کالم

آخر ہمارا ملکی مفاد ہے کیا ؟

س میں شک نہیں کہ ملک میں قیادت کا بحران ہے اور ایک لحاظ سے ملک کے سیاسی نظام کو بازیچہ اطفال بنا دیا گیا ہے۔ قومی مفاد کو بھی داﺅ پر لگا دیا ہے یہاں تک کہ اداروں کی ساکھ بھی مجروح ہو رہی ہے جو کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔ نظام وہی ہے مگر اقتدار کے حوالے سے ایک پارٹی کی جگہ دوسری کئی پارٹیوں نے اس کی جگہ سنبھال لی ہے۔کہا جاتا ہے کہ اپوزیشن جمہوریت کا حسن ہے مگر اس وقت جو اپوزیشن موجود ہے میڈیا پہ اس کا خوب چرچا ہے۔ قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت باہر ہوچکی ہے اور کئی جماعتوں کا مجموعہ بر سر اقتدار ہے۔ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ تبدیلی اقتدار عوامی مفاد میں ہے یا اس تبدیلی سے صورتِ حال پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر ہوچکی ہے ، ؟ سابقہ حکومت پر مہنگائی کا الزام تھامگر موجودہ حکومت نے توآئی ایم ایف کے مطالبے پر پٹرول، ڈیزل اور مٹی کے تیل کی قیمتیں بڑھا کر تاریخ رقم کر دی ہے جس سے مہنگائی کی ایک نئی لہر پیدا ہوئی اور یہ مہنگائی قومی بحران کو بھی جنم دے سکتی ہے۔ عوام یہ بھی سوال کر رہے ہیں کہ اگر سابقہ حکومت نے اگر مہنگائی کی بارودی سرنگیں بچھائی تھیں تو کیا نگران حکومت عوام پر مہنگائی کی کارپٹ بمباری نہیں کر رہی ہے؟۔ اس سیاسی تبدیلی نے سوالات کا کا در کھولا ہے کہ پاکستان میں حکومتوں کی تبدیلیاں پاکستانی عوام کرتے ہیں یا امریکہ؟ اور کیا امریکہ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی معاملات پر اثرانداز ہوتا ہے یاصرف امریکہ مخالف کارڈ استعمال کیا جا رہا ہے؟ اور کیا یہ حقیقت ہے کہ امریکہ اپنی ناپسندیدہ حکومتوں کو ہٹاکر اپنے کٹھ پتلی حکمرانوں کو مسندِ اقتدار پر بٹھاتا ہے؟۔بھر حال یہ ریکارڈ پر ہے کہ جب 1956ءمیں مصر کے صدر جمال عبدالناصر نے نہر سوئز کو نیشنلائز کرنے کا فیصلہ کیا اور اس سے بین الاقوامی تنازعہ پیدا ہوا تو اس وقت کے وزیراعظم حسین شہید سہروردی سے جب پوچھا گیا کہ مسلمان ملک کے بجائے آپ نے برطانیہ کا ساتھ کیوں دیاتو انہوں نے تاریخی جوابی جملے ادا کئے کہ ”مسلم ممالک سے اتحاد کا ہمیں کیا فائدہ ہوگا؟ ہ تو صفر جمع صفر برابر صفر والی بات ہے“۔ بہر حال موجودہ سیاسی ڈھانچے میں جھوٹ اور سچ میں تمیز اور کھوٹے اور کھرے کی پہچان مشکل ہے چھہتربرس گزرنے کے باوجود عوام کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر ہمارا ملکی مفاد ہے کیا ہے؟ گزشتہ پی پی پی دور اور نون لیگ کے ادوار میں مفاہمت اور ملکی مفاد کے نام پہ اس ملک کا جو حشر کیا وہ ہم سب کے سامنے ہے۔جھوٹ کون ہے اور سچا کون ہے؟ اور کھوٹے اور کھرے میں فرق کیا ہے عوام کیلئے یہ سمجھنا مشکل ہے۔ ہمیشہ یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان اس وقت جس نازک دور سے گزر رہا ہے ۔ ہر پاکستانی کےلئے لمحہ فکریہ ہے۔ ، لوگ مر رہے ہیں تو مرتے رہیں ، دشمن کے ہاتھ ہماری شہ رگ تک پہنچ جاتے ہیں تو پہنچتے رہیں۔ سیاست کے اس کھیل کو جمہوریت کا عنوان دیا گیا ہے۔ عوام کو آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر ہمارا ملکی مفاد ہے کیا ہے؟ ۔ہمارا ملک نظریاتی کشمکش سے دوچار ہے ایک طرف اس نظام کی بقا کی بات کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ نظام کو خطرہ ہے اور کبھی کبھی کہا جاتا ہے کہ کہ یہ نظام کرپٹ ہے ملک کے نظام کو چلانے والوں کے متعدد چہرے ہیں ہر چہرے کی جداگانہ شناخت ہے اور اس نظام کے سارے ڈانڈے کیپٹل ازم سے ملتے ہیں جسے میکاﺅلی، ایڈم اسمتھ اور لارڈ میکالے نے تشکیل کیا ہے ۔ اقتدار اور حکومت کو چند افراد تک محدود رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ، کمزورکی آواز دبائی جارہی ہے ، اور غریب کو ختم کرنے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے ، کرسی اقتدار پر بیٹھے لوگوں کو یہ منظور نہیں ہے کہ ان کے طریقہ کار پر کوئی سوال اٹھاسکے ۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں غریبوں کیلئے کوئی مقام نہیں ہوتا ہے، البتہ عوام کے نام پر پروپیگنڈا بہت ہوتا ہے ، دولت پر چند افراد کا قبضہ ہوتا ہے، موروثی سیاست کی وجہ سے شرافت اور عزت کا کاپی رائٹ مخصوص افراد کو دیا جاتا ہے ، چند مخصوص افراد کے سوا کسی اور انسان کو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ وہ شرافت اور عزت دار کہلا سکے یا اس طرح کی کسی بھی خصوصیت سے وہ قریب ہوسکے، اسی بنا پر چند افراد کو پروٹوکول دیا جاتا ہے۔حالانکہ انسانیت ، شرافت ، دولت ، اقتدار اور حکومت کسی کی جاگیر نہیں ہے ،یہ چیزیں صرف چند انسان کیلئے مخصوص نہیں ہے ، پوری انسانیت لائق احترام ہے ،تمام بنی آدم کو عزت واحترام سے جینے کا حق ہے۔ مگر یہاں تو حق کا ملنا دور کی بات یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ آخر ہمارا قومی مفاد کیا ہے؟ ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے