اداریہ کالم

آرمی ایکٹ کے تحت سزاﺅں کی قراردادیںمنظور

idaria

قومی اسمبلی اورسینٹ میں سانحہ نومئی کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی جلد کرنے اور آرمی ایکٹ کے تحت کئے جانے کے لئے قرارداد پاس کی گئی ہے جس کامقصدشایدیہ ہے کہ اس ایکٹ کے خلاف کارروائی کئے جانے پر بین الاقوامی سطح سے ممکنہ آوازاٹھانے والے عناصر کو یہ بتانامقصود ہے کہ یہ کارروائی عوامی امنگوں کے مطابق کی جارہی ہے اوراس میں کوئی سیاسی انتقامی کارروائی نہیں کی جارہی بلکہ جو لوگ قومی دفاعی املاک کو نذرآتش کرنے میں ملوث ہیں ان کی بیخ کنی کرنے کے لئے اس ایکٹ کے تحت کارروائی کاکیاجاناضروری تھا۔کسی بھی ملک کے لئے اس کے دفاعی اثاثے اور قومی ہیروزمقدم ہواکرتے ہیںاوران کی حفاظت کے لئے الگ قوانین بنائے جاتے ہیں۔حال ہی میں امریکہ میں اسی قانون کے تحت مجرمان کو کڑی سزائیں دی گئیں۔ اگر یہ قراردادپاس نہ ہوتی تب بھی اس واقعہ کے ذمہ دار عناصر کوسخت سے سخت سزادیکر کیفرکردارتک پہنچاناازحدضروری تھا کیونکہ سانحہ نومئی میں شریک ملزمان سخت سے سخت سزا کے مستحق ہیں۔اسی حوالے سے گزشتہ روز قومی اسمبلی میں 9 مئی کے واقعات کی مذمت اور ملوث ملزمان کے کیس فوجی عدالتوں میں چلانے کے حوالے سے قرار داد کثرت رائے سے منظور کر لی گئی جماعت اسلامی کی طرف سے قرار داد کی مخالفت ، قرار داد وفاقی وزیر خواجہ آصف نے پیش کی ۔ قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کی سربراہی میں منعقد ہوا اجلاس میں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے قرارداد پیش کی تو جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالاکبر چترالی نے قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ جنہوں نے جرمکیا ہے ان کو سزا ملنی چاہیے دہشتگردی میں ملوث ہے تو دہشت گردی کی عدالتیں موجود ہیں کیا عدلیہ ناکام ہے عدلیہ فعال نہیں ہے تو کیس فوجی عدالتوں میں بھیج دیں میں فوجی عدالتوں کی مخالفت کرتا ہوں سولیں کا سول عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے اس پر خواجہ آصف نے رد عمل دیتے ہوئے کہاکہ فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا اختیار فوج کو ہوتا ہے اس لیے ان کو فوجی عدالتوں میں کارروائی کرکے سزا دی جائے ۔ پاکستان سے محبت کرنے والا فوجی تنصیبات پر حملہ نہیں کرسکتا ہے ۔فوجی تنصیبات پر منصوبے کے تحت حملہ ہواہے۔ فوجی ملک کی دفاع کے لیے جانیں دے رہے ہیں۔ ہمارا نظام کمپرومائز ہوگیاہے ۔ ایک شخص نے دفاعی اداروں کے خلاف جنگ شروع کردی ہے ہم دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑرہے ہیں ۔ اقتدار سے محروم ہونے پر دفاعی اداروں پر حملہ کیا گیا ۔عدالیہ نے سوموٹو پر نظر ثانی پر عمل روک دیا ہے ۔ عالمی اداروں کو مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی نظر نہیں آرہے ہیں ۔پاکستان ان لوگوں کے خلاف اپنے وجود کی جنگ لڑرہی ہے۔ شہدا کی یادگاروں کی توہین کوئی پاکستانی برداشت نہیں کر سکتا، میانوالی ایئربیس پر 85 جہاز کھڑے تھے جن کو جلانے کی کوشش کی گئی، نو مئی واقعات کے تمام شواہد موجود ہیں، ملوث افراد کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔ وائٹ ہاﺅس، کیپٹل ہل پر حملہ کرنےوالوں کو 18،18سال قید کی سزائیں سنائی گئی ہیں، امریکا، یورپ والوں کو غزہ کے اندر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نظر نہیں آتیں، 50لوگوں کے مارے جانے کے حوالے سے پراپیگنڈا کیا گیا، ہمیں کہا جا رہا ہے کہ یہ نہیں فلاں قانون اپلائی کریں، پوری دنیا میں فوجی تنصیبات پر حملوں کے کیس فوجی عدالتوں میں چلتے ہیں، ہم نے کوئی نیا قانون نہیں بنایا یہ پہلے سے موجود ہے۔ جہاں دہشت گردی ہو گی وہاں دہشت گردی قانون کے تحت کیس چلے گا، جہاں 16 ایم پی او کے تحت کیس چلنا ہے اسی کے مطابق چلے گا، جن لوگوں نے جہازوں کو نشانہ بنایا، قلعہ بالا حصار کو نشانہ بنایا ان کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت ہی کیس چلے گا، آرمی ایکٹ کے تحت سزاﺅں کے خلاف تین اپیلوں کا حق ہے، سوموٹو میں کسی کو بھی اپیل کا حق حاصل نہیں ہے، ایوان نے اپیل کے حق کیلئے قانون سازی کی، دفاعی فورسز کا حق ہے کہ ان کی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو قانون کے مطابق سزا دے۔ ایک جماعت اس ملک کی یکجہتی کے خلاف کام کر رہی ہے، ملک کے اندر اور باہر سے پراپیگنڈا کی بھرمار ہے۔دوسری جانب سینیٹ اجلاس میں بھی 9 مئی کے پرتشدد واقعات پر متفقہ طور پر مذمتی قرارداد منظور کر لی گئی۔وزیر مملکت شہادت اعوان نے قرارداد ایوان میں پیش کی، قرار داد میں کہا گیا کہ 9مئی کو جناح ہاﺅس، ریڈیو پاکستان اور دیگراملاک کو نقصان پہنچایا گیا ، ایوان 9 مئی کے پرتشدد واقعات کی مذمت کرتا ہے ۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ پاک فوج کے شہدا پاکستان کا فخر ہیں، پاکستان کے استحکام اور امن کیلئے پاک فوج نے قربانیاں دی ہیں، واقعات میں ملوث افراد اور سہولت کاروں کو سخت سزا دی جائے۔
مہنگائی میں کمی کاعندیہ
سٹیٹ بینک نے اپنی نئی پالیسی کااعلان کردیاہے جس کے مطابق شرح سود کو اکیس فیصد تک بررقراررکھنے کافیصلہ کیاگیاہے ۔وزارت خزانہ کے ذرائع کے مطابق اس اقدام کی بدولت ملک میں جاری مہنگائی کی شرح میں کمی لائی جاسکے گی اوراس کے اثرات ایک ماہ بعد ظاہر ہونا شروع ہوجائیں گے۔اسی حوالے سے سٹیٹ بینک آف پاکستان نے نئی مانیٹری پالیسی کا اعلان کردیا۔سٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ دو ماہ کیلئے نئی مانیٹری پالیسی کرتے ہوئے شرح سود 21 فیصد کی سطح پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔مرکزی بینک کے مطابق رواں مالی سال نو ماہ کا مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 3.6 فیصد رہا جبکہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت کا مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 3.9 فیصد تھا۔اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کا 6.5 فیصد رہنے کا امکان ہے، رواں مالی سال کے گیارہ ماہ کا اوسط افراط زر 29 فیصد اور جاری کھاتے کا خسارہ 3.3 ارب ڈالر رہا۔سٹیٹ بینک کے مطابق جاری کھاتہ کے خسارے میں کمی نے زرمبادلہ کا دباﺅ کم کرنے میں مدد فراہم کی، قرضوں اور واجبات کی ادائیگی، سرمائے کی آمد میں کمی سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباﺅ بڑھا۔یاد رہے کہ گزشتہ اعلان میں مانیٹری پالیسی کمیٹی نے شرح سود میں 100بیسز پوائنٹس کا اضافہ کیا تھا،اضافے کے بعد پالیسی ریٹ 21فیصد پر ہے جو ملکی تاریخ کی نئی بلند ترین سطح ہے، اس سے قبل 2مارچ کو 300بیسز پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا تھا ۔ گزشتہ مالی سال کے اختتام پر پالیسی ریٹ 14.75فیصد رہا تھا، رواں مالی سال کے دوران اب تک شرح سود میں 6.25فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
کم عمری میں شادیوں کی حوصلہ شکنی کے لئے آئینی اقدامات
حکومت کم عمری میں ہونیوالی شادیوں کی حوصلہ شکنی کے لئے آئینی اقدامات اٹھارہی ہے کیونکہ کم عمری میں ہونیوالی شادیوں کی بدولت زچگی کے دوران اموات کی شرح میں خوفناک اضافہ دیکھنے میں آرہاتھااس حوالے پنجاب اورسند ھ کی حکومتوں نے باقاعدہ طورپر قومی اسمبلی سے ایکٹ منظورکرواکرقانون سازی کی ہوئی ہے اب اسے ملک بھرمیں نافذکرنے کا فیصلہ کیاگیاہے جو ایک مثبت اورحوصلہ افزااقدام ہے کیونکہ اس کی بدولت ماں اوربچے کی صحت کی حفاظت یقینی بنائی جاسکے گی۔گزشتہ روز لاہور ہائیکورٹ نے کم عمر بچوں کی شادیاں کرنے اور کروانے والوں کیخلاف کارروائی کا حکم دے دیا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس انوار الحق پنوں نے چھوٹی عمر میں بچوں کی شادیوں کیخلاف رخسانہ بی بی اور ارشاد بی بی کی درخواستوں پر حکم جاری کیا، عدالتی حکم میں محکمہ بلدیات کو کم عمر بچوں کے شادی کیخلاف قانون پر عمل درآمد یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ عدالت نے کم عمر میں شادی کرنے والے دولہا، نکاح رجسٹرارز اور شادی کے گواہوں کے خلاف بھی کارروائی کا حکم دیا ہے، عدالت نے سیکرٹری بلدیات کو عدالتی احکامات پر عمل درآمد کی رپورٹ 19 جون کو پیش کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ لاہور ہائیکورٹ کے حکم میں کہا گیا ہے کہ آگاہ کیا جائے کم عمری میں شادی کرنے والوں کے خلاف قانون پر کس حد تک عمل درآمد ہوا، بتایا جائے کم عمر بچوں کے شادیوں کے خلاف کتنی شکایات آئیں اور کتنی پر کارروائی ہوئی؟ بچوں کی کم عمری میں شادی رکوانے کا ایکٹ 1929 موجود ہے۔ جسٹس انوار الحق پنوں نے ریمارکس دیئے کہ کم عمر بچوں کی شادیوں پر چاول کھانے والے باراتیوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے