آج آٹھ جولائی 2023ہے ،بظاہر تو یہ ایک عام سی تاریخ ہے لیکن سات سال قبل اس دن مقبوضہ کشمیر میںنوجوان کشمیریوں کی ترجمانی کرنےوالے برہان مظفر وانی کو بھارتی افواج نے قتل کر دیا تھا۔8جولائی 2016کو محاصرے اور گھر گھر تلاشی کی ایک کارروائی کے دوران 2 ساتھیوں کے ہمراہ شہید کر دیا گیا تھا،آج اس نوجوان وانی کی ساتویں برسی منائی جا رہی ہے۔اس موقع پر بھارتی فورسز کی طرف سے ہڑتال کی کال اور احتجاجی مظاہروں کے خوف سے حریت قیادت کو گھروں میں نظر بند کر دیا جاتا ہے۔کشمیری رہنما برہان وانی کی برسی سے قبل قابض انتظامیہ کی بوکھلاہٹ اس سے واضح ہوتی ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کے چمکتے ہوئے ستارے برہان وانی کی شہادت کو 7 برس بیت گئے ہیں۔ برہان وانی تقریباً6 برس تک قابض بھارتی فوج کیلئے خوف کی علامت بنے رہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وانی نے کشمیر کاز کیلئے سوشل میڈیا کے استعمال کو ایک نئی جہت بخشی تھی۔مثل مشہور ہے کہ جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے ، وانی نے وہ سب کچھ کر کے دکھا دیا تھا۔بھارتی فوج نے کئی مرتبہ برہان وانی اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کی سر توڑ کوششیں کیں مگر وہ چھلاوان کے ہاتھ نہ آسکا ۔ پھر8جولائی2016کو ایک ظالمانہ آپریشن میں برہان وانی کو شہید کر دیا گیا۔ برہان وانی کشمیری نوجوانوں میں انتہائی مقبول تھے جس کا اندازہ ان کی شہادت پر مہینوں تک جاری احتجاج کی سے لگایا جاسکتا ہے۔برہان وانی کی شہادت پر مقبوضہ وادی میں سوگ اور احتجاجی مظاہرے آٹھ ماہ تک جاری رہے۔ اس خوف نے بھارتی انتظامیہ کی نیندیں حرام رہیں اور پھر اس نے 5 اگست 2019 کو وہ اقدام اُٹھا لیا جس کی نظیر کہیں نہیں ملتی،یعنی اقوام متحدہ کا تسلیم شدہ متنازعہ علاقے کو ہڑپ کر لیا اور یواین کی گیدڑ انتظامیہ دیکھتی رہ گئی اور اپنے ہی سنہری اصولوں کی خاک اڑتی دیکھ کر بھی نہ جاگی۔ لین دنیا یاد رکھے کہ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی میں ہزاروں کشمیریوں کا خون شامل ہے اور دنیا کی کوئی طاقت ان کی آزادی کی آواز کو دبا نہیں سکتی۔ کشمیر کے حق خودارادیت اور آزادی کے حصول کےلئے جدوجہد جاری ہے۔ انگریز سے لے کر ڈوگرہ تک اور اب ہندو راج میںکشمیری قیمتی جانوں اور عزتوں کی قربانی دیتے رہنے ولاے کیسے چپ رہ سکتے ہیں۔یہ آزادی کی جدوجہد اقوام متحدہ کے ایجنڈے میں سب سے قدیم تنازعہ کی حیثیت سے موجود ہے۔ 13 جولائی 1931کے بعد سے کشمیریوں نے بہت سے شہدا کے دن دیکھے ہیں اور ہندوستانی زیادتیوں کا بہادری سے مقابلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لاکھوں کشمیری اس راہ میں جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں۔آج بھی مقبوضہ کشمیرکے نوجوان رہنما برہان مظفر وانی کا یوم شہادت دنیا بھر میں مقیم کشمیریوں نے عقیدت سے منائیں گے۔ مقبوضہ وادی مکمل طور پر ایک جیل کا منظر پیش کر رہی لیکن آزادی کے متوالے اپنے شہید رہنماو¿ں کے یوم منانے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ اگر مودی کی جابر فوج کی وجہ سے باہر کوئی نہ نکلا تو آج کا سب سے بڑا محاذ اور میدان جنگ سوشل میدیا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں برہان وانی کا نام سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کر تا ہے تو سوشل میڈیا انتظامیہ تعصب کا شکار ہو کر اکاونٹ ہی بلا کرنا شروع کر دیتی ہے۔سوشل میڈیا کا اس وقت دنیا پر راج ہے ،بغیر کسی دباو¿ کے ہر کوئی اپنی بات ان پلیٹ فارمز سے کر سکتا ہے لیکن دیکھا گیا ہے کہ سوشل میڈیا نیٹ ورکس کی انتظامیہ اپنے دعووں کے برعکس عمل پیرا ہے۔اس سے قبل کشمیری مجاہد برہان وانی کی تصویر لگانے پر کئی اکاونٹس بلاک کئے گئے ۔سماجی رابطوں کی ویب سائٹ فیس بک کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کو اجاگر کرنے پر آزادی اظہار رائے کو کچلنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ غیرجانبداری کے دعویدار یہ نیٹ ورکس مگر بھارت کے سامنے بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔برہان وانی کو کشمیر کی نئی مسلح جدوجہد کا’پوسٹر بوائے‘کہا جاتا ہے ان کی شہادت کے بعد کشمیر میں وسیع پیمانے پر احتجاجی تحریک شروع ہوئی تھی جسے دبانے کے لیے بھارتی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوںمیں مزید سینکڑوں افراد شہید کر دیئے گئے ۔