کالم

آزادی سے قومیں بنتی ہیں

قوموں کی زندگی میں آزادی اور غلامی کی اہمیت بہت زیادہ ہوتی ہے۔آزادی اور غلامی سے ہی قوموں کی زندگیوں کا حقیقی تعین کیا جاتا ہے۔آزادی سے قومیں بنتی ہیں جبکہ غلامی سے غلام ابن غلام جنم لیتے ہیں.کوئی بھی قوم تب تک قوم نہیں بنتی،جب تک آزادی اور غلامی کی صحیح روح اور درست تصور سے آشنا نہ ہو جائے،ایک آزاد اور خود مختار ریاست ہی حقیقت میں ایک قوم کی نمائندہ جماعت ہوتی ہےجو پاکستان کو اس کے حقیقی مسائل سے نکال سکتی ہے۔عوام کے دکھ درد کا مداوا کر سکتی ہے۔قوم کو خود داری, غیرت و حمیت کا سبق اور زمانے میں زمانے کی رفتار سے پنپنے کا طریقہ اور زندگی کے تمام تر حوادث و وقوائع میں جینے کا حوصلہ اور سلیقہ دیتی ہے۔قوم کی اصلی اور حقیقی اڑان کیا،طے کرتی ہے۔اپنے مد مقابل مخالف سے گھبراتی نہیں۔ملک دشمن عناصر کے خلاف تمام تر مصالحانہ تدابیر و احتیاط کے باوجود بوقت ضرورت ننگی تلوار ثابت ہوتی ہے۔کسی صورت بھی اغیار کے جھانسے میں نہیں آتی۔اپنے ملک کی آزادی و خود مختاری کا کسی صورت بھی سودا نہیں کرتی,دشمن سے بالکل نہیں گھبراتی ۔ تمام تر تکلیفوں،پریشانیوں، گھبراہٹوں ، وسوسوں اور تحفظات و خدشات کے باوجود بھی حوصلہ نہیں ہارتی۔دشمن کے سامنے کبھی بھی اپنے آپ کو کمزور ثابت نہیں کرتی۔دشمن کے سامنے ہمیشہ سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑی رہتی ہے۔اس کے سربراہان قوم کےلئے ایک امید ہوتے،عوام کے سامنے ساری صورتحال رکھتے،عوام کو بتاتے کہ کیا صحیح کیا غلط،دشمن سے اسی کے لہجے میں بات کرتے ، مخالف کے مقابلے میں ریت کی دیوار ثابت نہیں ہوتے,اپنوں کے ساتھ نرم اور کفار کے معاملے میں سخت ہوتے،جھوٹ سے کوسوں دور اور سچ کا پرچار کرنے والی ہوتے،اپنوں اور غیروں کی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجود عزم و ہمت کی ایک تصویر اور مضبوط چٹان ہوتے،جس میں ملک دشمن افراد،دیس کے غداروں،پاکستان اور اس کے کاز کے خلاف بولنے والوں، پاکستان اور اس کے اداروں، پاک آرمی کے خلاف بولنے والوں کےلئے کوئی جگہ نہ ہوتی ہے۔ایسی آزاد ریاست ملک کےلئے جیتی اور مرتی ہے۔اس کا آنا اور جانا ملک و قوم کےلئے ہوتا ہے۔ وہ رسہ گیروں، جاگیر دارو ں ، سرمایہ داروں کے خلاف ہوتی ، ملک،عدلیہ اور آرمی کے خلاف موٹروے جتنی لمبی اور ہاتھی کی سونڈ کی طرح چلتی زبانوں کے خلاف ہوتی ہے۔وہ ملک دشمن عناصر،اس دیس کےخلاف بولنے والوں اور اس دھرتی کے راز افشاں کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتی۔وہ ملک مخالف باتیں کرنے والوں اور پاکستان کھپے نہ، کا نعرہ لگانے والوں کےلئے ایک چیلنج اور کیس ہوتی ہے۔وہ اپنے دیس کو کسی صورت بھی کسی بھی حالت میں دوسرے ملکوں کے حال پر نہیں چھوڑتی۔وہ کسی صورت بھی بیرونی ڈکٹیشن قبول نہیں کرتی۔وہ ایک ایسی ریاست ہوتی ہے جو عزم و ہمت کی ایک داستان ہوتی ہے جس کے سکیورٹی ادارے ملکی سلامتی و بقا کے نام پر جھوٹ نہیں بولتے،عوام کو سچی اور کھری بات ہی بتاتے،کسی بھی معاملے کی وضاحت ٹھیک طرح سے کرتے ، ڈنڈی مارنے کا تو تصور بھی نہیں کرتے،جس کے اداروں کی دوران خطاب باڈی لینگویج اور حرکات و سکنات سے قطعی طور پر نیوٹرل ہونے کا احساس ملتا ہوں،جو سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ نہ بناتے ہوں، قوم کے سامنے آج کیا اور کل کیا کے فرق کے بغیر ہی سچ سامنے لاتے،صرف سچ سچ اور سچ ہی بولتے ، اغیار کی محبت میں اندھے ہوکر اپنوں پر الزام اور غیروں پر کرم جیسی غیر ضروری صفائیاں نہ دیتے ہوں۔جن کا اخلاص، محبت،قربانیاں صرف اور صرف اپنے ملک و قوم کے ساتھ ہو،وہ ایک وقت میں اپنوں کے ساتھ اور دوسرے لمحے غیروں کے ہمراہ نہیں ہوتے ۔ پاکستان مخالف ملکوں کےلئے لوہے کا چنا ثابت ہوتے اور ان کے ظاہر اور باطن میں فرق نہ ہوتاہے۔ان کے کرنے اور دکھانے میں یکسانیت ہوتی ہے۔ان کے کردار اور چال ڈھال ایک جیساہوتا،وہ اپنے کردار اور افکار میں کھری اور سچی ہوتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ایک غلام ریاست سے کیسی توقع؟ دن کا روگ اور رات کی پریشانی ہوتی ہے۔ ایک غلام ریاست ایک ناکام ریاست ہوتی ہے جس کا کوئی قاعدہ کلیہ،انداز و اطوار ، مائی باپ نہ ہوتا ہے۔نظریہ ضرورت ہی جس کےلئے سب کچھ ہوتا ہے جس کی نظر میں جو میں نے کہہ دیا،کر دیا،وہ ہی سب کچھ ہوتا ہے جس کی نظر میں آئین و قانون بے کار،محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ، ایک ڈھونگ اور مذاق ہوتا،جس کے ساتھ حسب ضرورت ، حسب خواہش ، جب، جیسے جی چاہا، کھلواڑ کر لی ، ایک موم کی گڑیا ، ملک و قوم کو دیا گیا ایک ڈھکوسلہ اور فریب ، جس کی نظریہ ضرورت کے تحت من مرضی کی تشریحات ہو سکے،جس میں بازار حسن کی مانند میخانہ میں چھلکتے جام اور شباب کی طرح کے سیاست بازار لگیں۔ جس میں صرف جھوٹ بکے،سچ کا ایک بھی خریدار نہ ملے ۔مال مفت دل بے رحم معاملات ہوں , جس میں زمانے بھر کا کرپٹ اور بے ایمان سردار ہوں،جو جتنا لچھا ، اتنا ہی اچا ہو، جو باتوں اور خطابات میں بہت تیز طرار ہو اور یو ٹرن ہی اس کا پہلا معیار ہو ، اپنی Efficiency میں سب کو آتے ہی کردے ڈسٹرب،کام کچھ بھی نہیں برائے نام ، صرف نام ہی نام ہو،مزدور سے جسے شروع سے ہی بلا کا بیر ہو ، جس کے مزدور وعدے صرف رہیں وعدے ہی،عملی اقدامات کچھ بھی نہ ہوں،جس کے سائے میں ملک مخالف افراد ابھریں، ریاست مخالف باتیں کرنےوالے بڑے پھولے، پاکستان کھپے نہ ، جیسے نعرے پروان چڑھیں، ملکی راز افشاں ہو ںپاکستان کے موجودہ حالات میں ہمارے آپسی اختلافات کی صورت میں دشمن غضب کی چال چل گیا ہے۔ہمیں بحیثیت ایک قوم اب یہ فیصلہ لینا ہوگا کہ ہمیں آزاد رہنا یا غلا م۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے