کالم

آرمی چیف کابروقت اور دانشمندانہ اقدام

پاکستان کی تخلیق اسلام کے نام پر ہوئی ہے اور یہی وجہ ہے کہ وطن عزیز میں مذہب عوامی رائے اور سماجی رُخ متعین کرنے میں ہمیشہ ایک م¶ثر قوت کے طور پر موجود رہا ہے۔آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے حال ہی میں ملک کے مایہ ناز اور مختلف مکتبہ ہائے فکر کے نمائندہ علمائے کرام کے ساتھ جنرل ہیڈ کوارٹر میں رکھے گئے ایک اجلاس میں شرکت کی۔ یہ اجلاس چند عناصر کی طرف سے اسلام کو اپنے ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرنے کی گھنا¶نی سازش کو سبو تاژ کرنے اور اس وجہ سے پیدا ہونے والی امن و امان کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے کی جانے والی مشترکہ کوششوں کا ایک حصہ تھا۔آرمی چیف نے ریاست کے علاوہ کسی بھی گروہ، فرد یا تنظیم کی طرف سے قوت کے استعمال یا مسلح جدو جہد کو واضح الفاظ میں ”ناقابل قبول” قرار دیا۔ یہ اعادہ اس قومی اصول کی تائید کرتا ہے کہ پاکستان بلا امتیاز رنگ و نسل، مسلک و مذہب، زبان و علاقہ یا قوم و قبیلہ سب پاکستانیوں کا ہے۔ حالیہ منظر نامہ یہ ہے کہ پاکستان کو، اسلام کے نام پر ذاتی مقاصد کے لئے کام کرنے والے بہت سے مسلح گروہوں اور تنظیموں کی طرف سے سنجیدہ نوعیت کے امن و عامہ اور دفاع و سلامتی کے مسائل کا سامنا ہے۔اسلامک سٹیٹ خراسان پراونس (ISKP)، تحریک طالبان پاکستان (TTP) اور دیگر تنظیمیں مذہبی نظریات کے نام پر ظلم و تشدد کا استعمال کر کے ملک و قوم کی سلامتی کے لئے خطرات کا باعث بن رہی ہیں۔تاہم، مذکورہ اجلاس کی اہمیت حالیہ دنوں میں اقلیتوں کو نشانہ بنانے کے گھنا¶نے عمل کی وجہ سے اور بڑھ جاتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے، احمدیوں، عیسائیوں اور ہندو¶ں پر ہونے والے مظالم کے سلسلے میں بالخصوص اپنے تحفظات اور تشویش کا اظہار کیا ہے۔ پاک فوج کا عزم ہے کہ عدم برداشت اور انتہا پسندی کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ پاک فوج کا یہ عزم و ارادہ اس اصول کی بنیاد پر قائم ہے کہ پاکستان کے تمام شہریوں کا تحفظ فوج کی ذمہ داری ہے۔اس طرح کا ایک واقعہ اُس وقت پیش آیا جب مبینہ طور پر توہین کے الزام کی وجہ سے ایک مشتعل ہجوم نے نہ صرف گرجا گھروں پر حملہ کیا بلکہ جڑانوالہ میں مسیحی آبادی کو بھی نشانہ بنایا۔ آرمی چیف، امن و امان اور قومی مفاہمت سے متعلق فوج کی ذمہ داریوں اور عزم کا اعادہ کرتے ہوئے پہلے بھی اس بات پر زور دے چکے ہیں کہ اسلام یا کسی بھی مہذب معاشرے میں عدم برداشت کی کوئی گنجائش نہیں۔پاکستان انسٹٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی سٹڈیز (PICSS) کی ایک رپورٹ میں، سن 2023 ءکے پہلے چھے ماہ میں پچھلے برس کی اسی مدت کے مقابل، بڑھتے ہوئے عسکریت پسندانہ حملوں کی پرتشویش صورت حال آشکار کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ایسے حملوں میں 79٪ کا خوفناک اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس نوع کے 271 حملوں میں 389 اموات ہوئیں اور 656 افراد زخمی ہوئے۔ یہ اعداد و شمار پاکستان میں مذہبی شدت پسندی کی وجہ سے پیدا ہونے والے امن و عامہ اور دفاع و سلامتی کی راہ میں کھڑے ہونے والے مسائل کی سنگین صورت حال ظاہر کرتے ہیں۔ ان تمام حالات و واقعات کو نظر میں رکھتے ہوئے آرمی چیف کی علماءو مشائخ سے ملاقات کا اصل مقصد یہ تھا کہ علمائے کرام کو شدت پسندی، فرقہ واریت اور انتہاءپسندی کیخلاف متحد کیا جائے۔ علماءکی مدد سے آرمی چیف کے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ اس طرح کے شدت پسندانہ اور دہشتگرانہ افعال و نظریات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ گھنا¶نے کام اسلام کی بنیادی تعلیم کے منافی ہیں۔ اور یہ کہ انتہاپسند تنظیمیں اور عناصر کی طرف سے ترتیب دیئے گئے جھوٹے بیانیے کو بے نقاب کرنے اور ان کے عزائم کو شکست دینے کے لئے ہمارا ایک متفقہ لائحہ عمل اور اُس کے مطابق مشترکہ کوشش ضروری ہے۔ علاوہ ازیں اس اجلاس میں ایک اور اہم پیش رفت کی نشاندہی کرتے ہوئے علماءو مشائخ کی طرف سے دیئے گئے ”پیغام پاکستان” نامی فتوے کو بھی آرمی چیف کی طرف سے سراہا گیا۔ یہ فتویٰ، انتہاءپسند عناصر اور دہشت گردوں کی طرف سے پھیلائے گئے منفی پراپیگنڈے کی بنیادیں ہلانے کے لئے اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ آرمی چیف نے اس فتویٰ کے ہر طرف پھیلا¶ اور اس کے اطلاق کی ضرورت پر زور دیا تاکہ اس سے داخلی امن و اتحاد کو فروغ دیا جاسکے اور انتشار کا خاتمہ کیا جا سکے۔
٭٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے