اللہ کی آواز بلند ہوتی سوال کے کشکول جواب کی خیرات سے لبریز ہو جاتے گفتگو سننے والے پر معنی اور آگہی کے نئے پہلو آشکار ہوتے اس طرح ان کی محفل میں شریک لوگ معرفت کے خاص علم سے سیراب ہو تے جو مومن کی میراث اور فقرا کرام کا خاص رنگ ہے آجکل کے الجھے ہوئے دور میں ہر طبقہ حیات کے لوگ اس میں شریک ہوتے اور ذہن میں موجود دینی سوالات کے جوابات حاصل کرتے لاہور شہر جو علمی اور ادبی مرکز سمجھا جاتا ہے وہاں کے دانشور ادیب وکیل درویش سبھی ان سے فیض پانے لگے حضرت واصف پیشہ ور درویش نہیں تھے جیسے آجکل دیکھنے کو ملتے ہیں جو علم معرفت بہت کم جانتے ہیں اور ان کے مطالبات زیادہ ہوتے ہیں ان کے خیالات زندہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے روح کے ساتھ دل دماغ کو معطر کرنے کا اہم ذریعہ ہیں یہ لوگ روشنی کی طرح محسوس ہوتے ہیں جو لا علمی کے اندھیروں سے نکال کر سچ اور روشن راہوں کی طرف رہبری کرتے ہیں۔ سوال جواب پر مشتمل ان کی کتابیں علم معرفت کے پیاسوں کےلئے نعمت سے کم نہیں ۔ آپ فرماتے تھے یہ سوال اور جواب حال میں بھی اور آنے والے دور میں بھی راہبری کریں گے ان کی کہی ہوئی ایک ایک بات خوشبو کی طرح پھیل رہی ہے علم و معرفت کے متلاشی قلب اور روح کو سیراب کر رہے ہیں حضرت واصف علی واصف 15 جنوری 1929 کو خوشاب میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم یہیں سے مکمل کی اسکے بعد اپنے ناناکے پاس چلے گئے جو کہ ماہر تعلیم تھے ان کی سرپرستی میں میٹرک میں کامیابی حاصل کی اور پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیکر پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب اور میتھمیٹکس میں ایم اے کی ڈگریاں حاصل کی ۔ 1954میں انہوں نے سول سروسز کا امتحان اعلی پوزیشن میں پاس کیا سول سروسز اکیڈمی میں ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد سروسز جوائن نہ کی کیونکہ انکی درویشانہ طبیعت اس طرف مائل نہ تھی آپ نے درس و تدریس کے شعبے کو اپنایا کچھ ہی عرصے میں انہوں نے لاہور ہی میں اپنا پرائیویٹ کالج قائم کیا جسکا نام لاہور کالج آف انگلش تھا دولت کمانا مطمع نظر نہیں تھا اکثر غریب طلبا کی فیس معاف کر دیتے تھے ایک دفعہ ایک غریب علم کے شیدائی نے کلاس روم سے باہر بیٹھ کر ان کے لیکچرز سننا شروع کر دیے آپ نے جب اسکی دلچسپی کو محسوس کیا تو اسے کلاس میں بیٹھنے کی نہ صرف اجازت دی بلکہ فیس بھی معاف کر دی پھر وہی شخص انکی راہبری سے ایک وکیل بن کر ابھرا ایسے کئی واقعات ہیں کہ وہ دولت کمانے کی خواہش نہیں رکھتے تھے اپنے اخلاق اور حسن سلوک سے ہر آنے والے شخص کے دل میں جگہ بناتے تھے اور انکی صحبت اور سنگت سے قرب الہٰی کی طرف مائل ہونے کا احساس ہوتا انکی محفل میں کسی موضوع پر طویل گفتگو نہ ہوتی بلکہ ہر آنے والے کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ مذہب کے حوالے سے جو اسکے ذہن میں سوال پیدا ہو وہ کرے اور پھر حضرت واصف اسکا بھر پور جواب عنایت فرماتے کہ زندگی بدل جاتی سوچ اور عمل میں مثبت تبدیلیاں ظاہر ہوتیں وہ فرماتے نہ سوال تمہارے ہیں نہ جواب ہمارے ہیں یہ تو آنے والے لوگوں کے لیے آ رہے ہیں وہ صاحب کردار شخص تھے انکے افکار منفرد تھے جو انسان کو منفی سوچ اور عمل سے نکال کر حقیقی بندگی کی طرف لے آتے ہیں الفاظ کا چناو اور مفہوم کی وسعت حیران کن تھی جسکے اثرات سننے والے پر مرتب ہوتے انکا حسب نسب حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ملتا ہے جو خود باب علم تھے انہی سے حضرت واصف کو براہ راست فیض حاصل ہوا اور پر اثر بیان کی صفت بھی عطا ہوئی آپ خوش اخلاق خوش لباس اور خوش اطوار طبیعت کے مالک تھے جو کبھی ایک دفعہ مل لیتا اسکا دل چاہتا کہ ہمیشہ قربت میں رہے مستحقین کو مالی امداد فراہم کرنے میں بھی یکتا تھے سوال کرنے والا کبھی خالی دامن لے کر نہ اٹھتا سوال اور جواب پر مشتمل کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں جو تشنہ لبوں کے لیے زم زم کی طرح ہیں دل دریا حرف حرف حقیقت قطرہ قطرہ قلزم مضامین کے مجموعے ہیں جو نوائے وقت اخبار میں چھپتے رہے ان کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ والے لوگوں کی کہی ہوئی باتیں اپنے اندر معنی کا سمندر سمیٹے ہوئے ہوتی ہیں انکی تحریر کے الفاظ صداقت اور الہامی جھلک سے فروزاں ہے جو پڑھنے والے کی نظروں سے دل میں اتر کر عمل پر متحرک کر جاتے ہیں وہ ایک باعمل انسان تھے جو اللہ کی مخلوق سے محبت کرتے تھے معمولی تعلق رکھنے والے کا بھی پھر پور انداز سے خیال رکھتے تھے اپنے عمل اور زبان سے کبھی کسی کی دل آزاری کے مرتکب نہ ہوئے اپنی زندگی کے شب و روز علم معرفت کی آبیاری کرتے ہوئے گزار دیے چھوٹے چھوٹے جملے اقوال زریں بن گئے فرمایا پریشانی حالات سے نہیں بلکہ خیال سے پیدا ہوتی ہے الجھے ہوئے خیالات کے بیمار انسانوں کے لئے ان کی تحریریں اکسیر کا کام کرتی ہیں حکمت بھرے جملے زبان زد عام ہیں مثلا اس دنیا میں انسان نہ کچھ کھوتا ہے نہ پاتا ہے بلکہ صرف آتااور جاتا ہے یہ جملہ دنیا کی بے ثباتی کا عکاس ہے ایک جگہ فرمایا آنکھ اس وقت کھلتی ہے جب بند ہونے کے قریب ہوتی ہے جس نے ماں باپ کا ادب کیا اسکی اولاد بھی مودب ہوگی خوش نصیب انسان وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے بدی کی تلاش ہو تو اپنے اندر تلاش کرو نیکی کی تمنا ہو تو دوسروں میں تلاش کرو آسمان پر نگاہ رکھو لیکن یہ نہ بھولو کہ قدم زمین پر ہی رکھے جاتے ہیں خوش نصیبی وجود کا ظاہر نہیں انکی پہلی کتاب کرن کرن سورج مختصر جملوں اور اقوال پر مشتمل ہے جو پڑھنے والے کو حکمت آگاہی اور قرب الہی کی طرف راہبری کرتی ہے۔ آپکا ارشاد ہے حضور اتنے خوش نصیب ہیں کہ جو آپ کا غلام ہو گیا وہ بھی خوش نصیب کر دیا گیا آج کا انسان صرف دولت کو خوش نصیبی سمجھتا ہے یہی اسکی بدنصیبی کا ثبوت ہے زیادہ بولنے والا انسان مجبور ہوتا ہے کہ وہ سچ اور جھوٹ کو ملا کر بولے انکی محفل میں بہت سارے سوالوں کے جواب عطا کیے گئے انکو کتابی شکل میں جمع کر دیا گیاہے انکے مطالعہ کرنے والے کو عشق الہی عشق مصطفی اور انسان کےلئے سود مند ہونے کا درس ملتا ہے آجکل انسان انسانوں سے خوف کھانے لگے ہیں کیونکہ حرص طمع لالچ اور ذاتی مفاد کے حصول نے انسانوں کو بے حس بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی احساس کی دولت ہی لٹ چکی ہے معاشرہ جسے جماعت کا عکاس ہونا چاہیے لیکن انفرادیت نے اس احساس کو شدید مجروح کر دیا ہے ایسے حالات میں حضرت واصف علی واصف کے افکار اور خیالات زندگی کے رویوں کو بدلنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اور معاشرتی زوال سے نجات کا ذریعہ بھی ہیں حضرت واصف علی واصف صاحب کی ہم عصر نامور شخصیات ان کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں ان چند تاثرات سے واضح ہو جائے گا حنیف رامے صاحب نے کہا حضرت واصف صاحب جیسے لوگ دنیا میں آتے نہیں بھیجے جاتے ہیں اعجاز بٹالوی صاحب نے فرمایا واصف صاحب کے الفاظ امانت ہیں اور کتابیں صدقہ جاریہ ہیں منور بھائی نے کہا واصف صاحب اپنی تحریروں کتابوں کیسٹوں دوستوں کے دلوں شاگردوں کے دماغوں اور عقیدت مندوں کے ذہنوں میں زندہ ہیں مرزا ادیب نے کہا واصف صاحب کے مشاہدے وہاں سے شروع ہوتے ہیں جہاں ہماری قوت مشاہدہ اپنے پر سمیٹ لیتی ہے اشفاق احمد صاحب تو ان کی مجلس میں باقاعدگی سے شرکت کرتے اوربے پناہ مستفیض ہوئے ڈاکٹر انور سجاد نے اپنے تاثرات کو ان الفاظ کے سہارے بیان کیا کہ واصف صاحب عاشق رسول ﷺہیں اور ادراک کےسورج کی ایک ایک کرن اسی عشق کا پرتو ہے مجھے یقین ہے کہ اس وقت کے زوال کا حل حضرت واصف علی واصف صاحب کی کتابوں میں بیان کئے گئے اقوالوں میں مضمر ہے مجیب الرحمن شامی صاحب نے بہت خوبصورت انداز میں فرمایا کہ جو کچھ واصف علی واصف صاحب نے اپنے شہر اپنے ملک اور اپنے ماحول کو دیا وہ دینے والے کم ہی نظر آتے ہیں ۔ دعا ہے کہ ہم حضرت واصف علی واصف صاحب کے بیان کردہ اصولوں پر عمل پیرا ہو کر اپنی ذاتی زندگیوں کو بدل سکیں اور یہ آخرت میں نجات کا ذریعہ بنیں۔