کالم

آزادی اور وقت کا تقاضا ۔۔۔!

پاکستان کی آزادی ایک ایسا تاریخی اور انمول لمحہ ہے جو ہماری قومی تاریخ میں ہمیشہ زندہ و جاوید رہے گا۔ یہ محض ایک سیاسی واقعہ یا جغرافیائی تبدیلی نہیں تھی بلکہ یہ ایک نظریے کی جیت، قربانیوں کی تکمیل اور ایک عظیم خواب کی تعبیر تھی۔ برصغیر کے مسلمانوں نے صدیوں تک غلامی، محرومی اور استحصال کا سامنا کیا۔ مغل سلطنت کے زوال کے بعد انگریزوں نے یہاں اپنے تسلط کو مضبوط کیا اور ہندو اکثریت نے اپنی سیاسی و معاشی بالادستی کے خواب دیکھے۔ مسلمانوں کو رفتہ رفتہ سیاسی قوت سے محروم کر کے تعلیمی، ثقافتی اور تہذیبی محاذ پر بھی پیچھے دھکیلنے کی کوشش کی گئی۔ ایسے میں سر سید احمد خان جیسے مصلحین نے تعلیم کی اہمیت پر زور دیا اور ایک بیداری کی لہر پیدا کی۔ اسی بیداری نے آگے چل کر علامہ اقبال کے خواب اور قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایک تحریک کا روپ اختیار کیا۔تحریکِ پاکستان دراصل محض زمین کے ایک ٹکڑے کا مطالبہ نہیں تھا بلکہ یہ ایک ایسے آزاد خطے کی جدوجہد تھی جہاں مسلمان اپنی تہذیب، دین اور معاشرتی اقدار کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ قراردادِ لاہور 1940میں جب مسلم لیگ نے ایک الگ ریاست کا مطالبہ کیا تو یہ اعلان برصغیر کی سیاست میں ایک سنگ میل ثابت ہوا۔ اس کے بعد کے سات برس ایک مسلسل محنت، سیاسی حکمت عملی، قربانیوں اور عزم کی داستان ہیں۔ لاکھوں مسلمانوں نے اپنا گھر بار چھوڑا، ہزاروں جانیں قربان ہوئیں اور بالآخر 14 اگست 1947 کو پاکستان دنیا کے نقشے پر ابھرا۔آزادی کے اس عظیم لمحے کے پیچھے جن لوگوں کی قربانیاں تھیں، ان کا مقصد ایک ایسا پاکستان بنانا تھا جو اسلامی اصولوں کی بنیاد پر عدل و انصاف فراہم کرے، جہاں ہر شہری کو بلا تفریق مساوی مواقع ملیں، جہاں معیشت خود کفیل ہو، تعلیم عام ہو اور اخلاقی اقدار معاشرے میں رچ بس جائیں لیکن آزادی کے بعد جو چیلنجز سامنے آئے، وہ کسی بھی نوآزاد ملک کے لیے آسان نہ تھے۔ ملک کو فوری طور پر سیاسی ڈھانچہ قائم کرنا تھا، لاکھوں مہاجرین کو آباد کرنا تھا، معیشت کو سنبھالنا تھا اور دشمن عناصر سے ملک کے تحفظ کو یقینی بنانا تھا۔ ان سب معاملات میں ہماری قیادت نے کچھ کامیابیاں حاصل کیں مگر بہت سے مواقع ضائع بھی ہوئے۔وقت کا سب سے بڑا تقاضا یہ تھا کہ ہم آزادی کے حقیقی مقصد کو فراموش نہ کرتے اور اپنی سمت درست رکھتے۔ بدقسمتی سے ہم نے بارہا سیاسی عدم استحکام، بدعنوانی اور ذاتی مفاد پر مبنی فیصلوں کو اپنے راستے میں حائل ہونے دیا۔ جمہوریت کا تسلسل بار بار ٹوٹا، ادارے کمزور ہوئے، معیشت قرضوں کے بوجھ تلے دب گئی اور عوام کے لیے زندگی کے بنیادی مسائل حل نہ ہو سکے۔ یہ سب کچھ آزادی کے اس وعدے سے انحراف تھا جو قیامِ پاکستان کے وقت قوم سے کیا گیا تھا۔آج وقت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے ماضی کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ ہم نے کہاں غلطیاں کیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ آزادی ایک نعمت ہے لیکن اس کی بقا کے لیے قربانی، محنت، دیانت اور اتحاد ناگزیر ہیں۔ ایک باشعور قوم اپنے آئین کی پاسداری کرتی ہے، اداروں کو مضبوط بناتی ہے، عدل کو یقینی بناتی ہے اور تعلیم و معیشت میں ترقی کیلئے طویل المدتی منصوبے بناتی ہے۔ ہمارے ملک میں تعلیم کا معیار اور رسائی دونوں کمزور ہیں، جب تک ہم تعلیمی انقلاب نہیں لائیں گے ہم عالمی سطح پر مقابلہ نہیں کر سکیں گے۔