آزاد کشمیر اس وقت شدید بحرانی کیفیت سے دوچار ہے۔ تین دن سے جاری جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی ہڑتال اور احتجاج نے خطے کی فضا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ معتبر ذرائع کے مطابق درجن کے قریب افراد پولیس اور مظاہرین کے مابین فائرنگ، تشدد اور جھڑپوں میں جاں بحق ہوچکے ہیں، جن میں سیکورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل ہیں۔ سینکڑوں زخمی اسپتالوں میں لائے جاچکے ہیں، جبکہ ضلع میرپور ڈویژن کے کئی تھانے خالی پڑے ہیں۔ ریاست کے مختلف حصوں کوٹلی، نکیال، کھوئی رٹہ، سہنسہ، ضلع باغ، سدھنوتی اور مظفرآباد میں کشیدگی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے لانگ مارچ کی کال دے رکھی ہے اور عوام مختلف اضلاع سے قافلوں کی صورت مظفرآباد کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ اس دوران قومی میڈیا نے مکمل بلیک آؤٹ کیا ہوا ہے اور بعض چینلز غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ حقیقت صرف سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آ رہی ہے، وہ بھی محدود شکل میں، کیونکہ موبائل اور انٹرنیٹ سروس معطل ہے۔29 ستمبر کو دنیا بھر میں پاکستانی سفارت خانوں کے باہر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔ یکم اکتوبر کو برمنگھم قونصلیٹ میں تین درجن افراد جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے اظہارِ یکجہتی کے لیے پہنچے تاکہ قونصل جنرل کو میمورنڈم پیش کریں، لیکن طے شدہ وقت کے باوجود قونصل جنرل ملاقات کے بغیر دفتر سے نکل گئے۔ مظاہرین نے ان کا راستہ روکا اور انہیں مطالبات سننے پر مجبور کیا۔ اطلاعات کے مطابق اس واقعے کی رپورٹ پولیس کو بھی دی گئی ہے۔اب یہ احتجاج صرف برطانیہ تک محدود نہیں رہا۔ لندن ہائی کمیشن کے باہر احتجاج ہوگا، جبکہ برمنگھم، مانچسٹر، بریڈفورڈ، واشنگٹن نیویارک اور یورپی شہروں میں بھی مظاہروں کا اعلان کیا گیا ہے۔ ابتدا میں یہ مظاہرے محض علامتی یکجہتی کے طور پر کیے گئے تھے لیکن اب ان میں شدت آنے کا خدشہ ہے، کیونکہ آزاد کشمیر میں عوام مشکلات میں ہیں، بازار بند ہیں، ذرائع مواصلات معطل ہیں اور لوگ بے یارو مددگار سڑکوں پر ہیں۔برطانیہ میں بھی اس صورتحال پر تشویش بڑھ رہی ہے۔ کشمیری نژاد تین لارڈز اور دس کے قریب ممبرانِ پارلیمنٹ کھل کر آواز بلند کرچکے ہیں۔ پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین عمران حسین ایم پی نے تیس ارکان کے ہمراہ کامن ویلتھ، حکومتِ پاکستان اور برطانوی حکومت کو خط لکھ کر آزاد کشمیر کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر شدید تشویش ظاہر کی ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اب یہ مسئلہ صرف کشمیری عوام تک محدود نہیں رہا بلکہ عالمی سطح پر سیاسی و سفارتی توجہ حاصل کر رہا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے اب تک محض زبانی بیانات کے علاوہ کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ ایسے نازک وقت میں جب عوام ریاستی اداروں سے اعتماد کھو بیٹھے ہیں، حکومتِ پاکستان کی بے حسی مزید فاصلے پیدا کر رہی ہے۔ عوام کھل کر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ کھڑے ہیں جبکہ آزاد کشمیر کی حکومت اور روایتی سیاسی جماعتوں کو یکسر مسترد کیا جاچکا ہے۔اگرچہ وزیراعظم انوار الحق نے وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری کے ساتھ ایک پریس کانفرنس میں مذاکرات کی پیشکش کی ہے، لیکن محض اعلان کافی نہیں۔ ضروری ہے کہ حکومت فوری طور پر جوائنٹ ایکشن کمیٹی سے براہِ راست رابطہ کرے اور وہیں سے بات آگے بڑھائے جہاں ڈیڈلاک ہوا تھا۔یہ بحران کسی ایک ہڑتال یا احتجاج کا نتیجہ نہیں۔ برسوں سے محرومیوں، ناانصافیوں اور وسائل کے ناجائز استعمال نے عوام کو ریاستی ڈھانچے سے بدظن کر دیا ہے۔تھانے، عدالتیں، بیورو کریسی اور حکمران طبقہ برسوں سے آزاد کشمیر کے وسائل لوٹ رہے ہیں۔ عوام یہ سوال کرنے پر مجبور ہیں کہ کیا یہ نظام ریاست کہلانے کے قابل ہے یا محض مفاد پرستوں کا کھیل؟ریاست عوام کے اعتماد اور انصاف کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ اگر عوام کو مسلسل نظرانداز کیا جائے تو پھر یہ ملک نہیں بلکہ جنگل کہلانے کا مستحق ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام تبدیلی چاہتے ہیں اور اس مرتبہ ان کا عزم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط دکھائی دیتا ہے۔یاد رہے کہ کشمیر اور پاکستان لازم و ملزوم ہیں۔ کشمیری عوام کی اکثریت پاکستان سے علیحدگی نہیں چاہتی، لیکن شکوے شکایات ضرور رکھتی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ وہ اپنے طرزِ حکمرانی اور پالیسیوں پر نظرثانی کرے تاکہ کشمیری عوام کے دلوں میں موجود اعتماد مزید کمزور نہ ہو۔ اگر عوامی اعتماد ٹوٹ گیا تو یہ صرف کشمیر کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے مستقبل کے لیے بھی خطرے کی گھنٹی ہوگی۔