عبدالولید محمد ابنِ احمدمحمد رُشد جو ابنِ رُشد کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ ان کا مغربی دنیا نےAverroes کا نام رکھا ۔ ابن رشد 1126ءمیں سپین کے صوبہ اُندلس کے ایک مشہور شہر قرطبہ میں پیدا ہوئے۔ان کے والد اور دادافقیہ تھے۔ دادا جامع مسجد کے امام اور قاضی بھی رہے۔ والد اشبیلیہ کے قاضی تھے۔ اُن کے آباﺅ امام مالک کے پیرو تھے۔ ابتدائی تعلیم قرطبہ میں حاصل کی۔ اورامام مالک کی مرتب کردہ حدیث کی کتاب موطا اُن کو حفظ تھی۔باپ کے علاوہ درجن بھر اہل علم کی صبحت میں علومِ حکمت کی تکمیل کی۔ تحصیل علم کے بعد دوستوں میں بیٹھ کر علم و حکمت کی محافل سجایا کرتے تھے۔ان دوستوں میں ابوالعباس حافظ شاعر القراتی، قاضی بجایہ، ابو عبداللہ محمد بن ابراھیم فقیہ، ابو جعفر ذہبی اور فقیہ ابوالرابع الکفیف قابل ذکر ہیں۔ ان رشد کے شاکردوں میں ابوعبداللہ الندرومی اور ابوالو لید کے نام نمایاں ہیں۔ ابو محمد بن مغیث کے بعد ابن رشد کو قرطبہ کا قاضی مقرر کیا گیا تھا۔ابو مروان الباجی سے مروی ہے کہ” ابن رشد صائب الرائے،ذکی الطبع، لاغر اندام اور قوی النفس تھا۔ اُس نے علم کلام، فلسفے اور قدماءکے علوم کی طرف اس درجہ توجہ کی کہ ان علوم میں ضرب المثل ہو گیا۔ اُس کا ایک مشہور قول ہے” جس نے علمِ تشریع کی جانب توجہ کی خدائے تعالیٰ پر اُس کا ایمان قوی ہو گیا“ خلیفہ وقت یوسف بن عبدالمومن سے ابن رشد کی پہلی ملاقات میں فلسفے پر بحث سے ہوئی۔ لیکن ابن رشد کے سامنے خلیفہ کی ایک نہ چلی۔محی الدین نے اپنی کتاب”المعجب“ میں استاد ابوبکربندودبن یخییٰ القرطبی فقیہ شاگرد ابن رشد سے روایات کی ہے کہ” میں نے حکیم ابن رشد کو اکثر کہتے ہوئے سنا ہے کہ جب امیرالمومنین ابو یعقوب کے ہاں گیا تو وہاں صرف اس کو اور ابو بکر بن طفیل کا پایا۔ امیر المومنین نے دریافت کیا”آسمان کے متعلق فلاسفہ کا کیا خیال،آیا قدیم ہے یاحادث؟ اس پر مجھے حیا اور خوف دامن گیر ہوا۔ پس میں نے بہانہ کرتے ہوئے اپنی فلسفہ دانی سے انکار کیا اور مجھے نہیں معلوم کہ ابن طفیل نے امیرالمومین کو کیا باور کرایا کہ انہوں نے میرے خوف و حیاکو معلوم کر لیا۔ اس کے ابن طفیل سے وہی پوچھا جو پہلے مجھ سے پوچھا تھا۔اس نے افلاطون اور ارسطو کے خیالات کا اظہار کیا۔ نیز اسلام کے اعتراض بھی بیان کیے۔ میں اس کے حافظہ کو قوی پایا۔ میں بھی اس بحث میں شریک ہو گیا۔ جب رخصت ہوا تو امیر امومنین نے کچھ رقم،اعلیٰ خلعت اورایک گھوڑے کا حکم دیا۔ایک دفعہ ابوبر بن طفیل نے مجھے بتایا کہ امر المومنین کا کہا ہے کہ ارسطو اور اس کے مترجمین میں بہت سے خامیاں ہیں کوئی ایسا شخص ہو جو اس کو ان کی تلخیص کر سکے۔ کامل غور وفکر کے بعد عام فہم انداز میں ان کے اصلی اغراض کی بھی تشریع کر دے تو بہتر ہوگا۔ ابن رشد کا کہنا ہے کہ میں اسی حکم پر حکیم ارسطو کی کتابوں کی تلخیص پرنے پر آمادہ ہوا۔ابن رشد نے یہ کام کیا۔س میں حکیم ارسطو کی کتب، کتاب السماءو العالم، رسالہ کون و فساد،کتاب آچار علومیہ اور کتاب حس محسوس کی تلخیص کی۔ ان کے اغراض بھی واضح کیے اور اپنی تلخیص کا نام”کتاب الجوامع“ رکھا۔ تاریخ گواہ ہے کی دنیائے اسلام کے حکمران ہمیشہ سے علم و حکمت کے فروغ کے لیے کوشاں رہے ہیں۔ اسی وجہ سے غیر مسلموں نے بھی ان کی علم دوستی کی تعریف کی۔ رابرٹ بر یفالٹ اپنی تصنیف” تعمیر انسانیت“ میں لکھتے ہیں۔” بغداد، شیرازاور قرطبہ کے مسلم حکمران علوم و فنون و ثقافت کے لافانی خزانوں کے حصول میں کوشاں رہتے تھے۔ علم ہی ان کے درباروں کی شان و شوکت ہوتی تھی۔ نہ اس سے قبل اور نہ اس کے بعد اتنے بڑے پیمانے پر حصول علم کے لیے اتنی پر جوش کوشش ہوئی۔ حصولِ علم ان کی زندگی کا سب سے اہم مشغلہ تھا۔ خلیفہ اور امراءاپنے روز کے کاموں سے فارغ ہو کر سیدھے کتب خانوں اور تجربہ گاہوں کا رخ کرتے تھے اور اپنا بیش تر وقت صرف کرتے تھے۔ مسودوں اور جڑی بوٹیوں سے لدے ہوئے قافلے بخارا سے دریائے دجلہ اور مصر سے اندلس کی جانب جاتے تھے۔ کتابوں اوراساتذہ کو حاصل کرنے کے لیے قسطنطنیہ اور ہندوستان کو وفود روانہ ہوتے تھے۔ یونانی مصنفین کی تصانیف یا کسی مشہور ریاضی دان کی تصانیف کی قیمت سلطنتوں کے خزانے کے برابر ادا کی جاتی تھی“جہاں تک ابن رشد کا ذکر ہے تو جب تک خلیفہ مہربان تھے تو واقعات و حالات ابن رشد کے ساتھ رہے۔ مگر جب خلیفہ گردش زمانہ نے انھیں اپنی لپیٹ میں لیے تو عزت وناموس، جاہ و جلال اور منصب و مراتب سب خاک میں مل گئے۔ ان پر حادوں نے الحاد کا الزام لگایا۔ ان کا کہنا تھا کہ” فلسفہ مذہب پر اوّلیت رکھتا ہے“ پھر قرطبہ کی مسجد میں ابن رشد کو بڑے بڑے علماءاور مفتیان کے سامنے ایک ملزم اور مجرم کی حیثیت سے پیش کیا گیا۔ پھر انہیں قرطبہ کے مضافات میں ایک یہودی کے قصبے ایسانہ میں بھیج دیا گیا۔ چار سال وہاں رہنے کے بعد دس دسمبر1198ءمیںابن رشد نے وفات پائی۔ انھیں مراکش میں دفن کیا گیا۔ مورخ لکھتے ہیں کی ابن رشد سے غلطی ضرور ہوئی۔ابن رشدکی کتاب میں اس جملہ کہ” پس یہ ظاہر ہوا کہ زہرہ بھی ایک معبود ہے“ میں تنازہ پیداہوا۔ ابویوسف نے شہر قرطبہ کے ہر طبقے کے روسا اور اعیان کو جمع کر کے ابن رشد کو طلب کیا۔ اس کے اوراق کا اس کے سامنے پھینک کر پوچھا” کیا یہ تمھارا خط ہے“ ابن شد نے انکار کیا۔ اس کے بعد ابن رشد کو یہودیوں کی بستی میں منتقل کروا دیا۔ اس کے ساتھ ان لوگوں کو بھی فرمان جاری کیا جو ان علوم میں بحث کرتے تھے، کہ تمام لوگ یک لخت ان علوم کوترک کر دیں اور فلسفے کی تمام کتابیں جلا دیں ۔ سوائے اس کے کہ طب، حساب اور علم نجوم کے اس حصے سے متعلق ہوں جن سے شب روز کے اوقات اور قبلہ کی دریافت ہوتی ہو۔ یہ مراسلے تمام شہروں میں بھیجے گئے اور ان پر کماحقہ عمل کیا گیا۔شیخ ابوالحسن الرعینی نے اپنے شیخ ابو محمد عبدالکیبر سے روایت کی ہے کہ ابن رشد پر الزام کی تردید کی مگر ایک واقعہ میں اس کو قصور وارٹھرایا۔ اس وقت مشرق اور مغرب کے نجومیوں نے ایک خاص دن سخت آندھی آنے اور لوگوں کے ہلاک کی بات مشہور کی۔ لوگ پریشان ہوئے اور والی قرطبہ کے پاس پہنچے۔ قرطبہ میں اس وقت ابن شد اور ابن بندود مشہور نجومی تھے۔ ابن رشد اس وقت قرطبہ کا قاضی بھی تھا۔ ابن رشد اور ابن بندود نے طبیعت اور کواکب کی تاثیرات کے لحاظ سے گفتگو شروع کی۔یہ بات صحیح ہے تو ابو محمد الکبیر نے ابن رشد سے کہا کہ آندھی تو نہیں چلی، نہ لوگ ہلاک ہوئے۔ اس پر ابن رشد بولے کہ بخدا قوم عاد کا ہی وجود ثابت نہیں ہوتا۔ ابن شد کی اس بات سے حاضرین میں ان کی وقعت کم ہو گئی۔ اس کی اس بات کو صریح کفر اور کذب ہر محمول کیا گیا۔ کیونکہ اس پرقرآن پاک کی آتیں ناطق تھیں جس میں باطل کی کسی طرح گنجائش نہیں۔عیسائیوں مفکرین نے ابن رشد کوہاتھوںہاتھ لیا۔ ابن رشد نے زماں میں دنیا کی تخلیق کے تصور کو مسترد کیا۔ وہ کہتا ہے دنیا کا کوئی نقطہ آغاز نہیں۔ اصل میں علم نجوم کو حقیقت سے کوئی جوڑ نہیں۔ حیقیقت ہی حقیقت ہے۔ جو قرآن نے بیان کر دی ہے۔ابن رشد کی کچھ کتابیں ضائع ہو گئیںاور کچھ باقی ہیں۔ارسطو کی کتابوںمیں ابن رشد کی دوشرحوں کا پتہ چلتا ہے۔ابن رشد کی فلسفہ پر اٹھائیس کتب (28) ہیں۔ الہٰیات پر پانچ (5) ہیں ۔ فقہ پرپانچ(5)ہیں۔ فلکیات پر چار (4) ہیں اور طب پر بیس (20) ہیں۔