اسی طرح معیشت میں خود انحصاری پیدا کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔ ہم نے اپنی صنعتی ترقی پر توجہ نہیں دی، زراعت کو جدید خطوط پر استوار نہیں کیا، تحقیق و ترقی میں سرمایہ کاری نہیں کی اور درآمدات پر حد سے زیادہ انحصار کیا۔ یہ سب رویے ہمیں عالمی معیشت میں کمزور کر رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے وسائل کو درست استعمال کریں تو پاکستان معدنیات، زراعت، انسانی وسائل اور جغرافیائی محلِ وقوع کے لحاظ سے دنیا کے مضبوط ممالک میں شامل ہو سکتا ہے۔سیاسی استحکام بھی وقت کا ایک اور اہم تقاضا ہے۔ بار بار کے سیاسی بحران عوام کے اعتماد کو مجروح کرتے ہیں اور ترقیاتی عمل کو روکتے ہیں۔ ہمیں برداشت، مکالمے اور قومی مفاد کی سیاست اپنانا ہوگی۔ قیادت کو ذاتی انا اور جماعتی مفادات سے اوپر اٹھ کر سوچنا ہوگا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بھی ہمیں ایک متوازن رویہ اپنانا ہوگا۔ دنیا تیزی سے بدل رہی ہے، نئے اتحاد اور نئے چیلنج سامنے آ رہے ہیں۔ ہمیں اپنی خودمختاری اور وقار کو برقرار رکھتے ہوئے بین الاقوامی تعلقات میں لچک اور حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ہمیں اپنی پالیسیوں کو ایسے مرتب کرنا ہوگا کہ وہ نہ صرف ہماری سلامتی بلکہ ہماری اقتصادی ترقی میں بھی مددگار ہوں۔آزادی کا ایک اور اہم تقاضا قومی یکجہتی ہے۔ ہمیں اپنی مذہبی، لسانی اور علاقائی شناختوں کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے ایک قوت بنانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اس وقت مختلف انتہا پسندانہ رجحانات اور اندرونی تقسیم کا شکار ہے۔ یہ رجحانات ہمیں کمزور کر رہے ہیں اور دشمن قوتوں کو موقع فراہم کر رہے ہیں۔ ایک مضبوط اور متحد قوم ہی آزادی کے حقیقی ثمرات حاصل کر سکتی ہے۔ اگر ہم اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگی کے ہر شعبے میں ایمانداری اور محنت کو شعار بنانا ہوگا۔ آزادی صرف ایک دن کے جشن کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل جدوجہد کا تقاضا کرتی ہے۔ آج سے ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم نے پاکستان کو کس سمت میں لے جانا ہے۔ اگر ہم نے سنجیدگی اور عزم کے ساتھ اصلاحات نہ کیں تو آنے والی نسلیں ہم سے سوال کریں گی کہ ہم نے آزادی کی قدر کیوں نہ کی۔وقت ہم سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ ہم اپنی آزادی کو محفوظ رکھنے کے لیے تعلیمی، معاشی، سیاسی اور اخلاقی بنیادوں کو مضبوط کریں۔ ہمیں اپنی آئندہ نسلوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ پاکستان ایک امانت ہے جو ہمیں قربانیوں کے نتیجے میں ملی، اور اس کی حفاظت ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ آج کا نوجوان اگر محنت، دیانت اور جدوجہد کو اپنا شعار بنا لے تو وہ پاکستان کو ترقی یافتہ اقوام کی صف میں لا سکتا ہے۔آزادی اور وقت کا تقاضا یہی ہے کہ ہم اپنی خودی کو پہچانیں، اپنی اصل اقدار کی طرف لوٹیں اور اپنے وطن کو ایک مضبوط، خودمختار اور خوشحال ریاست بنائیں۔ یہی وہ خواب ہے جو اقبال نے دیکھا تھا اور یہی وہ مقصد ہے جس کیلئے قائداعظم نے اپنی زندگی وقف کی۔ اگر ہم نے اس خواب کو حقیقت میں بدل دیا تو آنے والی نسلیں فخر سے کہیں گی کہ ہم نے آزادی کی لاج رکھی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے