کالم

آلودگی کے خلاف جنگ۔۔۔!

اکتوبر سے جب فضا میں ہلکی ٹھنڈک اترنے لگتی ہے تو لاہور اور صوبہ پنجاب کے بیشتر علاقے ایک بار پھر اسموگ کے نرغے میں آجاتے ہیں۔ صبح کے اوقات میں سورج کی کرنیں دھند کے پردے کو چیرنے کی کوشش کرتی ہیں مگر یہ دھند نہیں بلکہ آلودگی اور دھوئیں کا ایسا مرکب ہوتا ہے جو انسانی صحت، ماحول اور معیشت، تینوں پر زہر گھول دیتا ہے۔ لاہور جو کبھی باغوں کا شہر کہلاتا تھا، آج دھوئیں اور گردوغبار کی آماجگاہ بن چکا ہے۔ فیکٹریوں کی چمنیاں مسلسل زہریلا دھواں اگلتی ہیں، گاڑیاں سڑکوں پر چلتے چلتے فضا میں کاربن کا طوفان چھوڑ جاتی ہیں اور فصلوں کی باقیات جلانے کی روایتی عادت نے صورتحال کو ناقابلِ برداشت کر دیا ہے۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں کسان گندم کی کاشت سے پہلے چاول کی فصل کے بچ جانے والے بھوسے کو جلانا آسان سمجھتے ہیں کیونکہ مشینری سے صاف کرنے میں وقت اور پیسہ لگتا ہے مگر یہی چند دنوں کا آسان حل پورے خطے کیلئے ایک طویل المیہ بن جاتا ہے۔ لاہور، شیخوپورہ، قصور،فیصل آباد، گوجرانوالہ اور اوکاڑہ کے علاقے خاص طور پر اسموگ کی لپیٹ میں آتے ہیں۔ محکمہ ماحولیاتی تحفظ کی رپورٹوں کے مطابق لاہور میں فضائی معیار کا انڈیکس اکثر اوقات 400سے تجاوز کر جاتا ہے جو کہ انتہائی خطرناک زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ عام طور پر 50تک انڈیکس کو صاف فضا، 100 تک معتدل جبکہ 200سے اوپر کو انسانی صحت کیلئے مضر سمجھا جاتا ہے یعنی لاہور کے شہری روزانہ زہریلی فضا میں سانس لیتے ہیں۔ اس فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور پارٹیکیولیٹ میٹرکی مقدار خطرناک حدوں سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔ یہ آلودگی صرف آنکھوں اور سانس کی تکالیف نہیں بلکہ دل اور دماغ کے امراض کا باعث بھی بن رہی ہے۔ اسپتالوں کے اعدادوشمار کے مطابق اس موسم میں سانس کی بیماریوں، دمہ، برونکائٹس، نزلہ، زکام اور آنکھوں کی جلن کے مریضوں میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال تقریبا ستر لاکھ افراد فضائی آلودگی کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور پاکستان ان ممالک میں شامل ہے،جہاں اسموگ تیزی سے ایک خاموش قاتل بن رہی ہے۔لاہور اور پنجاب کو اسموگ سے واقعی نجات دلانے کیلئے صرف وقتی بندشوں یا مہمات سے بات نہیں بنے گی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک طویل المیعاد، سائنسی اور مربوط منصوبہ بندی کی جائے۔ سب سے پہلے زرعی شعبے میں تکنیکی اصلاحات ضروری ہیں۔صنعتی شعبے میں بھی سخت نگرانی ناگزیر ہے۔ لاہور، شیخوپورہ اور قصور کے صنعتی زونز میں فیکٹریوں کو جدید فلٹرز لگانے کی پابندی کرنی چاہیے۔ اگر کوئی فیکٹری دھواں چھوڑتی ہے تو اسے فوری طور پر بند کر دیا جائے، نہ کہ محض جرمانہ عائد کیا جائے۔ انڈسٹری کے مالکان کیلئے ٹیکس رعایتیں صرف ان صورتوں میں دی جائیں جب وہ ماحول دوست اقدامات اختیار کریں۔شہری علاقوں میں گاڑیوں کا رش بھی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ لاہور میں روزانہ تقریبا چالیس لاکھ گاڑیاں سڑکوں پر نکلتی ہیں، جن میں سے ایک بڑی تعداد پرانی اور دھواں چھوڑنے والی ہے۔ حکومت کو فوری طور پر الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینا چاہیے۔ لاہور میں الیکٹرک رکشوں اور بسوں کی تعداد بڑھائی جا سکتی ہے جبکہ نجی گاڑیوں کے بجائے پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کو سہولت اور کم کرایوں کے ذریعے عام کیا جائے۔درخت لگانے کی مہمات بھی محض رسمی تقاریب تک محدود نہیں رہنی چاہییں۔ لاہور کے درخت کٹ چکے ہیں سڑکوں کی توسیع، تعمیراتی منصوبے اور کمرشل عمارتوں کی بھرمار نے شہر کو کنکریٹ کا جنگل بنا دیا ہے۔ فضا کو صاف کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر شجرکاری ناگزیر ہے لیکن اس شجرکاری کا نظام سائنسی ہونا چاہیے یعنی ایسے درخت لگائے جائیں جو زیادہ آکسیجن پیدا کریں اور آلودگی کو جذب کریں۔ عوامی سطح پر بھی تبدیلی ضروری ہے۔ آلودگی صرف حکومتی مسئلہ نہیں بلکہ اجتماعی ذمے داری ہے۔ میڈیا کو بھی اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے موسمیاتی تبدیلی اور آلودگی کے اثرات پر دستاویزی پروگرام نشر کرنے چاہییں۔عالمی سطح پر دیکھا جائے تو چین اور یورپ کے کئی ممالک نے فضائی آلودگی پر قابو پانے کیلئے موثر پالیسیاں اپنائی ہیں۔ لاہور اور پنجاب میں بھی انہی خطوط پر سخت مگر پائیدار پالیسی اپنانی ہوگی۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اسموگ کو ایک قومی بحران کے طور پر دیکھا جائے اور وفاقی سطح پر ایک مشترکہ ماحولیاتی پالیسی بنائی جائے جس میں پنجاب، سندھ، خیبرپختونخوا اور بلوچستان سب شامل ہو۔آلودگی کیخلاف جنگ کسی ایک حکومت یا ادارے کا کام نہیں بلکہ یہ ایک اجتماعی جدوجہد ہے۔ جب تک عوام خود اپنی عادتیں نہیں بدلیں گے، کوئی قانون کامیاب نہیں ہو سکتا۔ کوڑا کرکٹ جلانا، غیر ضروری گاڑیوں کا استعمال یا درختوں کی کٹائی، یہ سب ہماری روزمرہ عادات ہیں جنہیں بدلنا ہوگا۔ اگر ہم آج سنجیدگی سے قدم نہیں اٹھاتے تو آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی۔لاہور کی فضا جو کبھی خوشبوں سے مہکتی تھی، آج زہر آلود ہو چکی ہے لیکن اگر حکومت اور عوام مل کر نیت کریں، جدید ٹیکنالوجی کو اپنائیں، ماحول دوست طرزِ زندگی اختیار کریں اور قانون پر سختی سے عملدرآمد ہو تو وہ دن دور نہیں جب پنجاب کی صبحیں دوبارہ نیلی اور شفاف فضا سے منور ہوں گی۔ اسموگ سے پاک لاہور صرف خواب نہیں بلکہ ایک قابلِ عمل حقیقت بن سکتا ہے، بس ارادہ، نظم و ضبط اور اجتماعی شعور کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے