اداریہ کالم

آذربائیجان پاکستان میں 2ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریگا

پاکستان اور آذربائیجان نے جمعہ کو 17ویں اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر پاکستان کی معیشت میں 2 ارب ڈالر کی آذربائیجان کی سرمایہ کاری کیلئے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کیے،جس سے دو طرفہ سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔وزیراعظم شہباز شریف، نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور آذربائیجان کے وزیر اقتصادیات میکائیل جباروف کی موجودگی میں معاہدے کو حتمی شکل دی گئی۔یہ معاہدہ،جو وزیر اعظم شہباز اور آذربائیجان کے صدر الہام علیئیف کے درمیان ہونیوالی بات چیت کے بعد ہوا،صدر علیئیف کے آئندہ دورہ پاکستان کے دوران باضابطہ طور پر مزید مفصل یادداشت کیلئے مرحلہ طے کرتا ہے ۔ وزیراعظم نے اس معاہدے کو پاکستان اور آذربائیجان تعلقات میں ایک تاریخی سنگ میل قرار دیتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک نے تجارت، سرمایہ کاری، آبی وسائل کے انتظام اور گلیشیئر کے تحفظ میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔وزیراعظم نے دستخط کی تقریب کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے پر آذربائیجان کے صدر کے شکر گزار ہیں ۔ یہ شراکت داری مستقبل میں کئی گنا بڑھے گی۔یہ معاہدہ پاکستان کے سفارتی مشنز کی جانب سے جاری تعاون کو بڑھاتا ہے۔معاہدہ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان میں سرمایہ کاری کے مسلسل بہا کا عکاس تھا۔وزیر اعظم کی موجودگی میں نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار اور آذربائیجان کے وزیر اقتصادیات میکائل جبروف نے پاکستان کے اقتصادی شعبے میں آذربائیجان کی طرف سے مجموعی طور پر دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط کیے ۔ اس موقع پر پاکستانی وفد بھی موجود تھا۔وزیر اعظم اور آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کے درمیان خانکنڈی میں ایک خوشگوار ملاقات کے بعد دونوں ممالک کے درمیان معاہدے پر دستخط کیے گئے جبکہ حتمی اور تفصیلی معاہدے پر آذربائیجان کے صدر کے دورہ پاکستان کے دوران دستخط کیے جائیں گے۔ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان سرمایہ کاری اور تجارتی تعلقات کو تاریخی سطح پر لے گیا ہے۔معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان برادرانہ تعلقات کو مزید فروغ دینے اور تجارتی شراکت داری کو مضبوط بنانے کیلئے سنگ میل ثابت ہوگا ۔ وزیراعظم کے حالیہ دورے سے قبل نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ پاکستانی سفارتی مشن اور وفود نے اس معاہدے کے مختلف پہلوں پر اتفاق رائے پایا۔دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے کیلئے مزید تبادلوں پر بھی اتفاق کیا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان اور آذربائیجان نے دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط کیے، مستقبل میں سرمایہ کاری میں کئی گنا اضافہ کیا جائے گا۔پاکستان میں سرمایہ کاری پر آذربائیجان کے صدر کے شکر گزار ہیں۔ اقتصادی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں رکن ممالک نے تجارت،سرمایہ کاری، آبی وسائل اور دیگر مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ رکن ممالک نے گلیشیئرز پگھلنے کے معاملے پر تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ۔ وزیر اعظم شہباز نے علاقائی روابط، پائیدار ترقی اور امن کو مضبوط بنانے کیلئے ای سی او کے رکن ممالک کے وعدوں پر بھی روشنی ڈالی۔دورے کے دوران وزیر اعظم شہباز نے علاقائی استحکام اور اقتصادی تعاون پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے آذربائیجان، ایران،ترکی اور ازبکستان کے صدور سے دو طرفہ ملاقاتیں کیں۔
بھارتی ڈپٹی آرمی چیف کا اعتراف شکست