بلاشبہ اس وقت کشمیر میںبربریت کی انتہا ہے۔جب بھارت کی فسطائیت کے خلاف مزاحمت کی تاریخ لکھی جائے گی تو برہان وانی کا نام ان کی دلیری اور مزاحمت کی علامت کے طور پر یاد کیا جائے گا۔ اسلحہ کے زور پر قوموں کے جذبہ آزادی کوکچلا نہیں جا سکتا۔برہان مظفر وانی تحریک آزادی کشمیر کے ایک روشن باب کا نیا عنوان ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی ہر طرح کی بیرونی مداخلت کے بغیر آگے بڑھ رہی ہے۔ بھارت ایک بدمست ہاتھی کی طرح اپنی قلیتوں سے برتاو¿ کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں رسوا بھی ہو رہا،لیکن وہ اس قول پر عمل کر رہا ہے کہ بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا ۔کشمیریوں کی طرح سکھ کمیونٹی بھی بھارت کےلئے گلے کی ہڈی بن گئی ہے۔اگلے روزایک سکھ گروپ کے حامیوں کی جانب سے برطانیہ اور کینیڈا میں نکالی گئی ریلیوں کےلئے جاری کیے گئے پوسٹرز میں بھارتی سفارتکاروں کو نشانہ بنانے کے بعد نئی دہلی میں کینیڈین سفیر کو بھارتی دفتر خارجہ طلب کر کے احتجاج ریکارڈ کرایا گیا۔ بھارت کا رونا ہے کہ سفارت کاروں اور ہمارے سفارتی احاطوں کے خلاف تشدد پر اکسانے والے پوسٹرز ناقابل قبول ہیں اور ہم ان کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔اس احتجاج کو کینیڈا نے خاطر میں نہیں لایا، کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کہا کہ بھارت کا یہ کہنا غلط تھا کہ وہ مظاہرین کےساتھ نرم رویہ اختیار کر رہے ہیں، اظہار رائے کی آزادی ہے تاہم بھارت بضد ہے کہ مسئلہ اظہار رائے کی آزادی کا نہیں ہے اسکے غلط استعمال سے تشدد کی وکالت کرنے، علیحدگی پسندی کا پرچار کرنے اور دہشت گردی کو قانونی حیثیت دینے کا ہے۔ادھر چند روز قبل سان فرانسسکو میں قائم بھارتی قونصل خانے میں بھی توڑ پھوڑ ہوئی تھی۔برطانوی وزیر خارجہ جیمز کلیورلی نے سکھ برادری کےلئے علیحدہ ریاست کے حامیوں کےلئے ریلی کی تشہیر کرنے والے پوسٹر کے بارے میں میڈیا رپورٹس کے بعد لندن میں بھارتی ہائی کمیشن پر کسی بھی حملے کے خلاف خبردار کیا ہے۔ امریکہ میں مقیم این جی او جسٹس فار آل نے جرمنی کے نازی اور ہندوستان کے ہندوتوا نظریے کے درمیان بصیرت انگیز مماثلت کے عنوان سے ایک رپورٹ جاری کی ہے۔ رپورٹ نے اس حقیقت کو ثابت کیا ہے کہ آر ایس ایس ہندوستان میں مسلمانوں پر اسی طرح ظلم کر رہی ہے جس طرح نازی جرمن حکومت نے ہولوکاسٹ کے دوران کیا۔ تحقیق میں بتایا گیا کہ نازی پارٹی آر ایس ایس سے مشابہت رکھتی ہے۔آر ایس ایس کے بانی گولوالکر نے کہا کہ یہودیوں کا صفایا سیکھنے اور فائدہ اٹھانے کا ایک اچھا سبق ہے۔ ہندوستانی کنزیومر کلچر اور تعلیمی پروگرامنگ اپنے شہریوں کو ہٹلر کی تعریف کرنے پر آمادہ کر رہے ہیں کیونکہ اس سے لوگوں کو ہندو بالادستی کو قبول کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ ہندوستانی شہریت کا قانون، لووجہاد، حلال گوشت پر پابندی اور دیگر بہت سے اقلیتوں کے خلاف قوانین نازی قوانین سے ماخوذ ہیں۔ ہٹلر کی راہ پر چلتے ہوئے، آر ایس ایس حجاب پر پابندی، مسلمانوں کو برہنہ کرنے، لوو جہاد، جئے شری رام کے نعرے لگانا اور لنچنگ کے ذریعے سرعام مسلمانوں کی تذلیل کر رہی ہے، جس طرح ہٹلر نے حراستی کیمپوں کے قیام سے برسوں پہلے یہودیوں کو غیر انسانی اور پسماندہ کیا، اسی طرح آر ایس ایس مسلمانوں کو غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنا رہا ہے۔ ہتھیاروں کے بارے میں ہٹلر کے جنون کی بی جے پی/آر ایس ایس گہری پیروی کرتی ہے جیسا کہ مودی کی پوجا کرنے والی بندوقوں، پرائیویٹ ہندو فوج اور ہندوستانی ہتھیاروں سے ظاہر ہوتا ہے۔ جس طرح نازی جرمنی نے عبادت گاہوں کو تباہ کیا تھا اسی طرح بی جے پی ہندوستان میں مساجد پر حملہ کر رہی ہے۔2002 کا گجرات قتل عام اور 2020 کا دہلی قتل عام نازی جرمنی کے قتل عام کی طرح ہے۔ یہ موازنہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ بھارت نازی نظریے سے متاثر ہو کر ایک فاشسٹ اور اکثریتی ریاست بننے کے خطرناک راستے پر گامزن ہے۔