بھارتی ڈپٹی آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل راہل سنگھ نے پاکستان سے حالیہ جنگی جھڑپوں میں بری طرح شکست کا اعتراف کرتے ہوئے کچھ مضحکہ خیز وجوہات پیش کی ہیں۔اس قبل بھارتی ایئر چیف بھی اعتراف کر چکا ہے۔ بھارتی ڈپٹی آرمی چیف نے بتایا کہ ڈی جی ایم او ٹاک کے دوران پاکستانی فوج کو بھارتی افواج کی نقل وحرکت کا بخوبی علم تھا،بلاشبہ پاکستان کی C4ISR صلاحیتوں نے بھارتی فوج کو حیران کر دیا۔اس اس بات کا کھل کر اظہار کیا کہ پاک فضائیہ کی الیکٹرانک جنگی صلاحیتیں آپریشن سندور کے دوران بے مثال تھیں،اور بھارت کے بڑا سائز ہونے کے باوجود بھارتی ائیرڈیفنس ناکام رہا۔پاک فوج کے الفتح راکٹ سسٹم نے بھارتی فوجی اڈوں کو مثر طریقے سے نقصان پہنچایا۔انہوں نے کھلی شکست پر پردہ ڈالتے ہوئے کہا کہ ہمارا سامنے سرحد ایک تھی مگردشمن 3 تھے،یعنی انہوں نے چین اور ترکی کو بھی اس میں لپیٹ دیا۔موصوف کا یہ بھی کہنا تھا کہ چین نے اپنے ہتھیارروں کا تجربہ بھارتی سرزمین پر ایک لیبارٹری کے طور پر کیا۔اس بھونڈی قسم کی وضاحت پہ ہنسی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔پاکستان نے تو کبھی نہیں کہا کہ اور نہ کبھی بچگانہ گلہ کیا کہ بھارت نے اسرائیلی اور فرانسیسی اسلحہ کیوں استعمال کیا۔بھارت کو تین دشمنوں کا گلہ کرنے کی بجایے اپنی حکمت عملی پر غور کرنا چاہیے ، جس نے اسے بین الاقوامی سطح پر تنہا کر دیا ہے۔جنگی جنون میں مبتلا بھارتی حکومت کی بزدل فوج کو یہ شکوہ کرتے شرم آنی چاہئے کہ اسے وقت پر اہم جنگی سامان نہیں ملا۔بھارتی حکومت پر یہ کھلی تنقید دراصل بھارت کے بڑھتے ہوئے اندرونی سیاسی خلفشار کا مظہر ہے،گزشتہ ماہ بھارتی ایئر چیف مارشل امر پریت سنگھ نے بھی شکوہ کیا تھا کہ بھارتی دفاعی منصوبہ کبھی وقت پر پورا نہیں ہوتا۔بھارتی دفاعی ماہرین اپنی حکومت بتا رہے ہیں کہ پاکستان، بھارت کی طرف سے کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں بھارتی معاشی، انڈسٹریل کمپلیکسز کو نشانہ بنا سکتا ہے،آئی ایس پی آر پہلے ہی یہ بتا چکا ہے کے معرکہ حق کے دوران پاکستان نے اپنی تکنیکی صلاحیتوں کا صرف دس سے پندرہ فیصد استعمال کیا جبکہ باقی صلاحیتیں ابھی باقی ہے ۔پاکستانی مسلح افواج نے ، پیشہ ورانہ صلاحیتوں، دلیرانہ قیادت اور عوام کے بھرپور اعتماد کی بدولت بھارت کو شکست فاش دی۔
روس طالبان تعاون
روس کا افغانستان میں طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا تاریخی فیصلہ ایک پیچیدہ جغرافیائی سیاست کے تناظر میں بین الاقوامی سفارت کاری کی ایک عملی بحالی کی نمائندگی کرتا ہے۔جب کہ طالبان کا انسانی حقوق کا ریکارڈ،خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے حوالے سے،گروپ کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد سے بدتر ہو گیا ہے،ماسکو کا یہ اقدام ان پالیسیوں کی توثیق نہیں کرتا ہے۔اس کے بجائے یہ زمینی حقائق کا اعتراف اور گہرے مضمرات کے ساتھ علاقائی استحکام میں ایک اسٹریٹجک سرمایہ کاری ہے۔یہ معقول طور پر دلیل دی جا سکتی ہے کہ یہ فیصلہ افغانستان کو خود مختار ذمہ داری کے فریم ورک کے اندر لنگر انداز کرتا ہے۔طالبان کو صحیح حکومت کے طور پر قبول کرنا کابل کو بین الاقوامی اصولوں اور ذمہ داریوں کے ساتھ منسلک ہونے پر مجبور کرتا ہے،کم از کم،روس اور افغانستان کے درمیان تمام درست دو طرفہ معاہدوں،اور یہاں تک کہ چند کثیر جہتی معاہدے بھی برسوں کی تنہا طالبان کی حکومت کو معتدل کرنے یا عام افغانوں کے حالات کو بہتر بنانے میں ناکام رہے ہیں مصروفیت،چاہے مشکل ہی کیوں نہ ہو،اثر و رسوخ اور احتساب کا مطالبہ کرنے کیلئے ایک چینل پیش کرتی ہے،جہاں تنہائی صرف نفرت اور مایوسی کو جنم دیتی ہے۔افغانستان کے ساتھ تعاون سے روس کو اپنے اور اپنے اتحادیوں کیلئے ایک بڑے سیکیورٹی خطرے سے نمٹنے میں بھی مدد مل سکتی ہے اسلامک اسٹیٹ (داعش)دہشتگرد گروپ،جو افغانستان کو ایک تربیتی میدان اور وسطی ایشیا اور قفقاز میں حملوں کیلئے لانچ پیڈ کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔طالبان داعش کو مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکام رہے ہیں اور روس کی طرف سے کسی نہ کسی شکل میں مدد کا خیرمقدم کیا جا سکتا ہے۔ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کرنے سے روس واضح طور پر فائدہ اٹھائے گا،یہاں کے بجائے وہاں۔ طالبان کو تسلیم کرنے سے روس،اور کوئی بھی اتحادی جو سفارتی تعلقات کی بحالی میں اس کی قیادت کی پیروی کرتا ہے،رکے ہوئے ریل اور سڑک کے رابطے کے منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے کی اجازت دیتا ہے۔طالبان کو ان کے انسانی حقوق کے بدترین ریکارڈ کے لیے مسلسل جوابدہ ہونا چاہیے،لیکن شاید اپنی حکمت عملی کو بدلنا اور انھیں یہ دیکھنے دینا کہ عالمی نظام کے حصے کے طور پر اچھی زندگی کتنی اچھی ہو سکتی ہے،نہ کہ اچھوت کے طور پر،انھیں اپنے طریقے بدلنے پر راضی کرنے میں بہتر ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے